• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں گیس کی قلّت، مہنگائی، نایابی اور پریشر میں کمی سے ہر سال کی طرح اس برس بھی جو صورتحال پیدا ہوئی، اس کے تناظر میں بدھ کے روز پرائم منسٹر آفس اسلام آباد میں منعقدہ وفاقی کابینہ کی توانائی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں کو دوررس نتائج کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے۔کمیٹی کے جو فیصلے وزیراعظم عمران خان کی ہدایات کی صورت میں سامنے آئے ان سے ملک میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی کے امکانات نہ صرف نمایاں ہوئے ہیں بلکہ قلیل وقت میں بھی ان فیصلوں کے مثبت اثرات سامنے آنے کی توقعات ہیں۔اجلاس میں بجلی کے پیداواری منصوبوں،ایل این جی اور پیٹرولیم سے متعلق امور پر غور کیا گیا، اوگرا آرڈیننس میں ترمیم کی منظوری دی گئی،ایل این جی کی قیمت پر نظرثانی کا فیصلہ کیا گیا،غیرملکی کمپنیوں سے پاکستانی اداروں کے ایل این جی معاہدوں کی تجدید کرنے کے علاوہ کئی ایسے فیصلے کئے گئے جن سے گھریلو صارفین کیلئے گیس کی کم سے کم وقت میں فراہمی یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ اس صورتحال کو قابل فخر کہنا مشکل نظر آتا ہے کہ سال 2018ء اگرچہ بجلی کی پیداوار کے حوالے سے بہت اچھا قرار دیا گیا اور دعوے کی حد تک 25ہزار سے زائد صنعتوں کیلئے لوڈشیڈنگ صفر کر دی گئی لیکن دیہی علاقوں کو ہائی لاسز ایریاز کہتے ہوئے 3سے 6گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری رہی۔سال کے ابتدائی مہینوں سے محسوس کی جانے والی اس کیفیت کا تسلسل بعد میں بھی پوری طرح ختم نہیں ہو سکا اور شہروں میں رہنے والےصارفین بھی ایسی مشکلات کے شکار رہے جن کی ہمیشہ کی طرح وقتاً فوقتاً ناقابلِ فہم توجیہات سامنے آتی رہیں۔بدھ کے روز منعقدہ اجلاس میں وزیراعظم نے جہاں گیس بحران پر بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ مسترد کر کے دوبارہ تحقیقات کرنے اور نقصانات کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی ہدایات کے ساتھ سیکرٹری پیٹرولیم سے 48گھنٹوں میں سفارشات مانگیں وہاں پاور ڈویژن کے اعلیٰ حکام کو ہدایت کی گئی کہ وہ ایل این جی کی چار سے چھ ماہ کی ضروریات کا درست تخمینہ پیش کریں تاکہ اس کی بروقت فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔وزیراعظم کا ایک اسٹرٹیجک فیصلہ متعلقہ حکام کو دی گئی اس ہدایت کی صورت میں سامنے آیا کہ وہ فرنس آئل کی درآمد پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری کریں،اس پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں اور مستقبل میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کوئلے اور ایل این جی پر کی جائے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے فرنس آئل کی درآمد پر پابندی تو لگائی تھی مگر نہ صرف اس کا نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا بلکہ پاور ڈویژن نے موسم گرما میں اسے بجلی پیدا کرنے کی ضروریات سے منسلک کر دیا تھا جس کے باعث مہنگے فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے کا سلسلہ بڑے پیمانے پر جاری رہا۔اب فرنس آئل امپورٹ پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد درآمدی آئل موسم گرما میں بھی استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔تاہم فرنس آئل کی طلب 2400میگاواٹ سے تجاوز کرنے کی صورت میں مقامی ریفائنریز کا فرنس آئل بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکے گا۔بجلی کی پیداوار کیلئے ایل این جی اور کوئلے پر انحصار بڑھایا جائے گا اور اگلی گرمیوں تک 1200میگاواٹ کا آرایل این جی سے چلنے والا ایک اور بجلی گھر تریموں کے مقام پر کام شروع کر دے گا۔فرنس آئل سے بجلی کی پیداواری قیمت 16روپے فی یونٹ جبکہ اس کے متبادل کے طور پر ایل این جی کے استعمال سے بجلی کی فی یونٹ پیداواری قیمت 10روپے بنتی ہے۔ مگر ایک آئینی دشواری کے باعث پنجاب میں مہنگی ایل این جی استعمال ہوتی ہے۔موجودہ حکومت ایل این جی کو گیس نظام میں مکس کر کے اس کے اوسط نرخ مقرر کرنا چاہتی ہے جس کے نتیجے میں گیس کی قیمتیں کم ہوں گی اور ملکی معاشی سرگرمیوں میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔بظاہر توانائی بحران کنٹرول کرنے کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت درست سمت میں بڑھ رہی ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ ان اقدامات اور فیصلوں کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔

تازہ ترین