• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صرف مسٹر جناح
قائداعظم محمد علی جناح، لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور جواہر لعل نہروکے ساتھ 3جون 1947کے تقسیم ہند کے تاریخی اعلان کے موقعے پر

جاوید اقبال خواجہ، (لندن)

برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے محمد علی جناح کو قائد اعظم کے منفرد خطاب سے اس طرح سرفراز کیا کہ یہ خطاب ان کے نام کا مترادف اور جزو لاینفک بن گیا۔ اپنی سیاسی زندگی میں قائد اعظم بیک وقت ایک مدبر، ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے بانی اور گورنر جنرل کی حیثیت سے اس کے پہلے سربراہ مملکت تھے۔ انہوں نے قیام پاکستان کی جنگ، برصغیر کے مسلمانوں کی بھر پور حمایت سےغیرملکی برطانوی حکمرانوں ،کانگریسی رہنماؤں اوران کے حامی نیشلسٹ مسلمانوں کی مشترکہ قوت سے لڑ کر قانونی اور آئینی طریقے سے جیتی تھی ۔ اُس وقت برصغیر میں ایک سے ایک بڑھ کر اہم سیاسی اور مذہبی رہنما موجود تھے، جو اپنے اپنے انداز میں ہندوستان کی آزادی کے لئے کوشاں تھے، لیکن قانونی اور دستوری معاملات پر جس طرح کی مہارت قائداعظم کو حاصل تھی ، انہوں نے پاکستان کے قیام کے لئے ،جو کام یاب سیاسی اور قانونی اور آئینی حکمت عملی وضع کی تھی، پاک و ہند کی تاریخ میں کوئی لیڈرآج تک اس بارے میں ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

قائداعظم محمد علی جناح نے طویل سیاسی سفر میں اپنے اختیار کردہ اصولوں پر روز اول سےسختی سے عمل کیا،جس کے باعث ہر سیاسی معرکے میں، جن میں ان کے حریف برطانوی حکمران بھی تھے اور کانگریسی لیڈر بھی، وہ ہمیشہ سرخرو رہے۔دسمبر 1904 میں بمبئی کے کانگریس اجلاس میں پہلی دفعہ شرکت سے لے کر ستمبر 1948میں وفات تک ان کے مخالفین اور نقاد بھی ان کی دیانت اوراصول پسندی کے معترف تھے۔ قائد کی سیاست معاشی خود کفالت، ہندوستان کو درپیش مسائل کے گہرے ادراک ،عملیت پسندی ، دستوری اورقانونی طریقہ کار کی پیروی اور اپنے مقصد کے حصول پر پوری توجہ رکھنے کے اصولوں پر استوار تھی۔ وہ انگریز حکمرانوں سے جن میں برطانوی وزرائے اعظم،وزراء گورنر جنرل، وائسرائے اور گورنر شامل تھے،کبھی مرعوب نہیں ہوئے ۔جناح صاحب نے بڑے سےبڑے ہندو، رہنماؤں اور کانگریسی لیڈروں، جن میں گاندھی ، نہرو،سردار پٹیل ،راجندر پرشاد،راج گوپال اچاریہ اور مولانا ابواکلام آزاد شامل تھے، سےہمیشہ برابری کی سطح پر معاملہ کیا۔ اپنے پورے سیاسی کیریئر میں انہوں نے مناصب ، خطابات اور القابات کو نظرانداز اور اس سلسلے میں ہر پیش کش اور ترغیب کو ٹھکراتے ہوئے اپنی تمام ترتوجہ برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کے دفاع اور ان کے لیے ایک علیحدہ اور آزاد و خود مختار مملکت کے قیام پر مرکوز رکھی ، وہ قیام پاکستان کے عظیم الشان مقصد پر آخری وقت تک ڈٹے رہے۔ قیام پاکستان کے حصول کے لئے ترتیب دی گئی اپنی حکمت عملی میں جناح صاحب نے سب سے پہلے مسلم لیگ کوہندوستان بھر میں اس طرح منظم کیا کہ وہ چند ہی برسوں میں برصغیر کے مسلمانوں کی سب سے طاقت ور نمائندہ جماعت بن گئی۔ دوسرے مرحلے پرقائد نےانڈین کانگریس کے اس دعوے کو ،کہ ہندوستان کے مسائل کے حل اور اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں صرف برطانوی حکومت اور کانگریس دو فریق ہیں، سختی سے رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایک تیسرا اور سب سے اہم فریق’’مسلم انڈیا ‘‘ہے، جسے نظرانداز کرکے برصغیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اپنی حکمت عملی کے اگلے مرحلے پرقائد نے 1940 میں ’’قرارداد لاہور‘‘کے ذریعے ایک علیحدہ ملک کےقیام کی تجویز پیش کرکے اسے بر صغیر کے مسلمانوں کا سب سے اہم مطالبہ بنا دیاکہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘کا نعرہ پورے ہندوستان میں ہر طرف گونجنے لگا۔مسلمانوں کے لئے ایک آزاد وطن کے حصول کی کشمکش کے آخری مرحلے میں قیام پاکستان کے مطالبے کو قانونی اور آئینی طریقے سےقائداس طرح آگے بڑھاتے رہے کہ برصغیر کو متحد رکھنے کی برطانوی حکمرانوں کی خواہش اسے روک سکی اورنہ کانگریسی رہنماؤں کی بے پناہ مخالفت اور دشمنی ۔ تمام تر مخالفتوں اوردھمکیوں کے باوجودقائداعظم مسلمانوں کےلئے ایک آزاد ملک پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں کامیاب وکامران ہوئے۔ ایک خود مختار پاکستان ان کی اس کامیابی کالافانی ثبوت ہے اور تاریخ عالم میں ایک یہی اعزاز انہیں انفرادیت عطا کرتاہےکہ وہ ایک ایسے ملک کے قیام میں کامیاب ہوئے ،جو اگست 1947سے پہلے دنیا کے نقشے پرموجود نہیں تھا۔یوں تو ان کی اس بے مثال کامیابی کے بہت سے منفردپہلو ہیں، جن کے تذکرے کو تازہ کرنا بہت اہم ہے لیکن ان کے کردار اور عملی زندگی کی دو ایسی درخشاں جہتیں ہیں جو ان کو اپنے تمام ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہیں۔

