• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں نواز شریف فرماتے ہیں : الیکشن کا دن یوم احتساب، سبز باغ دکھانے والوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ جرنیل ایسے کام کیوں کرتے ہیں جس کے بعد ملک سے بھاگنا پڑے، قانون سے کوئی شخص بالاتر نہیں۔
اگر جرنیل یہی بات جو میاں صاحب نے کی ہے میاں صاحب کے بارے کہہ دیں تو کیا اُن کی بھی جرنیل کے عہدے پر ترقی نہیں ہو جائے گی۔ یہ جو ان دنوں سارے سیاستدان انتخابات کے حوالے سے انواع و اقسام کی دھمکیاں ایک دوسرے کو دے رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان کو کوئی خطرہ لاحق نظر نہیں آتا، اور یہ نشانی ہے اس بات کی کہ شاید الیکشن ہوں نہ ہوں، کیونکہ اتنا پیسہ بھی قوم کا خرچ ہو اور کوئی پارٹی حکومت بھی نہ بنا سکے تو فائدہ کیا، اس لئے ”مٹی پاؤ تے پہرے دار حکومت بناؤ“ جب سیاستدان بڑے ہو جائیں تو ان کا بیاہ کرا دو مطلب ہے کہ اُن کے الیکشن کرا دو، کیوں کہ اتحادی حکومت کیلئے قوم نے بڑی قربانیاں دیں اور مرکزی پارٹی، اتحادی پارٹیوں کو دھینگا مشتی سے روکے تو خود اس کی حکومت رکتی ہے، ذرا ذرا سی بات پہ اتحادی روٹھ کر چل پڑتے ہیں اور زرداری جیسے مہان سیاستدان پیچھے پیچھے بھاگتے ہوئے گاتے جاتے ہیں #
رک جا او جانے والے رک جا
میں بھی راہی تیری منزل کا
میاں نواز شریف، نیت کے صاف طبیعت کے شریف اور پیپلزپارٹی کے مفاہمتی حریف ہیں، اس لئے دونوں فریق سبز باغ کا حوالہ ضرور دیتے ہیں کالا باغ کا نام کوئی نہیں لیتا، یہ جو میاں صاحب نے کہا کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں # بس یہی اک بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی۔ اگر زر رکھنے کی بنیاد پر صدر آصف علی زرداری ہیں تو اس ملک کے سارے سیاستدان زردار ہیں اور اس نسبت سے نہ صرف زرداری ہیں بلکہ ”سلسلہ زرداریہ“ کی نسبت سے یہ سارے پیر بھائی ہیں۔ اسی طرح تو سیاست تصوف میں داخل ہو جاتی ہے ۔ ابھی جو شیخ کینیڈا سے تشریف لائے ہیں، اور سیاست کو ریاست کا نام دے کر ایک الگ رنگ جمایا ہے کیا اُن کے علم ، اُن کے تصوف، اُن کی ریاستی سیاست پر اُن کی مشہوری کا ملک گیر سلسلہ بازی لے گیا۔ اُن کی دو سو کتابوں کا کس نے انکار کیا ہے، یہ بات درست نہیں کیوں کہ دو سو کتابوں کے وہ علی الاطلاق مصنف ہیں، وہ عالم ہیں اب تو انگریزی میں بھی اردو کی طرح تقریر کر لیتے ہیں، جسے پردے پر دیکھتے تھے اسے جب بالمشافہ دیکھیں گے تو دیکھ لیں گے۔
#####
یوٹیلیٹی سٹورز پر چینی کی قیمت میں 3روپے فی کلو گرام کمی، جبکہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ تعطل کا شکار نہیں ہو گا۔
