• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اگرچہ آئندہ عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں لیکن کہیں کہیں سے کچھ ایسی باتیں بھی ہورہی ہیں جن سے خوف اور بے یقینی کا احساس ہوتا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ آئندہ انتخابات نہیں ہوں گے۔ کبھی کسی کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوجاتی ہے کہ ملک میں جو عبوری حکومت قائم ہوگی اُس کی مدت طویل ہوگی۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس طرح کی باتیں وہ لوگ خود نہیں کہہ رہے‘ جو اقتدار پر غیر جمہوری طریقے سے قبضہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں مگر جو لوگ یہ باتیں کررہے ہیں وہ خود سے نہیں کررہے ہیں ۔آئین میں عام انتخابات سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے البتہ ایک گنجائش یہ ہے کہ اگر ملک میں خانہ جنگی ہو یا ایمرجنسی کی صورتحال ہو تو انتخابات ملتوی کئیجا سکتے ہیں۔ اسی ایک گنجائش سے خوف اور خدشات جنم لے رہے ہیں۔
عہد نو کی کئی مثالیں ایسی دی جاسکتی ہیں کہ اُن ممالک میں بھی عام انتخابات منعقد ہوئے جو حالت جنگ میں تھے یا وہاں کسی بھی وجہ سے ایمرجنسی کی صورتحال تھی۔ شاید اُن ممالک کے دساتیر میں بھی یہ گنجائش ہوگی کہ جنگ اور ایمرجنسی میں انتخابات کا التوا ہوسکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس سے بڑی بات اور کیا ہوگی کہ عراق اور افغانستان جیسے ممالک میں بھی بدترین خانہ جنگی کے دوران انتخابات منعقد ہوچکے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس دستوری گنجائش کی لٹکتی تلوار کے گرنے اور پاکستان کے عوام کی جمہوری اُمنگوں کا خوف ہونے کا خدشہ بہت گہرا ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ غیر جمہوری قوتیں مکمل طور پر پسپا نہیں ہوئی ہیں اور اُنہیں اب بھی اپنے مخصوص مفادات سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو پاکستان 1980ء سے ایمرجنسی اور خانہ جنگی کی صورتحال سے دوچار ہے‘ جب فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں جھونک دیا تھا اور پاکستان کی سیاسی و جمہوری قوتوں کو کچلنے کے لئینسل پرست اور فرقہ وارانہ گروہوں کی سرپرستی کرکے ملک میں خانہ جنگی کے بیج بو دیئے تھے۔ 1980ء کے بعد سات عام انتخابات ہوئے‘ یہ سب خانہ جنگی اور ایمرجنسی کی صورتحال میں منعقد ہوئے۔ 2008ء کے عام انتخابات تو ایسے حالات میں منعقد ہوئے جب ملک کے کچھ علاقوں میں پاکستانی پرچم نہیں لہرایا جاسکتا تھا اور وہاں پاکستانی ریاست کی عملداری نہیں تھی۔ آج اگر کوئی شخص عدالت میں جاکر اس بنیاد پر انتخابات کے التوا کی درخواست کرے کہ ملک میں خانہ جنگی اور ایمرجنسی کی صورتحال ہے تو زمینی حقائق کے تناظر میں اُس کے موٴقف میں وزن ہے لیکن انتخابات کے التوا کی درخواست غیر منطقی ہوگی کیونکہ موجودہ حالات سے بھی زیادہ خراب حالات میں پاکستان کے اندر انتخابات ہوچکے ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایسی کسی درخواست پر فیصلہ پاکستان کے عوام کو نہیں‘ عدالتوں کو کرنا ہے۔
ہم صرف یہ دعا کرسکتے ہیں کہ کوئی محب وطن پاکستانی نہ تو ایسی کوئی درخواست لے کر عدالتوں میں جائے اور نہ ہی انتخابات کے التوا یا عبوری حکومت کی مدت میں توسیع کا سوال عدالتوں میں زیر بحث لایا جائے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ پاکستان کی موجودہ آزاد عدلیہ ایک سیاسی تحریک کے ذریعے وجود میں آئی ہے اور ہمارے فاضل چیف جسٹس صاحب کو بھی یہ تجربہ ہے کہ آئینی حقوق حاصل کرنے کے لئیکس قدر پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں‘ کتنی تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں اور کس طرح جانیں قربان کرنا پڑتی ہیں۔ عدلیہ کی تقریباً ایک سال کی تحریک میں اُنہوں نے یہ اندازہ کرلیا ہے کہ کئی عشروں سے جاری پاکستان کے عوام کی جمہوری جدوجہد کی قدر و قیمت کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بارہا اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اب عدلیہ کسی آمر کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوگی اور اقتدار پر غیر جمہوری قبضے کا راستہ روکے گی۔ ہمارے دیگر جج صاحبان بھی نہ صرف جمہوری عمل کے تسلسل کے حامی ہیں بلکہ قوم یہ سمجھتی ہے کہ وہ اس عمل کے محافظ ہیں لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں خدشات کم نہیں ہورہے ہیں اور بے یقینی اپنی جگہ موجود ہے۔