معاشی آزادی اور مالی ایثار

مئی 1896میں صرف انیس سال کی عمر میں لندن کےمشہور ادارے لنکنزاِن Lincoln’s Inn))سے بیرسٹری کا امتحان پاس کرنے کے بعد محمد علی جناح نےاسی سال بمبئی میں قانونی پریکٹس شروع کی۔ اس وقت بمبئی میںوہ، واحد مسلمان بیرسٹر تھے۔ 1900میں انہوں نے عارضی آسامی پربمبئی پریذیڈنسی مجسٹریٹ کے طور پرچند ماہ کام کیا ،جب پندرہ سو روپیہ ماہوار کی تنخواہ پر انہیں یہ پوزیشن مستقل بنیاد پر پیش کی کی گئی تو قائد نے یہ کہہ کر اسے قبول کرنے سے معذرت کر لی کہ وہ پندرہ سو روپے روز کمانا چاہتے ہیں،اور انہوں نے یہ کر دکھایا ، ان کی آمدنی بتدریج چالیس ہزار ،روپے ماہانہ تک جا پہنچی ،جو ان دنوں بڑی خطیر رقم تھی۔ یہ جناح صاحب کا معاشی خود کفالت کی طرف اوّلین قدم تھا۔ ان کی قانونی پریکٹس دن بہ دن ترقی کرتی گئی اور جلد ہی ان کا شمار برصغیر کے چوٹی کے وکلاء میں ہونے لگا ۔ان کے موکلین میں نظام حیدرآباد دکن، نواب آف بھوپال اور راجہ صاحب محمودآباد شامل تھے۔ 1930اور1934کے درمیان جب وہ عارضی طور پر سیاست سے کنارہ کش ہو کر لندن کی پریوی کونسل میں پریکٹس کرنے لگے تو اس وقت بھی ان کی ماہانہ آمدنی 2000پونڈ تھی ۔وہ لندن کے مشہور علاقے ہمپسیٹڈ( Hempstead)میں رہائش پزیر تھے ، انہوں نے اپنی سواری کے لئے بینٹلے Bentley کار (اس کا شمار آج بھی مہنگی ترین کاروں میں ہوتا ہے) رکھی ہوئی تھی ، جسے ان کا انگریز شوفر بریڈبری Bradburyچلاتا تھا۔ قائد 1942 تک قانون کے پیشے سےمنسلک رہے۔

صرف مسٹر جناح
قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی ایک یادگار تصویر

