• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریک ِ طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کی طرف سے پشاور ہوائی اڈے پر کیا جانے والا حالیہ حملہ قومی سلامتی، سول ملٹری تعلقات اور میڈیا کے مبہم تصورات پر بہت سے اہم سوالات اٹھاتا ہے۔ اگرچہ آرمی چیف قومی سلامتی کے حوالے سے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کو بیرونی کی بجائے اندرونی خطرہ لاحق ہے لیکن بد قسمتی سے بعض وجوہات کی بنا کر تمام مقتدر حلقے اس ضمن میں ہم رائے نہیں ہیں اور یہ ایک تشویشناک بات ہے۔
تحریک ِ طالبان پاکستان پوری مستعدی سے پاکستان کے دفاعی اداروں کو نشانہ بنا رہی ہے اور اس جنگ میں ہمارے کم وبیش 3000 فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ دہشت گردی کی کچھ کارروائیاں ، جیسا کہ روالپنڈی میں جی ایچ کیو اور کراچی میں مہران بیس پر حملے، اُن تخریب کاروں کی بے جگری کی غمازی کرتی ہیں تاہم 2007-08ء میں کئے جانے والے سوات آپریشن کے سوا طالبان کے خلاف کوئی سنجیدہ کوشش نہیں دکھائی دی اور نہ ہی وزیرستان میں مورچہ بند انتہا پسندوں کے خلاف کوئی قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس ضمن میں فوج کے سامنے چار عوامل رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں پہلی بات یہ ہے کہ فوج عوام کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتی کہ امریکی دباؤ کی وجہ سے وہ وزیرستان جا رہی ہے۔ اس سال کے شروع میں اس کا آپریشن کا ارادہ بن رہا تھا اور وہ درست وقت بھی تھا مگر امریکی سیکرٹری برائے دفاع مسٹر لیون پنیٹا نے اعلان کر دیا کہ وزیرستان میں مشترکہ آپریشن ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد پاکستان نے فوراً ہی آپریشن کا فیصلہ منسوخ کر دیا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ فوجی قیادت خاطر خواہ دباؤ کا شکار ہے۔ اس سے پہلے جنرل اشفاق کیانی مدت ِ ملازمت میں تین برس کی توسیع لے چکے ہیں اور اس فیصلے سے ماتحت افسران یقینا خوش نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ ریمنڈ ڈیوس اور امریکی کمانڈوز کی طرف سے بن لادن کے ایبٹ آباد میں احاطے میں کارروائی، میمو گیٹ ”سازش“ ، نیٹو سپلائی لائن بند کرنے کے معاملے میں ندامت اور پھر اُن کے بھائی کے کسی مشکوک کاروبار میں ملوث ہونے کے معاملات یقینا آرمی چیف کے لئے پریشان کن تھے چنانچہ اُن کے لئے ایسا فیصلہ جو ان پر دباؤ میں مزید اضافہ کردے، آسان نہ ہو گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ سویلین پارٹیاں، چاہے اُن کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، فوج کو سہار ا دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پی پی پی حکومت فوج کا تجویز کردہ وہ اینٹی ٹیررازم قانون بنانے کے حق میں نہیں ہے جس کے تحت فوج کی طرف سے دہشت گردوں کو گرفتار کرکے حراست میں رکھنے اور سزا دینے کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے گا کیونکہ اس قانون کی غیر موجودگی میں فوج کی طرف سے کی گئی کارروائی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے اور اسے امریکہ اور مغربی ممالک کی تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کو بنیاد بنا کر امریکی کانگریس فوج کو ملنے والی امداد میں بھی کٹوتی کر دیتی ہے۔ چونکہ حکومت نے کیری لوگر بل اور میمو گیٹ پر فوج کی ناراضی برداشت کی تھی اس لئے وہ اس ضمن میں کوئی فیصلے کرنے سے خود کو بری الذمہ سمجھتی ہے۔
