• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کو درپیش انتہائی سنگین مالی بحران سے نمٹنے کے لئے حکومت نے دوست ممالک سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے6ارب ڈالر کی مالی امداد کے ساتھ سرمایہ کاری کے متعدد منصوبوں اور سعودی عرب سے ایک سال کے لئے تیل ادھار لینے کے سمجھوتے کئے ہیں لیکن اس سے بھی معیشت کی جو پیاس ہے وہ بجھتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے پیش نظر اگلے ماہ ضمنی بجٹ لاکر 160ارب روپے کے نئے ٹیکسوں سے اندرونی محاصل کے اہداف پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ سفارشات ترمیمی بل 2019 کے ذریعے قومی اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کی جائیں گی اس کے خدوخال دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس سے دیہاڑی دار محنت کشوں اور نچلی اور درمیانی درجے کے تنخواہ دار طبقے کی قوت خرید مزید کم ہو گی لہٰذا کوشش کی جانی چاہئے کہ کم آمدنی والے افراد ضمنی بجٹ کی زد میں نہ آئیں تاہم حکومت کی ترجیحات سے ایسا ہوتا نہیں دکھائی دےرہا ہے۔ اس وقت چار لاکھ روپے تک سالانہ آمدنی پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہے ضمنی بجٹ میں ا س پر ایک ہزارروپے، چار سے آٹھ لاکھ روپے تک آمدنی پر دو ہزار روپے فکس کرنے کے علاوہ5فیصد ٹیکس عائد کرنے کی شرط جو کہ اس وقت 12لاکھ یا اس سے زائد آمدنی پر عائد ہے، اب اسے کم کر کے آٹھ لاکھ سے شروع کرنے کی تجویز ہے۔ مزید برآں ضمنی بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر فی لٹر کے حساب سے فکسڈ سیلز ٹیکس عائد کرنے کے جو امکانات ظاہر کئے جا رہے ہیں اس سے پیٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا اور یہ صورت حال عوام کیلئے سب سے زیادہ مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ مجوزہ ضمنی بجٹ میں موبائل فون کارڈ ری چارج پر ود ہولڈنگ ٹیکس بحال کرنے کی تجویز ہے جبکہ 2000درآمدی ٹیرف لائنز پر مزید ایک فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد کئے جانے کا امکان ہے، ان تمام اقدامات سے ملک میں موجود معاشی ابتری میں مزید اضافہ ہوگا ضرورت اس بات کی ہے کہ متذکرہ پروگرام کے ہرپہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے عوامی مفادات کو متاثر کرنے والے فیصلوں سے گریز کیا جائے۔

تازہ ترین