حکومت ایسی بھی بری نہیں کہ ہر کوئی اس کی برائیاں ہی گنواتا رہے۔ حکومت کے یہ دو اچھے کام ہمیں آج جونہی نظر آئے ہم نے خراجِ قلم ادا کرنے کی ٹھان لی۔ چینی کے بارے ایک بڑا چوندا چوندا سا گانا پچھلے دنوں گونجتا رہا پھر یکایک بند ہو گیا۔ گانا یہ تھا ”چینی کم ہے چینی کم ہے“۔ اور چینی اگرچہ زیادہ ہے پھر بھی ہمارے ہاں کم ہے۔ اس کی سمجھ نہیں آئی کہ ماجرا کیا ہے۔ بہرصورت اب یہ جو حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز پر چینی کی قیمت میں 3روپے فی کلو گرام کمی کر دی ہے ، یہ نہایت خوش آئند اقدام ہے لیکن کیا حکومت کا دوسری دکانوں پر بس نہیں چلتا حالانکہ وہ بھی یہیں واقع ہیں بھارت میں واقع نہیں۔ دیکھتے ہیں ان کی قیمتوں کا گراف گرانے کا جراتمندانہ اقدام کب کیا جاتا ہے۔ حنا ربانی کھر کے کیا کہئے کہ امریکی دباؤ کو ایک طرف رکھتے ہوئے انہوں نے اتنا تو کہنے کی ہمت کر لی کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ تعطل کا شکار نہ ہو گا۔ بس یہ خیال رکھا جائے کہ تعطل سے بچتے بچتے یہ معطل نہ ہو جائے، اس لئے کہ امریکہ ایران سے بہت پیار کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ پاکستان کے دُلارے عوام کو گیس وافر ملے کیوں کہ آج کل تو گیس اتنی بھی نہیں آتی کہ ہانڈی پک سکے البتہ آتی ہے مگر بقدرِ اشک ِ بلبل، کیوں کہ بلبل کے آنسو بھی گلاب کے عشق میں گرم ہی رہتے ہیں۔ حنا جب پتھر پر گھستی ہے تو رنگ لاتی ہے اور لوگوں نے یہ رنگ دیکھا کہ شاہ محمود قریشی بیک بینی و دو گوش تحریک انصاف میں آسودہ ہو گے۔
#####
ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ کالی رنگ کی کاروں کو ایکسیڈنٹ کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی زندگی میں کالے رنگ سے آمنا سامنا ایکسیڈنٹ ہی ہوتا ہے اور گوری رنگت سے آنکھیں چار ہونا پرماننٹ ہوتا ہے۔ کالا رنگ، سفید رنگ کا عدم ہے اور سفید رنگ کالے رنگ کا عدم ہے، کالے رنگ کی گاڑیاں حادثے کا سبب بن سکتی ہیں کہ اندھیرے میں انسان ضرور کسی نہ کسی چیز سے ٹکرا جاتا ہے۔
کتنا گورا ہے تیرا رنگ کہ رقیب
کالے رنگ سے بھی ٹکرا کے بے مزا نہ ہوا
یہ جو آئے دن عجیب و غریب تحقیقات اور سرویز سامنے آتے ہیں یہ بھی کالے رنگ کے ہوتے ہیں اس لئے ان سے بھی ایکسیڈنٹ کا خطرہ ہے البتہ ایک تحقیق یہ بھی مان لی گئی ہے کہ کالی بیوی سے گورے خاوند کے ایکسیڈنٹ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں، البتہ معاملہ اس کے برعکس ہو تو خطرہ ہے، کالے رنگ کی مرسیڈیزیں حکومت کے پاس بہت زیادہ ہیں مگر ان کا ایکسیڈنٹ نہیں ہوتا، اس لئے کہ وہ قوم کے خون سے چلتی اور اُن کے گوشت پوست سے بنتی ہیں، اس لئے یہ حکومتی کالی مرسیڈیزیں نہیں پاکستانی ہیں، اسی لئے تو ان کا ایکسیڈنٹ نہیں ہوتا۔ 65برس ہو گئے پاکستانی قوم سے کتنی کالی بلائیں ٹکرائیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اور کالی بلائیں اور کالی ہوتی گئیں۔ پنجابی گیتوں میں کسی نے غلطی سے یہ گیت بھی لکھ دیا کہ
گورا رنگ نہ کسے نوں رب دیوے
تے سارا جگ ویر پے گیا
جبکہ صحیح گیت یوں ہے
کالا رنگ نہ کسے نوں رب دیوے
تے سارا جگ ویر پے گیا
گورا رنگ تو سب کو پسند ہے پھر دشمنی کس بات کی البتہ کالا رنگ پسند نہیں کیا جاتا تو دشمنی کا جواز بھی بنتا ہے لیکن یہ جو شاعر اور وہ بھی فلمی شاعر تو یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں لکھ سکتے ہیں، مثلاً