حکومت کی طرف سے فوج کو وزیرستان میں کارروائی کا حکم دینے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے میں ایک اور بڑی رکاوٹ میڈیا ، ملّا اور اپوزیشن پارٹیوں کا اشتراک ہے۔ خاص طور پر عمران خان جو کہ تیسری بڑی قوت ہونے کے دعویدار ہیں اور وہ دونوں بڑی جماعتوں کے لئے خطرہ ہیں جبکہ انتخابات بھی قریب ہیں، دھمکی دیتے رہے ہیں کہ فوج کے وزیرستان میں داخلے کی کوشش کو ” امریکی ایجنڈا“ سمجھا جائے گا چنانچہ حکومت اتنی مہم جوئی نہیں کر سکتی۔ اس کے علاوہ فوج کے کئی حلقے اسے ابھی بھی اپنی جنگ نہیں سمجھتے ہیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ہمارے دفاعی اداروں کی افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بنائی جانے والی پالیسی ابھی تک واضح تو نہیں ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ یہ ملا عمر اور حقانی نیٹ ورک کو کابل میں اہم پوزیشن میں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنے لئے بننے والے خطرے… پاکستانی طالبان… کو ان (افغان طالبان اور القاعدہ) کی سرپرستی سے محروم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ پانچویں بات یہ کہ دفاعی ادارے فی الحال دائیں بازو کے میڈیا اور ملا کے اشتراک سے خود کو دور نہیں رکھنا چاہتے حالانکہ یہ اشتراک مسئلے کا حل پیش کرنے کی بجائے خود اس کا حصہ ہے۔ دہشت گرد بہت سا خون بہا چکے ہیں لیکن ابھی بھی بہت سے صحافی بھائی اور مذہبی رہنما قوم پرستی کے جذبات کو مذہبی عصبیت کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں، جن میں تحریک ِ طالبان پاکستان ملوث ہے، دراصل اسرائیل، بھارت اور امریکی گٹھ جوڑ کی وجہ سے ہیں۔ وہ ابھی بھی اس یقین سے محروم ہوتے دکھائی نہیں دیتے کہ…”ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی جان نہیں لے سکتا ہے“۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں ہلاک ہونے والے ایک ازبک دہشت گرد کی کمر پر نظر آنے والے شیطانی نشان (tattoo)کو اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا کہ یہ دہشت گرد غیر مسلم ہیں کیونکہ ایسے نشانات جسم پر کندہ کرانا غیر اسلامی ہے تاہم یہ ”ثبوت“ ڈھونڈنے والوں نے ایک بات کو نظر انداز کر دیا کہ بہت سے افغان طالبان کے جسم پر بھی ایسے نشانات پائے گئے ہیں کیونکہ وہ وسطی ایشیاء سے آنے والے ”غیر ملکی“ مجاہدین ، جن کے ہاں ایسے نشانات بنوانا مقامی کلچر کا حصہ ہے، سے متاثر تھے۔ یہ لوگ پہلے افغان جہاد کے وقت سے افغانستان میں موجود ہیں۔ اُردن سے تعلق رکھنے والے القاعدہ کے دہشت گرد، ابو مصعب الزرقاوی، جس نے افغانستان اور عراق میں بہت سا وقت گزارا اور جہادی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور جو بعد میں 2006ء میں ڈرون حملے میں ہلاک ہونے سے پہلے پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کے نئے خدوخال وضع کرنے کاباعث بنا، کے جسم پر بھی ایسا ہی ٹیٹو تھا۔ یہ زرقاوی ہی تھا جس نے قیدیوں کے سرقلم کرنے، خودکش حملے کرنے ، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرنے اور پاکستان میں القاعدہ کی نئی حکمت ِ عملی کے تحت اہل تشیع کا خون بہانے کو متعارف کرایا۔
اب حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف اتفاق ِ رائے نہیں پایا جاتا ہے کیونکہ ابھی تک ہمارے ہاں سول ملٹری حقوق ، ذمہ داریوں اور اختیار کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری طرف پاکستانیت کو مذہب کے ساتھ منسلک کرنے سے صورتحال اور بھی پیچیدہ ہو گئی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا کوئی رہنما یا سیاسی جماعت نہیں ہے جو ہمیں اس مایوس کن صورتحال سے نکالنے کی اہل ہو۔
تازہ ترین