
بھی ریکارڈ ہیں۔ نرم گوئی اور حق گوئی ان کا خاصہ ہے، نرم دل اور ہمدرد واقع ہوئے ہیں اس لئے ان میں انسان دوستی، علم دوستی اور ادب دوستی سے لگاؤ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ میرے لئے بھی اچھا سوچتے، اچھا کہتے ہیں اس کا یہ ثبوت بھی ہے کہ انہوں نے کتاب جس کا عنوان ”عالی ہے جس کا نام“ اور جو وفاقی جامعہ اردو کے شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کی نگراں پروفیسر سیما ناز صدیقی نے اپنی نگرانی میں ڈاکٹر رعنا اقبال، ظفر محی الدین، اظہار احمد صدیقی، میرے معاون محمد زبیر اور دیگر احباب کی کاوشوں سے ترتیب دی۔ اس کی تقریب رونمائی گورنر سندھ نے نہ صرف گورنر ہاؤس میں منعقد کی بلکہ اس کی پوری طرح سرپرستی فرمائی جس کے لئے میں ان کا ممنون ہوں۔ میں ناسازیٴ طبیعت کی وجہ سے اس تقریب میں شریک نہ ہوسکا اور میری نمائندگی میرے بڑے بیٹے راجو جمیل نے بڑے احسن انداز میں کی۔ ان کی مسرت اور جوش کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ راجو بھی تقریب سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے تقریب کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں گورنر صاحب کی محبت اور اپنائیت نے کتاب کی ترتیب اور اشاعت پر، کتاب کی تیاری اور اس پر بنائی گئی یادگار دستاویزی فلم نے، وفاقی جامعہ اردو کے اساتذہ، عمال اور شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد قیصر کی پُرخلوص محبت نے اور سب سے زیادہ شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کی نگراں صاحبہ اور ان کی پُرتپاک لگن اور ان کی زیرک ٹیم کی کاوشوں نے بہت متاثر کیا۔ راجو جمیل نے اس موقع پر اپنے جن احساسات اور جذبات کا اظہار کیا یہ میرے لئے نئے نہیں مجھے انتہائی خوشی ہے کہ میرے خاندان کا ہر چھوٹا بڑا ایسے ہی جذبات اور احساسات کا اظہار کرتا ہے۔ یہ میرے لئے رب العزت کا بڑا کرم ہے کہ اس نے مجھے نہ صرف اپنے مداحوں بلکہ میرے خاندان والوں کے دلوں میں بھی میرے لئے محبت کے چراغ روشن رکھے ہیں، یہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے اور میں اس حوالے سے بھی خود کو خوش نصیب تصور کرتا ہوں۔ کتاب ”عالی ہے جس کا نام“ جس کی نوک پلک سنوارنے، ہر لفظ نکھارنے اور اپنے تمام تر پُرخلوص جذبوں کے ساتھ مجھ سے رہنمائی حاصل کرنے اور مکالمہ کرنے میں نگراں شعبہ نے جس پُرتپاک جذبوں اور لگن کا اظہار کیا وہ قابل تحسین ہے۔ یوں بھی میں سنتا رہتا ہوں کہ جب سے انہوں نے شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کی ذمہ داری قبول کی ہے شعبہ کی کارکردگی میں بہت سی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اس پر میں اپنی جتنی خوشی کا اظہار کروں وہ کم ہے۔ میں وفاقی جامعہ اردو کے تمام اساتذہ اور عمال سے ایسی ہی محبت اور محنت کی توقع رکھتا ہوں اس لئے کہ وفاقی جامعہ اردو سے میرا تعلق ایسا ہی ہے جیسے باغبان کا چمن سے ہوتا ہے۔ اس جامعہ کی تعمیر میں بہت سی اینٹیں اور بہت سی دعائیں میری بھی شامل ہیں اس لئے جب کبھی جامعہ اردو کے بارے میں کسی کو کچھ کہنے سننے کا موقع میسر آتا ہے مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے اور اس کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ میں اس کو صرف ایک درس گاہ ہی نہیں بلکہ ہماری قومی یکجہتی کی علامت اور پاکستانی تہذیب و ثقافت اور علم و فنون کا مرکز تصور کرتا ہوں۔ مجھے علم ہے کہ اس دور میں اردو پر کیا بیت رہی ہے، کون اس درس گاہ اور قومی زبان کا ہمدرد ہے اور کون اس کا مخالف ہے۔ کچھ لوگ غیر ضروری طور پر اردو کے مستقبل سے مایوس دکھائی دیتے ہیں اور کچھ لوگ اس سے بڑے پُرامید ہیں مگر سچ یہ ہے کہ میں ہرگز مایوس نہیں ہوں، میں قومی زبان اردو میں جاری و ساری ایک امکانی قوت کو بہت اہم تصور کرتا ہوں۔ وفاقی جامعہ اردو سے میری بڑی توقعات وابستہ ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ایک دن یہ اپنی عظیم اہمیت اور افادیت خود منوائے گی۔ انشاء اللہ!
تاہم یہ کتاب میرے لئے قیمتی تحفہ ہے اس کے بارے میں جو کہوں کم ہے خدا کرے یہ کتاب نئی نسل کے لئے ایک اہم اثاثہ ثابت ہو۔ جامعہ اردو کے شیخ الجامعہ، اساتذہ وہ اہل قلم حضرات جنہوں نے اس کتاب کے لئے مضامین لکھے اور میرے لئے تقریب سجانے پر ڈاکٹر عشرت العباد خان گورنر سندھ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میں یہی کہتا ہوں اور کہتا رہوں گا … جیوے جیوے پاکستان! جیوے جیوے پاکستان …
اقبال حیدر
یہ سطریں میرے عزیز ترین دوست راجہ تجمل حسین جنجوعہ کے داماد اقبال حیدر کے بارے میں … ان کا انتقال عین عالم جوانی میں ہوا ہے۔ اناللہ وانا اللہ راجعون۔
اقبال حیدر نے انسانی حقوق (ہیومن رائٹس) کے لئے زندگی وقف کر دی تھی۔ ان کے کارنامے بھی بہت سے ہیں، کبھی تفصیل سے بتائے جائیں گے۔ ہمارے ہاں اب بھی ہیومن رائٹس کے لئے کام کرنے والوں کی بہت کمی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بے معاوضہ خدمت ہے اور ہمارے حالات میں بے معاوضہ کام کرنے کی گنجائش کم کم ہے مگر جو ہمت کر جائے … ہم پر پورے معاشرے پر، اس کی تعریف و منزلت فرض ہو جاتی ہے۔
کاش میں اقبال حیدر پر کسی قدر تفصیل سے لکھ سکتا۔ اہل کراچی کی ایک بڑی تعداد ان کی خدمات سے واقف تھی۔ دوسرے شہروں میں وہ اپنی کارگزاریوں کی شان کے مطابق کم متعارف تھے۔ سب کو جان لینا چاہئے کہ وہ ہیومن رائٹس جیسے خشک موضوع پر ایک بڑے اور انتہائی فائدہ بخش کارکن کی حیثیت اختیار کر چکے تھے اللہ تعالیٰ کی مرضی میں کسی کا دخل نہیں مگر انہیں پورے پورے احترام کے ساتھ یاد رکھنا تو ہمارا، پوری قوم کا فرض ہے۔