کالا شا کالا میرا کالا اے دلدار تے گوریاں پراں کرو
زندگی بڑی عجیب چیز ہے، کبھی یہ ہنسائے کبھی یہ رلائے اس لئے بندے کو ہنسنے رونے دونوں کا باقاعدگی سے ریاض کرنا چاہئے۔ پٹھان اکثر گورے رنگ کے ہوتے ہیں مگر بعض بہت گورے ہوتے ہیں تو مائیں ان کا نام ”تورگل“ یعنی گل سیاہ رکھ دیتی ہیں تاکہ ان کو کہیں کم گورے کی نظر نہ لگ جائے۔ یہ سب تو باتیں ہیں۔ باتوں کا کیا، کالے رنگ کی ہو یا سفید رنگ کی کار کا ایکسیڈنٹ نہیں ہوتا بشرطیکہ رزقِ حلال سے خریدی گئی ہو، مگر رزق حلال میں تو سائیکل خریدنا مشکل ہے کار کوئی کیسے خریدے، اب بتائیں کہ کاروں کے ایکسیڈنٹ کیوں ہوتے ہیں۔
#####
بالی وڈ کے سیف علی خان نے سگریٹ اور شراب نوشی ترک کر دی۔
کرینہ کپور کے حسنِ کافر نے سیف علی خان کی زندگی میں ایسا مندر تعمیر کر دیا ہے کہ جہاں سگریٹ شراب دونوں شجر ممنوعہ ہیں۔ یہ سیف علی خان نواب آف پٹودی ہوتے ہوئے نوابوں کی طرح سوئے نہیں رہیں گے۔ بھارت میں بالخصوص مسلمان ایکٹروں میں غیر مسلم بیویوں کا پیوند قلمی آموں کی طرح فلمی بچے پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔ ایک دن آئے گا کہ شاہ رخ کا لگایا ہوا پودا تناور درخت بن جائے گا اور بالی وڈ کی اپنی جعلی وڈ شریعت ہو گی جس میں دوطرفہ ٹریفک عام ہو گی۔ اب یوں لگتا ہے کہ فلمیں حقیقت کا روپ دھارنے لگی ہیں۔ جو فلم کے اندر ممکن ہو گا وہ باہر بھی۔ پھر یہ بالی وڈ کلچر سارے ہندوستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ممکن ہے شدھی تحریک ایک نئے انداز سے لنگر انداز ہو۔ سیف علی خان کے نام میں سے علی نکال دیا جائے تو کرینہ کپور باقی رہ جاتی ہے۔ جب کفر و اسلام گلے مل سکتے ہیں تو سیف اور کرینہ کیوں میاں بیوی نہیں ہو سکتے۔ بہرحال ہمیں کیا ابھی تک تو یہ سلسلہ بالی وڈ کے اندر ہے البتہ کہیں کہیں باہر بھی ہے۔ یہ اچھا کیا کہ سیف علی ”کپور“ نے شراب اور سگریٹ چھوڑ دی یہ جو چھوڑنے کی عادت ہے اس کے اثرات کرینہ کپور کی ازدواجی زندگی پر بھی پڑ سکتے ہیں لیکن ایسی بھی کوئی بات نہیں سیف کی صحت تو بن گئی اور اب انہوں نے فلموں کا معاوضہ بھی دگنا کر دیا۔ لگتا ہے سیف اپنے والد کے بجائے والدہ پر گیا ہے اور آخر فلمی دنیا کا غیر فلمی نواب بن گیا۔ نوابوں کا کیا ہے ان کا دل کسی کرسٹینا پر آ جائے تو پھر سے سگریٹ اور شراب اپنا کر نئی زندگی کی شروعات کر دیں۔ پہلے زمانے میں عشق ذات نہیں پوچھتا تھا اب مذہب بھی نہیں پوچھتا، ویسے بھی میر# کہہ گئے ہیں
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا
ہمارے ہاں بھی کریناؤں کی اشد ضرورت ہے کہ یہاں بھی ہمرنگ مے کئی ہیں البتہ سگریٹ پینے والے ہر فرقہٴ زہد و فسق میں موجود ہیں۔ یہ دونوں منشیات ثابت کرتے ہیں کہ زندگی بے ثبات ہے ۔ اگر سیف نے سگریٹ و شراب چھوڑ دیئے تو کرینہ بھی تو ان کی خاطر کچھ چھوڑیں۔
تازہ ترین