پاکستان کے کچھ حلقوں کے ذہنوں میں اگر یہ بات ہے کہ عبوری حکومت طویل مدت کے لئیقائم کی جائے گی تو اُن کی یہ سوچ کسی بھی طرح پاکستان کے عظیم تر مفاد میں نہیں ہے۔ یہ طویل مدت والی عبوری حکومت بھی دراصل ایک غیر جمہوری حکومت ہوگی اور پاکستان کی سابقہ آمرانہ حکومتوں کا تسلسل ہوگی۔ پاکستان کی حقیقی جمہوری اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور چند رہنماؤں کے سوا پاکستان میں ایسی کوئی شخصیات نہیں ہیں‘ جنہیں غیر جانبدار کہاجاسکے اور جو جمہوریت کے خلاف ہونے والی سازشوں پر طاقتور حلقوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں پاکستان میں جن لوگوں کو اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا نے ”غیر جانبدار‘ غیر متنازع اور محترم شخصیات“ کے طور پر ابھارا ہے‘ صرف انہی کے نام اُس وقت گردش کرنے لگتے ہیں جب ملک میں عبوری حکومت قائم کرنے کا وقت آتا ہے یا نام نہاد قومی حکومت قائم کرنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی مجبور ہوتی ہیں کہ وہ انہی لوگوں کے ناموں پر اتفاق کریں کیونکہ ان کے سوا جو نام سیاستدانوں کے ذہنوں میں ہوتے ہیں‘ اگر وہ پیش کردیئے جائیں تو انہیں متنازع اور جانبدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کا رہنما یا کارکن کسی دوسری جماعت کے کارکنوں اور رہنماؤں کے لئیمتنازع اور غیر جانبدار ہوسکتا ہے لیکن مارکیٹ میں دستیاب ”غیر جانبدار اور غیر متنازع“ لوگوں نے ماضی میں وہ کردار ادا کیا کہ پوری قوم کے لئیاب وہ جانبدار اور متنازع ہیں۔ جو لوگ ابھی تک آزمائے نہیں گئے وہ تاحال اسی ”غیر جانبدار اور غیر متنازع“ کے لیبل سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ملک میں معراج خالد جیسے لوگ بھی اپنا نام غیر جانبدار اور غیر متنازع لوگوں کی فہرست سے خارج کرا کر چلے گئے۔ اُنہوں نے بھی نگراں وزیراعظم کی حیثیت سے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ”ہم نے عالمی بینک کو بتا دیا ہے کہ بے نظیر بھٹو دوبارہ اقتدار میں نہیں آئیں گی“۔ جب یہ شہ سرخیاں اخباروں میں لگیں تو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے سپریم کورٹ میں کیس کردیا تھا اور کہا تھا کہ نگراں وزیراعظم کے بیان سے واضح ہوگیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوگی۔ عدالت کیحکم پر صحافیوں نے وزیراعظم کی تقریر کے کیسٹ بھی پیش کردیئے تھے لیکن اس کیس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوسکا لہٰذا عبوری حکومت چاہے کوئی بھی بنائے‘ اُس میں لوگ طاقتور،غیر جمہوری حلقوں کے ہوتے ہیں۔
اگر پاکستان کے حالات واقعتاً انتخابات کے انعقاد کے لئیسازگار نہیں ہیں تو اس کا فیصلہ خود سیاسی پارٹیوں کو کرلینا چاہئے اور عبوری حکومت کے قیام کی بجائے قومی اتفاق رائے سے موجودہ جمہوری حکومت کی مدت میں توسیع کرلی جائے تاکہ معاملات سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے نہ نکلیں۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ اس بات کا اندازہ سیاسی جماعتوں کو بھی ہوچکا ہے۔ عبوری حکومت صرف اُس صورت میں قائم کی جائے جب یہ حقیقت ہوکہ وہ مقررہ مدت میں انتخابات کرا دے گی۔ غیر جمہوری قوتوں کے جو ارادے نظر آرہے ہیں‘ اُن کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کو آپس میں لڑنے کی بجائے بردباری سے کام لینا چاہئے اور کوئی ایسا راستہ اختیار کرنا چاہئے جو آئینی بھی ہو اور اس پر چل کر جمہوری عمل میں بریک نہ آئے۔ جو لوگ ”پہلے صفائی پھر انتخابات“ کا نعرہ لگا رہے ہیں‘ وہ غیر جہوری قوتوں کی بولی بول رہے ہیں ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں جمہوری عمل کو جاری و ساری رکھنے کے لئیہم بحیثیت قوم ایک نازک مرحلے پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ ہماری قومی سیاسی قیادت کے تدبر کا امتحان ہے۔
تازہ ترین