• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خطّے کے حالات میں پچھلے ہفتے کے دوران تیز رفتار تبدیلی کی جو کیفیت نمایاں ہوئی، اس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا چار ملکوں کا حالیہ دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ کی ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کا یہ فیصلہ، کہ افغان سرزمین پر موجود 14ہزار امریکی فوجیوں کی تعداد تقریباً نصف کردی جائے گی، پاکستان کی مشرقی سرحد سے ملنے والے مسلم اکثریت کے حامل ملک کے مستقبل کے حوالے سے بیک وقت اچھے امکانات اور تشویش انگیز مضمرات رکھتا ہے۔ نئی صورتحال افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کا ذریعہ بنے گی اور نہ صرف کئی عشروں سے مصائب کی دلدل میں پھنسے افغان عوام کے حالات میں بہتری آئے گی بلکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی اس صورتحال سے نکلنے میں مدد ملے گی جس کا افغان جنگ کےیرغمال بنے ان سب ممالک کو سامنا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے دورے کے پہلے مرحلے میں 24دسمبر کو کابل میں افغان صدر اشرف غنی اور وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی سے ملاقاتیں کیں۔ بعدازاں تہران میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے مذاکرات کئے۔ بیجنگ اور ماسکو میں چینی اور روسی قیادت سے بھی اہم ملاقاتیں ہوئیں۔ ان رابطوں کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ افغانستان کے بہتر مستقبل اور خطے میں پائیدار امن و خوشحالی کے لئے مل جل کر جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے وہ کیا جائے۔اس تلخ حقیقت کو نہ تو نظرانداز کرنا ممکن ہے اور نہ کسی طور کیا جانا چاہئے کہ خود امریکی حلقوں کے بیان کے مطابق واشنگٹن نے ویت نام میں اپنی خفت کا بدلہ چکانے کی خاطر ماسکو کیلئے ایسی ترغیبات پیدا کیں جو افغانستان میں اس کی مداخلت اور بعدازاں سوویت یونین ٹوٹنے کا ذریعہ بنیں۔ ایک بڑی طاقت دوسری بڑی طاقت کو نیچا دکھانے کا مشن مکمل ہونے کے بعد افغانستان میں کوئی انفرا اسٹرکچر قائم کئے بغیر اس طرح وہاں سے رخصت ہوگئی کہ افغانستان ان گروپوں کی خانہ جنگی کی آماجگاہ بن گیا جنہیں ہیرو قرار دیتے ہوئے سوویت یونین کو سبق دینے کے لئے دنیا بھر سے لاکر اس سر زمین پر جمع کیا گیا تھا۔ نائن الیون کے واقعہ کو بنیاد بناکر جنگ کا تھیٹر جس طرح افغانستان سے پاکستان منتقل کیا گیا، اُس نے امریکہ کے اتحادی کہلانے والے اس ملک کو ہر طرح کا نقصان پہنچایا۔ اب جبکہ پاکستان دہشت گردی کے مہیب آسیب پر تقریباً قابو پاچکا ہے اور امریکہ بھی افغان عوام سے امن بات چیت شروع کرنے کی پاکستانی تجاویز کی اصابت کا عملی اعتراف کرتا نظر آرہا ہے تو ابوظہبی میں پہلی بار امریکہ اور طالبان کے درمیان نہ صرف براہ راست رابطہ ہوچکا ہے بلکہ اسلام آباد کے سہولت کاری سے شروع ہونے والے یہ رابطے کوئی واضح رخ اختیار کرتے محسوس ہورہے ہیں۔ اس صورتحال میں اسلام آباد اور کابل سمیت خطے کے تمام دارالحکومتوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا اگر ماضی کی طرح افراتفری میں اور ادارہ جاتی ڈھانچوں کی تعمیر و تشکیل کے بغیر عمل میں آنے کے خدشات موجود ہوں تو مل جل کر ایسی تدابیر کریں جن کے باعث افغان سرزمین پر ماضی کی وہ ہولناک تاریخ نہ دہرائی جاسکے جس نے افغان عوام کے مصائب میںاضافہ کرنے کیساتھ ساتھ خطے کے ہر ملک کے امن و استحکام کو متاثر کیا۔ پاکستان وہ ملک ہے جو افغان جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افغانستان میں دیرپا امن و استحکام سب سے زیادہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ خطے کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ صدیوں سے اپنی آزادی کے لئے بڑی طاقتوں سے پنجہ آزما رہنے والے افغان عوام کو مذاکرات کی میز پر تو لایا جاسکتا ہے مگر کسی دوسرے ملک یا بڑی طاقت کے من پسند فیصلے پر صاد کرنے کی پیشگی ضمانت کوئی بھی نہیں دے سکتا۔ اچھی بات یہ ہے کہ کابل حکومت سمیت خطے کے ممالک افغانستان میں مفاہمت کے عمل، امن وامان کے انتظامات، باہمی تجارتی راستوں کی حفاظت اور ترقی و خوشحالی کے عمل کو جاری رکھنے کے بارے میں پوری سنجیدگی سے باہمی رابطے میں ہیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ ان کوششوں کے مثبت نتائج جلد سامنے آئیں گے۔

تازہ ترین