• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے سیاسی جماعتوں کے منشور پڑھنے کا بہت شوق ہے ۔اس میں اتنی مزے مزے کی باتیں لکھی ہوتی ہیں کہ پڑھ کر روح خوش ہو جاتی ہے ۔میں کئی کئی دن تک اس دستاویز کو سینے سے لگائے پھرتا ہوں جس میں غربت سے لے کر جہالت تک اور دہشت گردی سے لے کر معیشت کی بحالی تک تمام دیوقامت مسائل کا حل اس قدر خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہوتا ہے کہ دل چاہتا ہے منشور تیار کرنے والوں کا منہ چوم لوں لیکن پھر ان کی شکلیں دیکھ کر ارادہ ملتوی کرنا پڑتا ہے ۔اس ضمن میں کسی پارٹی کی کوئی تخصیص بھی نہیں، مذہبی ہو یا سیکولر،دائیں بازو کی ہو یا بائیں بازو کی یا جسم کے کسی اور عضو سے تعلق رکھتی ہو ،منشور ایسا بناتی ہیں کہ بندہ پڑھتے ہی دیوانہ ہو جاتا ہے اور پھر اسی دیوانگی کے عالم میں بیلٹ پیپر پر ٹھپہ لگا کر انتظار میں بیٹھ جاتا ہے کہ کب اسے روٹی کپڑا اور مکان ملے گا۔ویسے اب پبلک کچھ سمجھدار ہو گئی ہے ، اسے محض نعروں سے بہلانا ممکن نہیں رہا ۔یہی وجہ ہے کہ اب سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور انگلش سٹائل میں بنانے شروع کر دئیے ہیں تاکہ باشعور عوام انگریزی سے متاثر ہو کر اپنے بے شعور ہونے کا ثبوت دیں اور ثواب دارین حاصل کریں (دارین کا مطلب مجھے آج تک نہیں سمجھ آ سکا)۔
جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے میری بے چینی بڑھتی جا رہی ہے ۔مجھے شدت سے پارٹیوں کے منشور کا انتظار ہے جنہیں صرف پڑھنے سے ہی ہمارے تمام مسائل گٹر میں بہہ کر حل ہو جائیں گے ۔میں چونکہ خاصا بے صبرا واقع ہوا ہوں اور مزید انتظار نہیں کر سکتا لہٰذا میں نے ابھی سے تصور کر لیا ہے کہ ان manifestos میں کیا لکھا ہوگا۔مثلاً …ہم معیشت کو بحال کر کے ترقی کی شرح کو 6فیصد تک لے جائیں گے …کیسے ؟برآمدات میں اضافہ کر کے …وہ کیسے ہوگا؟ بس ہو جائے گا۔ہم دہشت گردی کا خاتمہ کر دیں گے …کیسے ؟ دہشت گردوں سے مذاکرات کے ذریعے …ویری گڈ ،تو کیا مذاکرات کی میز پر پویس اور فوج کے جوانوں کے کٹے ہوئے سر رکھے جائیں گے یا خود کش دھماکوں میں مارے گئے بچوں کے چیتھڑے ؟شٹ اپ ،جب ہم انہیں بتائیں گے کہ ہم امریکہ کی جنگ سے نکل آئیں ہیں تو وہ سر جھکا کر اچھے بچوں کی طرح ہتھیار پھینک دیں گے اور شریف شہری بن جائیں گے ۔ہم قانون کی بالا دستی کو یقینی بنائیں گے … بھلا وہ کس طرح ؟ قانون کی معمولی خلاف ورزی پر پھانسی کی سزا دے کر !ہم شہریوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں گے …کیسے ؟ ہر شہری کے ساتھ ایک پولیس والے کی ڈیوٹی لگا کر …اور اس پولیس والے کی جان کا تحفظ کون کرے گا ؟ ایک بار پھر شٹ اپ،اس کے ساتھ فوجی کی ڈیوٹی لگائی جائے گی ۔
لوگ چونکہ اسی قسم کے ”سلطان راہی “ٹائپ حل پسند کرتے ہیں ،اسی لئے سیاسی جماعتیں بھی انہی خطوط پر منشور پیش کرتی ہیں جنہیں پڑھ کر دھمال تو ڈالی جا سکتی ہے ملک نہیں چلایا جا سکتا ہے ۔اکیسویں صدی میں روایتی طریقے سے ملک چلانا اب ممکن نہیں رہا ،اب ہمیں ہائی ٹیک ہونا پڑے گا اور یہ کچھ ایسا مشکل کام نہیں ۔ہمارے ملک میں ایک ادارہ ہے جس کا نام نادرا ہے ،یہ ادارہ شہریوں کو شناختی کارڈ جاری کرتا ہے۔صرف اس ایک ادارے سے ایسا کام لیا جا سکتا ہے جو ملک کی کایا پلٹ سکتا ہے ۔فقط نادرا کے ڈیٹا بیس کو ملک کے دیگر تمام اداروں کے ڈیٹا بیس کے ساتھ منسلک کر نے سے ہی پاکستان میں خاموش انقلاب آ سکتا ہے ۔کیسے ؟ فرض کریں کہ آپ نے لندن کے کسی علاقے میں گاڑی غلط پارک کردی ہے ،نتیجے میں گاڑی پر غلط پارکنگ کے جرمانہ کا ٹکٹ لگا دیا جائے گا جسے آپ نے ہر حال میں بھرنا ہے ورنہ وہ آپ کے ڈرائیونگ لائسنس کے ڈیٹا بیس میں تلوار بن کر لٹکتا رہے گا اور اگلی کسی بھی قانونی خلاف ورزی کی صورت میں بزور شمشیر آ پ سے وصول کیا جائے گا۔با الفاظ دیگر ایک غلط پارکنگ آپ کی زندگی اجیرن کر دے گی۔
ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ اس لئے کہ ہمارے ہاں کسی بھی قسم کے ڈیٹا بیس کا وجود نہیں ہے اور اگر کہیں کوئی ڈیٹا بیس ہے تو وہ اکیلا کسی جزیرے میں کام کر رہا ہے ،اسے کسی مرکزی ڈیٹا بیس کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس سے قانون کی عمل داری میں کوئی مدد لی جا رہی ہے ۔نادرا یہ کام کر سکتا ہے جس کیلئے تین اقدامات کرنے ہوں گے۔پہلا، پبلک ڈیلنگ کے تمام وفاقی اور صوبائی اداروں کے سربراہان اپنے ادارے کا ڈیٹا بیس تیار کریں گے۔ کچھ ادارے پہلے ہی یہ کام کر چکے ہیں مثلاً اکاؤنٹینٹ جنرل آفس، موٹر رجسٹریشن اتھارٹی، امیگریشن اور پاسپورٹ آفس،بینک،انکم ٹیکس ،کسٹم وغیرہ۔ دوسرا، اپنا ڈیٹا بیس تیار کرنے کے بعد یہ ادارے اسے نادرا کے ساتھ لنک اپ کر دیں گے۔ مثلاً موٹر رجسٹریشن اتھارٹی جب اپنا ڈیٹا بیس نادرا کے ساتھ منسلک کرے گی تو ایک مرکزی جگہ پر یہ انفارمیشن آ جائے گی کہ فلاں گاڑی فلاں شخص کے نام ہے جس کا شناختی کارڈ نمبر یہ ہے ،اس گاڑی کو رواں سال میں جرمانے کے اتنے ٹکٹ جاری ہوئے جن میں سے تا حال کوئی نہیں بھرا گیا ،اس کے علاوہ اس شخص کے شناختی کارڈ پر یہ جائیداد ہے ،اس کا پاسپورٹ نمبر یہ ہے ،بینک اکاؤنٹ فلاں برانچ میں ہے … نادرا کا سسٹم اگر اس کا شناختی کارڈ بلاک کر دے تو اس کی زندگی رک جائے گی۔جب تک وہ غلط پارکنگ کا جرمانہ نہیں بھرے گا ،وہ کوئی اور کام نہیں کر سکے گا ۔اگر ٹول پلازے پر ایک سرکاری اہلکار دس ہزار روپے کا اینڈرآئیڈ فون لے کر کھڑا ہو جو 3Gکے ذریعے نادرا کے ڈیٹا بیس سے منسلک ہو تو ہائی وے پولیس ہر اس گاڑی کو شاہراہ پر آنے سے روک سکتی ہے جس کے ذمے کوئی بھی جرمانہ ہو۔ اب خود سوچئے کیا ایسا شخص بچ سکے گا ؟یقینا یہ پاکستان ہے جہاں لوگ ہر قانون کا توڑ نکالنے کے ماہر ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ قوانین کی عملداری میں جدت پیدا کرنے کی کوشش ہی نہ کی جائے ۔جو کام بھی افراد کی صوابدید سے نکل کر ”سسٹم “ میں آ جائے گا س کی عملداری اپنے آپ آسان ہو جائے گی ۔کوئی شخص نادرا کے ڈیٹا بیس منیجر کو دس ہزار روپے دے کر اپنا نام وہاں سے نکال لے ،یہ تقریبا ً ناممکن بنایا جا سکتا ہے ۔
اس ضمن میں تیسرا اقدام سب سے اہم ہے اور وہ ہے سیاسی عزم۔یہ کام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک صوبے کا وزیر اعلیٰ خود اس کی نگرانی نہ کرے ۔اگر وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری اس کام کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جائیں تو زیادہ سے زیادہ اسے ایک سال میں ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔یہ کوئی نا قابل عمل منصوبہ ہے نہ اس کیلئے وسیع پیمانے پر فنڈچاہئیں ،کوئی لمبی چوڑی قانون سازی درکار ہے نہ آئی ایم ایف کا ترلہ کرنا ہے ۔صرف اپنے سیاسی نمائندوں کی منت سماجت کرنی ہے کہ حضور کچھ اس طرف دھیان دیں ،گورننس کے مسائل اپنے آپ حل ہو جائیں گے ۔ جس ملک میں چھوٹے چھوٹے قوانین کی خلاف ورزی جہاں ہوگی وہاں بڑے جرائم جنم لیں گے۔ کسی ریاست کے پاس اتنی استعداد نہیں ہوتی کہ وہ پولیو کے قطرے پلانے والوں کو تحفظ دینے سے لے کر غلط پارکنگ تک اپنی رٹ منوانے کیلئے فوج تعینات کرے ۔اس کیلئے ایسے سسٹم وضع کرنے پڑتے ہیں جو سزا اور جزا سے مشروط ہوں ۔یہ اکیسویں صدی ہے،اس میں ہمیں شیخ الاسلام کا نہیں ،بل گیٹس طرز کا منشور چاہئے
تازہ ترین