وکالت کے ساتھ ساتھ جناح صاحب کی آمدنی کا ایک اورذریعہ مختلف کمپنیوں کے شیئرزاور پراپرٹی کی خریدوفروخت تھا۔ وہ اپنی تمام تر آمدنی کاباقاعدہ حساب رکھتے تھے-ان کا شمار برصغیر کے ان گنے چنے افراد میں ہوتا تھا، جوسپر ٹیکس اور سپر ٹیکس سرچارج بھی ادا کرتےتھے۔اس معاشی خود کفالت کے باعث قائد کو آزادی عمل حاصل تھی ،ان کے ہم عصر بیش ترسیاسی اور مذہبی رہنما ؤں کو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ مشہور واقعہ ہے کہ کسی نے ان پر اعتراض کیا تھا کہ گاندھی جی ریل کے تیسرے درجے میں سفر کرتے ہیں اور آپ درجہ اوّل میں، قائد کا جواب تھا کہ ان کا کرایہ کانگریس ادا کرتی ہے، جب کہ میں فرسٹ کلاس کا ٹکٹ اپنی جیب سے خریدتا ہوں۔ قائد اعظم نے جو کمایا وہ خود ان کی محنت کی کمائی تھی۔ ان کے کردار اور عمل میں بے پناہ خودداری تھی –،وہ مسلم لیگ کے تا حیات صدر رہے، لیکن انہوں نے اپنی ذات کے لئے ایک پائی بھی مسلم لیگ فنڈز سے نہیں لی بلکہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے انہوں نے اپنی تنخواہ صرف ایک روپیہ ماہوار مقرر کی۔اپنی علالت کے دوران قائد نے معالجین کے اصرار کے باوجود برطانیہ اور امریکا سے ڈاکٹر بلوانے سے انکار کر دیا کہ اس سے سرکاری خزانے پر بوجھ پڑے گا-ان کے مالی ایثار کا سب سے بڑا ثبوت ان کا وصیت نامہ ہے۔قائد نے اپنی تمام تر ورا ثت جس کی مالیت کروڑوں میں تھی ،کا ایک حصہ اپنی بہنوں(محترمہ فاطمہ جناح کو دیگر بہنوں کی نسبت زیادہ حصہ ملا کہ انہوں نے ساری زندگی اپنے بھائی کی خدمت کے لئے وقف کردی تھی)،بیٹی اور بھائی کے علاوہ ، 25 ہزار روپے انجمن اسلام اسکول بمبئی،50 ہزار روپے بمبئی یونیورسٹی اور 25 ہزار روپے عربک کالج دلی کو دینے کی وصیت کرنے کے بعد باقی تمام ترجائیداد تین تعلیمی اداروں ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،اسلامیہ کالج پشاور اورسندھ مدرسہ کراچی میں برابر تقسیم کرنےکی ہدایت کی۔ قائد کی قائم کردہ معاشی خود مختاری اور مالی ایثار کی روایات پر عمل کرنا پاکستان کے حکمران طبقوں کے لئے مشعل راہ بھی ہےاور چیلنج بھی۔ان کی وصیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہےکہ ان کے نزدیک تعلیم کی کتنی اہمیت تھی اور وہ تعلیمی،خصوصا ً مسلم اداروں کے کتنے قدردان تھے۔

