• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سلطان رضا صاحب بنگلہ کے متمول تاجر ہیں اور اب امریکہ کی شہریت لے کر واشنگٹن کے قریب ورجینیا میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ نہایت روانی سے اردو بولتے اور بہت اچھی انگریزی لکھتے ہیں۔ رضا صاحب 16دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں تھے اور اس حوالے سے وہ ہمارے یوم سیاہ کے عینی شاہد ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے اس موضوع پر انگریزی میں طویل مضمون لکھا جو قابل مطالعہ اور چشم کشا ہے۔ مولوی فرید احمد پیدائشی بنگالی اور کٹڑ پاکستانی تھے چنانچہ انہوں نے پاکستان کو متحد رکھنے کے لئے دن رات کوششیں کیں اور اس جرم کی سزا کے طور پر انہیں ما ر مار کر شہید کر دیا گیا۔ سلطان ر ضا اس طرح کے سانحات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ وہ 16دسمبر 71ء کے دن ڈھاکہ میں سلطان ٹیپو روڈ سے گزر رہا تھا کہ اس نے عیسائی قبرستان کے قریب تین نوجوانوں کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں خطرناک رائفلیں تھیں، ان کے پیچھے بنگالیوں کا ہجوم تھا۔ یہ سب لوگ جئے بنگلہ کے نعرے لگاتے، ہوائی فائر کرتے اور آزادی کا جشن مناتے چھ نہتے نوجوانوں کا تعاقب کر رہے تھے جو اپنی جانیں بچانے کے لئے خدا کی زمین پر پناہ ڈھونڈھ رہے تھے۔ ان چھ نوجوانوں میں چار بنگالی اور دو نان بنگالی یا بہاری تھے۔ بالآخر اس ہجوم نے ان کو جا لیا اور گولیوں سے بھون کر جشن منایا۔ شہید ہونے والوں پر پاکستانی فوج کی مدد کا الزام تھا۔ شاید ان کا تعلق البدر اور الشمس سے تھا۔ اس ہجوم میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ زیادتیاں کی گئی تھیں اور وہ انتقام کی آگ بجھانے کے لئے پاگل ہو رہے تھے ۔ان کا بس چلتا تو وہ پاکستانی فوجیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے لیکن پاکستانی فوج ہندوستانی فوج کی پناہ میں تھی جس کے سامنے اس نے ہتھیار ڈالے تھے۔ سلطان رضا اپنے ایک دیرینہ واقف کار محمد ادریس کا بھی ذکرکرتا ہے جس نے آخری سانس تک پاکستان کی محبت میں جدوجہد جاری رکھی اور حب الوطنی کا پرچم اٹھائے شہید ہوگیا۔ محمد ادریس بہاری تھا۔ اس کا ذکر کرکے سلطان رضا اس پر حیرت اور دکھ کا اظہار کرتا ہے کہ حکومت پاکستان بہاریوں کے ضمن میں سردمہری کا مظاہرہ کررہی ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو بنگلہ دیش میں پاکستان کی حب الوطنی کی علامت بن کر مسلسل سزا بھگت رہے ہیں۔ اس جرم کی سزا کی چکی میں ان کی چار پانچ نسلیں پس چکی ہیں۔ سلطان رضا کو حیرت ہے کہ ان سوا ڈیرھ لاکھ بہاریوں کو حکومت پاکستان کیوں قبول نہیں کرتی اور کیوں انہیں پاکستان بلوا نہیں لیتی۔ سلطان رضا کے مضمون میں اس پیرا گراف کا آخری فقرہ جسے آپ مقطع بھی کہہ سکتے ہیں نہایت دلفریب ہے، وہ لکھتا ہے کہ یہ بہاری پاکستانیوں سے کہیں زیادہ پاکستان سے پیار کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ البتہ سلطان رضا نے یہ نہیں لکھا کہ پاکستان نے کبھی بھی اپنے اثاثوں کی قدر نہیں کی اور پاکستان اثاثے ضائع کرنے کا عادی ہے۔
اس حوالے سے ایک دلچسپ سوال مسلسل گردش میں رہتا ہے۔ وہ سوال سلطان رضا نے بھی اٹھایا ہے لیکن جواب نہیں دیا۔ سلطان رضا اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کہتا ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام کی بہت بڑی اکثریت پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتی تھی، انہیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر تھا۔ وہ فقط چاہتے تھے کہ ان کی محرومیوں کا ازالہ کیا جائے اور ان کے مطالبات کو عملی شکل دی جائے۔ البتہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی قیادت علیحدگی کے حق میں تھی۔ شاید وہ مغربی پاکستان کی قیادت اور فوج کی حکمرانی سے مایوس ہوچکے تھے۔ اس حوالے سے یہ مسلسل کہا جا رہا ہے کہ انتقال اقتدار کرکے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکتا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹیں کیسے پیدا ہوئیں۔ اس ضمن میں سے سب سے پہلی بدقسمتی جنرل یحییٰ خان کی ہوس اقتدار تھی جو فیلڈ مارشل ایوب خان کے مانند طویل عرصے تک صدارت کے مزے لوٹنا چاہتا تھا۔ یحییٰ خان نے اس مفروضے کے تحت انتخابات کروائے کہ مخلوط حکومت بنے گی جس میں مجیب الرحمن کا پلہ بھاری ہوگا۔ چنانچہ اس نے مجیب سے صدارت کا وعدہ لینے کے بعد ون یونٹ توڑ دیا اور دونوں صوبوں کے درمیان طے شدہ برابری (Parity)کے فارمولے سے انحراف کرتے ہوئے ون مین ون ووٹ (One man one vote)کا اعلان کر دیا حالانکہ ان مسائل کو انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلی نے حل کرنا تھا۔ اس اسمبلی نے دستور سازی کرنی تھی اور ان فیصلوں کا تعلق براہ راست دستور سازی سے تھا۔ انتخابات میں بہت بڑی اکثریت حاصل کرنے کے بعد مجیب اپنے وعدوں سے ”انکاری“ لہجے میں بات کرنے لگا۔ تب یحییٰ خان نے اپنی التفات کا رخ بھٹو کی جانب موڑ دیا۔ مجیب درپردہ کہتا رہا تھا کہ چھ نکات کوئی مقدس شے نہیں۔ وقت آنے پر ان میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ بہت بڑی اکثریت جیتنے کے بعد مجیب نے چھ نکات کو عوام کا مقدس اعتماد قرار دے دیا، ان پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا۔ جرنیلوں کی شہ پر بھٹو نے اسمبلی کے اجلاس کا بائیکات کر دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ پی پی پی کے جو اراکین اسمبلی ڈھاکہ جائیں گے ان کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔ ہم دوہرے یرغمال نہیں بننا چاہتے۔ کیا بھٹو نہیں جانتا تھا کہ انتقال اقتدار کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کا مشرقی پاکستان میں کیا ردعمل ہوگا؟ مشرقی پاکستان میں بغاوت کا لاوا پھٹ پڑا اور آرمی ایکشن کا جواز پیدا ہوگیا۔ آرمی ایکشن نے پاکستان توڑ دیا جبکہ بھٹو نے آرمی ایکشن کا خیر مقدم کیا۔ ہندوستان نے اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا کیونکہ ہندوستان کے عوامی لیگ کی قیادت سے خفیہ اور گہرے رابطے تھے۔ چنانچہ عالم اسلام کی سب سے بڑی ریاست پاکستان کا اتحاد سیاستدانوں اور جرنیلوں کی ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھ گیا۔ بنگلہ دیش ڈیفنس جرنل نے فروری 2009ء کے شمارے میں یحییٰ خان کا وہ حلفیہ بیان شائع کیا تھا۔ جو یحییٰ خان نے (Affidavit)کی صورت میں اپنے وکیل منظور احمد رانا کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ میں جمع کروایا تھا۔ یحییٰ خان کا کہنا ہے کہ وہ بھٹو کے مشوروں پر عمل کرتا رہا اور بھٹو نے اسے گمراہ کیا۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ یحییٰ خان حکمران تھا وہ کسی کے کہنے پر غلط فیصلے کیوں کرتا رہا؟… کیا وہ اس طرح اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہوسکتا ہے؟
سلطان رضا لکھتا ہے کہ اس کی پھوپھی عمرے کے لئے سعودی عرب گئیں اور کئی دن مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں گزار کر ڈھاکہ لوٹیں۔ میری پھوپھی نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے طواف کے دورا ن ایک بزرگ خاتون کو خانہ کعبہ کے غلاف سے لپٹ کر اللہ تعالیٰ سے یہ فریاد کرتے سنا کہ ”اے میرے رب! جنہوں نے بنگلہ دیش کی تحریک کے دوران میرے پیاروں کو مارا اور قتل کیا، تو انہیں اسی طرح کی موت دے۔ میں تم سے ان کے لئے عبرتناک موت مانگتی ہوں“۔ 14اگست پاکستان کا اور 15اگست ہندوستان کا یوم آزادی ہے۔ 15اگست 1975ء کو ڈھاکہ میں شیخ مجیب الرحمن اور اس کے خاندان کو قتل کر دیا گیا، صرف اس کی بیٹی حسینہ واجد محفوظ رہی کیونکہ وہ وہاں موجود نہیں تھی۔ 4اپریل 1979ء کو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی چڑھایا۔ 13اکتوبر 1984ء کے دن ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی کو خود اس کے اپنے محافظوں نے گولیوں سے بھون دیا۔ یحییٰ خان ذلت و رسوائی کے ساتھ خوفزدہ قیدی کی زندگی گزار کر مر گیا۔ وہ قیامت تک نفرت کی علامت رہے گا۔ پھر قدرت کا انتقام صرف یہاں تک محدود نہ رہا شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی کی تمام نرینہ اولاد (Male)غیر فطری موت مری۔ پاکستان کو توڑنے والوں کا انجام کس قدر خوفناک اور عبرتناک تھا۔ تاریخ میں ملک ٹوٹتے رہے ہیں، ملکوں کے جغرافیے بدلتے رہے ہیں، روس ہماری آنکھوں کے سامنے ٹوٹا ہے لیکن انسانی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ملک توڑنے والے تمام ملکی و غیر ملکی کرداروں کا انجام ایک جیسا اور اس قدر افسوسناک ہوا ہو۔ یہ ایک ملک کا سانحہ نہیں تھا کہ اسے محض اتفاق سمجھا جائے۔ اس میں تین ممالک ملوث تھے اور تین طاقتور،پاپولر اور عوام کے دلوں پر حکومت کرنے والے حکمران اور وزراء اعظم شامل تھے اس لئے اسے محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا،یہ قدرت کا انتقام تھا۔
آخر میں سلطان رضا لکھتا ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے، سب سے بڑا معاف کرنے والا ہے لیکن میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ اللہ ہمیشہ معاف کردیتا ہے؟
(نوٹ: گزشتہ کالم میں میں نے لکھا تھا ”مجیب ان چند لوگوں میں سے تھا جنہوں نے تقسیم ہند سے قبل پاکستان پر کتاب لکھی، کمپوزر نے چند لوگوں کو امن پسند لوگوں بنا دیا۔ قارئین نوٹ فرما لیں)
تازہ ترین