• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناساز طبیعت کے باعث میں پچھلے ہفتے کالم نہ لکھ سکا۔ اِس بار بھی بخار کی شدت نے ہوش و حواس اُڑا رکھے تھے اور بستر پر لیٹے ہوئے عبدالحمید عدمؔ کے دلچسپ شعر یاد آ رہے تھے جن سے بھولی بسری یادیں عود کر آئی تھیں۔ حافظے کی اسکرین پر ایک شعر چپک سا گیا تھا؎

زندگی کے اُداس لمحوں میں

بے وفا دوست یاد آتے ہیں

اور سیف الدین سیفؔ کا یہ شعر بھی یاد آتا رہا؎

شاید تمہارے ساتھ بھی واپس نہ آ سکیں

وہ ولولے جو ساتھ تمہارے چلے گئے

میں ابھی ماضی کے دھندلکوں میں گم تھا کہ دفعتاً ٹی وی اسکرین پر ایک دلدوز منظر نمودار ہوا جسے دیکھ کر میرا پورا وجود لرز اُٹھا۔ بتایا جا رہا تھا کہ سرگودھا یونیورسٹی کے لاہور چیپٹر کے سربراہ میاں جاوید جن کو نیب نے بعض الزامات پر گرفتار کیا تھا، اُنہیں جیل میں دل کا دورہ پڑنے پر،ہتھکڑیاں لگا کر اسپتال لایا گیا۔ اُن کی روح قفسِ عنصری سے پرواز بھی کر گئی جبکہ محافظ میت کو بڑی سنگ دلی سے ہتھکڑیاں پہنائے رہے کہ کہیں وہ فرار نہ ہو جائے۔ میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا کہ انسانی بستی میں اِس نوع کی درندگی اور شقاوتِ قلبی کا مظاہرہ بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں پتھر کا بنتا جا رہا ہوں اور میں پتھر کے عہد میں آ گیا ہوں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں انسانوں کے بجائے درندے بستے اور ایک دوسرے کو چیڑ پھاڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ یا خدایا! میں کس دردناک عذاب کا مزہ چکھ رہا ہوں!

مجھے یاد آیا کہ نیب نے پچھلے دنوں سے احتساب کا ایک نیا کلچر متعارف کرایا ہے جس نے ہمارے معاشرے کا ضمیر پوری طرح بےنقاب کر دیا ہے۔ اس قومی احتساب بیورو کی تخلیق ہی میں بہت بڑی خرابی مضمر تھی جسے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے قومی سیاسی جماعتوں میں شگاف ڈال کر اپنی حمایت میں ایک سیاسی جماعت کھڑی کرنے کے لیے قائم کیا تھا۔ نومبر 1999ء میں اس کا آرڈیننس جاری ہوا، تو اس کے اہداف پر غور کرنے کے لیے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل افیئرز کا اجلاس منعقد ہوا جس میں چوٹی کے وکلا کے علاوہ سیاسی قائدین اور سول سوسائٹی کے نمائندے شامل ہوئے۔ معروف جیورسٹ جناب ایس ایم ظفر نے اس کی صدارت فرمائی۔ حاضرین کا اِس امر پر مجموعی اتفاق پایا جاتا تھا کہ اس احتساب بیورو کا مقصد فوجی ادارے کے ذریعے سیاست دانوں کا یکطرفہ احتساب ہے جس کے نتائج معاشرے اور جمہوریت کے لیے حددرجہ خطرناک نکلیں گے۔ چشمِ فلک نے آناً فاناً قاف لیگ کو قائم ہوتے اور پیپلزپارٹی میں سے پیٹریاٹس کو الگ تھلگ ہوتے دیکھا، تب کہیں جا کر جناب میر ظفراللہ خاں جمالی صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیرِاعظم کے منصب تک پہنچ سکے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں رہنے تک قاف لیگ کو عروج حاصل رہا اور اُن کے غروب ہونے کے بعد یہ جماعت صرف چند سیاسی شخصیتوں تک سمٹ کر رہ گئی اور چوہدری برادران اس کی سرپرستی کرتے رہے جن کو پنجاب کی بعض طاقت ور برادریوں میں اثر و رسوخ قائم رکھنا بھی آتا ہے اور اُن کی گرم جوشی اور دریا دلی میں بھی بڑی کشش ہے۔