صرف مسٹر جناح

سرکاری عہدے، خطابات اور القابات سے قائداعظم کو کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ برصغیرکے کروڑوں مسلمانوں نے جناح صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کے اعتراف میں انہیں قائد اعظم کا جو خطاب دیا تھا، وہی ان کے نام کا اس طرح متبادل بن گیا کہ گاندھی جی کو تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود اسے استعمال کرنا پڑا۔جناح صاحب نے برطانوی راج کے دور میں کوئی عہدہ یا ٹائٹل قبول نہیں کیا، تقریبا ًچار دَہائیوں پر محیط طویل پارلیمانی کیریئر کے دوران انہیں انگریز حکمرانوں اور ہندو رہنماؤں کی طرف سے کئی مرتبہ مناصب اور خطابات کی پیشکش کی گئی، لیکن انہوں نے ہر طرح کی ترغیبات کو نظرانداز کرکے اپنی تمام تر توجہ آزادی کے حصول اور پاکستان کے قیام پر مبذول رکھی۔یہ ایک ناقابل تردیدتاریخی حقیقت ہے کہ ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میںیا انہیں اپنے مقصد سے ہٹانے کے لئے ہر دور میں خطابات اور عہدے کی پیشکش ہوتی رہی ،لیکن انہوں نے ہمیشہ ایک شان بے نیازی سے اسے قبول کرنے سے معذرت کر لی –، بعض انگریز حکمران ان کی صلاحیتوں کے دل سےمعترف تھے۔ 1917 میں وزیر ہندایڈون مانٹیگو( Edwin Montagu )کا ہندوستان کے دورے کے دوران مختلف ہندوستانی سیاسی رہنماؤں سے رابطہ رہا ۔ وہ جناح صاحب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، انہوں نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ’’ جناح بہت سمجھدار انسان ہیں یہ انتہائی ظلم اور افسوس کی بات ہے کہ ایسی صلاحیتوں کے حامل شخص کو اپنے ملک کے معاملات چلانے کا کوئی اختیار نہیں۔‘‘ مانٹیگو واحد شخصیت نہیں تھے، جنہیں جناح صاحب نے اپنی صلاحیتوں سے متاثر کیا تھا۔ وائسرائےلارڈ ریڈنگ (Lord Reading )جناح صاحب کی صلاحیتوں سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے دسمبر 1925 میں ان کا نام سر کے خطاب کے لیے برطانوی حکومت کو پیش کرنا چاہا، لیکن قائد نے اس پیشکش کے جواب میں معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف مسٹرجناح کے نام سے زندہ رہنا پسند کرتے ہیں اور صرف مسٹر جناح کے نام سے ہی مرنا چاہتے ہیں۔وہ خطابات اور کوئی عہدہ قبول نہ کرنے کی روش پر آخری دم تک قائم رہے ۔برطانوی حکومت نے ہندوستان کے آئینی اور ہندو مسلم مسائل کے حل کے لیے 1930میں لندن میں گول میز کانفرنس طلب کی۔برطانیہ میں لبرل پارٹی کی حکومت کے خاتمے پر لیبر پارٹی نے پہلی دفعہ اقتدار سنبھالاتھا ۔ قائداعظم کے دوست اور لیبر پارٹی کے رہنما ریمزے میکڈونلڈ( Ramsay MacDonald )وزیر اعظم بن چکے تھے۔ اس گول میز کانفرنس کی کامیابی کے لیے لیبر وزیراعظم نے جناح صاحب کا تعاون حاصل کرنے کے لئے اپنی گفتگو کےدوران عندیہ دیا کہ برطانوی حکومت ہندوستان میں جس طرح کی قانونی اور آئینی تبدیلیاں لانے کا ارادہ کر رہی ہے، اس کے مطابق کسی اہم ہندوستانی رہنما کوبھی صوبے کا گورنر بنایا جاسکتا ہے۔یاد رہے کہ اُس وقت تک ہندوستان کے تمام صوبوں کے گورنر برطانوی ہوتے تھےاور بر طانوی ہند میں یہ بڑا طاقتور، اہم اور حساس ترین عہدہ سمجھاجاتاتھا۔ گرچہ برطانوی وزیراعظم نے یہ بات اشارتا ًکہی تھی، لیکن جناح صاحب نے فوراً ریمزے میکڈونلڈ پرواضح کر دیا کہ ان کی خدمات برائے فروخت نہیں ہیں اور اس پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے واضح کردیا کہ ان کے خیال میں یہ آفر انہیں رشوت کے طور پیش کرنے کی ایک کوشش سے کم نہیں تھی۔

صرف مسٹر جناح
قائداعظم محمد علی جناح کامارچ 1940 میںآل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے ہمراہ گروپ فوٹو

