• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان جب پانامہ پیپرز اور جعلی اکائونٹس کے حوالے سے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹوں کو اس جائزے و تجزیے کے لئے ’’کیس اسٹڈیز‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں کہ ریاستیں کیوں کر ناکام ہوتی ہیں تو اس کا ایک مفہوم تو یہ نکلتا ہے کہ یہ رپورٹیں ہماری قومی تاریخ میں غیرمعمولی اہمیت کی حامل دستاویز ہیں۔ ان کی اس رائے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اہم رپورٹوں کا گہرائی میں جاکر تجزیہ کیا جانا چاہئے اور اگر رپورٹوں سے ابھرنے والے تاثرات درست نظر آرہے ہوں تو سنجیدگی سے ایسی تدابیر بروئے کار لائی جانی چاہئیں جن سے قومی زندگی میں سنگینی کی ان علامات کو دور کیا جاسکے جو جلد یا بدیر ریاستی ناکامی کا ذریعہ بننے کے امکانات رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں یہ طریقے عام ہیں کہ مختلف شعبوں کی کارکردگی کا تعلیمی اداروں کے مطالعاتی تجزیوں سے لے کر ماہرین کی سطح تک جائزہ لیا جاتا رہتا ہے اور ان کے نتیجے میں جو سفارشات سامنے آتی ہیں انہیں مقامی، صوبائی، مرکزی سطح پر پالیسی سازی میں معاونت اور اداروں کی کارکردگی موثر بنانے کا قابلِ اعتماد ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ زراعت، صنعت، بجلی، پانی، ٹرانسپورٹ، تعلیم، امن و امان، صحت، صفائی، سماجی بہبود کے شعبوں میں اصلاحات کا یہ عمل کئی ملکوں میں مسلسل جاری رہتا ہے جبکہ خاص معاملات، اچانک سامنے آنے والے انکشافات اور حوادث کے حوالے سے بھی واقعات تجزیے کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔ یوں نقصانات کا سبب بننے والی چیزوں کے سدباب اور قومی مفادات کو آگے بڑھانے والے امور کی حوصلہ افزائی کے نکات مختلف چھلنیوں سے گزر کر پالیسیوں اور عملی اقدامات میں ڈھلتے رہتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خاں نے منگل کے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے جس پیغام میں پانامہ اور جعلی اکائونٹس کی جے آئی ٹی رپورٹوں کو اس تجزیے کے لئے کیس اسٹڈی قرار دیا کہ ریاستیں کس طرح غربت اور قرض میں ڈوبتی ہیں، وہ العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا یابی کے فیصلے اور سابق صدر آصف زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں جے آئی ٹی کے اخذ کردہ نتائج سامنے آنے کے بعد جاری کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کا موقف یہ ہے کہ قانونی جنگ کے مرحلے ابھی باقی ہیں اور مذکورہ اخذ کردہ نتائج قانون کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے جبکہ پی پی پی کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں بہت سی باتیں مضحکہ خیز ہیں جنہیں عدالت میں غلط ثابت کیا جائے گا۔ ن لیگ کی جانب سے ’’اِن ہائوس تبدیلی کی جدوجہد‘‘ کی بات بھی کی گئی ہے جو جمہوری طریق کار کا حصہ ہے۔ ایک جانب پاکستان تحریک انصاف دعویٰ کرتی ہے کہ اسے انتخابات میں عوام نے احتساب کے نام پر مینڈیٹ دیا مگر اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت جو کیسز چل رہے ہیں ان کا اختیار قومی احتساب بیورو (نیب) کے پاس ہے، دوسری جانب مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا یہ تو کہنا ہے کہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے مگر میاں نواز شریف اور جناب آصف زرداری بعض جائیدادوں اور اکائونٹس کے حوالے سے عدالتوں میں پیش کرنے کے لئے جو نکات رکھتے ہیں ان کا قانونی جنگ کے اگلے مرحلوں میں جو بھی نتیجہ آئے، تاحال عام فہم انداز میں الزامات، خامیوں، کوتاہیوں کے بارے میں ایسی وضاحت نہ دے سکے جسے عوام کے لئے تشفی بخش کہا جاسکے۔ دوسری طرف عمران خان کو اپنے عام فہم موقف کا فائدہ تو پہنچا لیکن انتقامی سیاست کے بارے میں ان کی پارٹی کا انداز دفاعی ہے۔ کئی شواہد اور داستانوں کی یکسر نفی کرنا پی ٹی آئی کے لئے دشوار محسوس ہوتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ قومی سیاست کے آئینے میں سبھی دھندلائے نظر آرہے ہیں۔ قوم منتظر ہے اس وقت کی جب سب کچھ روشن روشن نظر آنے لگے۔ سب سے اہم بات یہ کہ حکومت کی مشکلات جتنی بھی کٹھن ہوں، گورننس چیلنجوں میں سے مواقع نکالنے کا فن ہے۔ عوام منتظر ہیں کہ انہوں نے موجودہ حکومت سے جو توقعات وابستہ کی تھیں، وہ کب پوری ہوتی ہیں۔

تازہ ترین