سیاست دانوں کے خلاف نیب ایک مدت سے طاقت آزماتا رہا ہے، مگر جب سے اُس کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے منصب سنبھالا ہے، اس کی سرگرمیوں میں وسعت آتی جا رہی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے جج ہونے کے ناتے سے عوام کے اندر اُن کے لیے احترام پایا جاتا ہے، مگر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس ادارے کو انصاف کے بنیادی اصولوں اور تہذیب کے معروف تقاضوں کے مطابق ڈھالنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے۔ اب سیاست دانوں کے علاوہ بیوروکریٹس بھی گرفتار کیے جا رہے ہیں اور چھ آٹھ ماہ گزر جانے کے باوجود اُن کے خلاف عدالت میں ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے جا سکے جبکہ ان پر ذہنی اور جسمانی تشدد روا رکھا جا رہا ہے۔ اس احتسابی عمل نے پوری قوم کے اندر اس وقت بڑی ہلچل مچا دی جب سرگودھا اور پنجاب یونیورسٹیوں کے سابق وائس چانسلرز پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری اور پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نیب کی تحویل میں لے لیے گئے اور اُنہیں یکے بعد دیگرے ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ یہ ہماری قومی تاریخ کا بدترین سانحہ تھا۔ وہ علمی ہستیاں جن سے لاکھوں طالب علموں نے فیض پایا، اُن کی یہ تذلیل ہمارے قومی ضمیر کو کسی طور قابلِ قبول نہیں، چنانچہ طلبہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور اہلِ دانش میں سخت اشتعال اور ہراس پیدا ہوا۔ تعلیم و تدریس سے وابستہ کروڑوں افراد نے اس اقدام کو قومی ذلت کے مترادف قرار دیا اور اِس امر پر شدید کرب کا اظہار کیا کہ اس شرمناک فعل پر نیب کی طرف سے کوئی معذرت آئی، کسی ذمہ دار کے خلاف کوئی عبرت آمیز ایکشن لیا گیا اور نہ اِس نوع کی کوئی یقین دہانی کرائی گئی کہ آئندہ ایسا کوئی دلخراش منظر ظہور پذیر نہیں ہو گا۔ فاضل چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے اس کا سووموٹو تو لیا، مگر کسی کو سزا دیے بغیر سب کو معافی مرحمت فرما دی۔ اِس پورے منظرنامے نے قومی احتساب بیورو کو عوام کی نظر میں معتوب بنا دیا ہے اور یہ تاثر قائم ہوتا جا رہا ہے کہ یہ کرپشن کی بیخ کنی کے بجائے بدعنوانوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ اس کی تحویل میں ایک اور افسر موت کی آغوش میں جا چکا ہے۔

مستقبل قریب میں یہ امکان کم نظر آتا ہے کہ سیاسی جماعتیں نیب میں بنیادی اصلاحات لانے پر متفق ہو جائیں۔ ایسے میں اساتذہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نیب آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں جو آئین کی روح اور اس کے بنیادی تقاضوں کے صریحاً خلاف ہے۔ چوٹی کے وکلا کو اِس تحریک میں بڑھ چڑھ کا حصہ لینا چاہیے اور قوم جس ذلت سے دوچار کی جا رہی ہے، اس سے اس کو مستقل طور پر نجات دلائی جائے۔ اِسی طرح ان مجرموں کو بھی عبرت ناک سزائیں دلوائی جا سکتی ہیں جو اساتذہ کرام اور ان کی لاش کو ہتھکڑی پہنانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پوری تیاری سے سردیوں کی چھٹیوں کے بعد سپریم کورٹ میں رِٹ داخل کی جا سکتی ہے۔ ایسا نہ کیا گیا، تو آئے دن آپ کو دل دہلا دینے والے مناظر کا سامنا کرنا ہو گا۔

تازہ ترین