اسی سلسلے میں ایک اور کو شش ہندوستان میں آخری وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کی۔ انہیں یہ زعم تھا کہ وہ بہت بااثر گورنرجنرل ہیں،وہ ایشیا میں بر طانوی افواج کے سپریم کمانڈر رہے تھے۔ان کابرطانیہ کے شاہی خاندان سےبھی گہرا اور خاندانی تعلق تھا،انہیں لندن میں برسراقتدار لیبر حکومت کی پوری حمایت حاصل تھی، جو انڈین کانگریس کی ہم درد تھی ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس وقت اختیاراور اقتدار کی حامل تمام قوتیں ‍ قائد کو قیام پاکستان کے مطالبے سے دستبردار کرانے کے لئے متحد ہو گئیں تھی۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جناح صاحب کو ہندوستان کومتحدرکھنے کےلئے کیبنٹ مشن کے اس فارمولے پر راضی کرنے کی کوشش کی ،جس پرقائم نہ رہنے کا اعلان نہرو کی سربراہی میں کانگریس خود کر چکی تھی ۔قائداعظم سے ملاقات سے پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن گاندھی جی سے دس گھنٹے تک مذاکرات کرچکے تھے ۔ پاکستان کے قیام کو روکنے کے لئے گاندھی جی نے وائسرائے کو تجویز دی کہ جناح صاحب کو متحدہ ہندوستان کا وزیراعظم بنا دیا جائے ۔انہوں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو یقین دلایا کہ یہ تجویز بڑے اخلاص سے پیش کر رہے تھے۔گرچہ گاندھی جی کو معلوم تھا اور انہوں وائسرائے کے سامنے یہ تسلیم کیا کہ قائد اس تجویز کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ اپنی پہلی ہی ملاقات میں قائد نے نئے وائسرائے پر واضح کردیا کہ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے علاوہ اب کسی اور پلان پر بات نہیں ہوسکتی۔ کانگریسی رہنماؤں کے ساتھ کئی دہائیوں سے معاملات طے کرتے ہوئے قائد کو یقین ہو چکا تھا کہ اختیارات کا ارتکاز کانگریس کے ہاتھوں میں ہونے کی صورت میں برصغیر کےمسلمانوں کے حقوق کا کبھی تحفظ نہیں ہوسکتااور یہی بات انہوں نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جناح کو ان کے موقف سے ہٹانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا، جس میں دھمکیاں بھی شامل تھیں، لیکن جناح صاحب پاکستان کےقیام کے مطالبے سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ماؤنٹ بیٹن کو جب یہ یقین ہو گیا کہ قائداعظم کو قائل کرنا، ناممکن ہے، تو اب اس کی خواہش تھی کہ تقسیم کی صورت میں انہیں دونوں ملکوں کا مشترکہ گورنر جنرل بنایا جائے۔ دستور اور قانون کے ماہر کے طور پر قائد اعظم کو معلوم تھا کہ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان اور پاکستان کا مشترکہ گورنر جنرل بنانے کی صورت میں پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کو کتنے خطرات لاحق ہوسکتے تھے لہٰذاقائد نے ان پر واضح کردیا کہ پاکستان کے گورنر جنرل وہ خود ہوں گے۔ جناح صاحب کا یہ اعلان ماؤنٹ بیٹن کے لئے ایک اچانک صدمے سے کم نہیں تھا، ماؤنٹ بیٹن نے انہیں پیشکش کی کہ اگر قائد انہیں مشترکہ گورنر جنرل کے طور پر قبول کر لیں تو وہ ان کا نام بادشاہ کے سامنے اعلیٰ ترین برطانوی ایوارڈ جی سی ایم جی کے لیے پیش کریں گے ،لیکن قائداعظم نے اس پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا ۔یادرہے کہ یہ ایوارڈ برطانیہ کا شاہی خاندان برطانوی مملکت کے لئے بہترین خدمات انجام دینے والوں کو پیش کرتاہے۔ ماؤنٹ بیٹن نےپاکستان کے قیام کے بارے میں قائد کے عزم مصمم کا غلط اندازہ لگایا تھا۔انہیں برطانوی حکومت کو آگاہ کرنا پڑا کہ جناح صاحب پاکستان کے قیام سے کم کسی اور حل پر راضی نہیں ہوں گے۔

خطابات اور ایوارڈز کی طرف قائد کا بے رغبتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ1942 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف لاء کی اعزازی ڈگری دینے کی خواہش ظاہر کی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے قائداعظم کا خصوصی تعلق تھا، اس یونیورسٹی کے طالب علم تحریک پاکستان کےہراول دستے میں شامل تھے ،لیکن قائداعظم نے اس ڈگری کی پیشکش پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے قبول کرنے سے معذرت کی اور کہا کہ میں خطابات اور القابات کو پسند نہیں کرتا میں بہت خوش ہو ں گاکہ اگر میرے نام کے ساتھ کوئی لقب نہ لگاہو۔ان کی یہ خواہش بھی پوری ہوئی اور وہ اس دنیا سے صرف محمد علی جناح کے نام سے رخصت ہوئے ،گرچہ پوری قوم آج بھی ان کے احترام اور عقیدت میں انہیں قائد اعظم کے نام سے یاد کرتی ہے۔

تازہ ترین