• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے نقشِ پا صلالہ (عمان) کے ساحلوں پر چھوڑ دئیے اور ریت سے یادیں اٹھا کر واپس آ گیا۔ میری یادوں میں صحبت ِصبر ایوب بھی ہے جو مجھے حضرت ایوب علیہ السلام کے مزار سے ملی۔ اللہ کی وہ اونٹنی بھی ہے جس کے قدموں کی چاپ اُس بلند بام پہاڑ پرسنی گئی جہاں حضرت صالح علیہ السلام کا مزارِ اقدس ہے۔ بہت سی زیارتوں کی یادذہن کی پوٹلی میں باندھ لایا ہوں۔ صلالہ کا عجائب گھر بھی دیکھا، کئی قدیم کشتیاں بھی دیکھیں۔ جن کے ساتھ کہانیاں جڑی ہوئی تھیں۔ ایک کشتی جو 1947ء میں سمندر سے برآمد ہوئی۔ اس کے ساتھ منسلک کہانی کچھ یوں تھی’’جب اُس کشتی میں سوراخ ہوا توملاح نے چپو مارنا چھوڑ دئیے اورسوراخ بند کرنے کی کوششوں میں لگ گیا۔ کشتی میں موجود لوگ بھی اس کی مدد کرنے لگے۔ پانی کشتی میں بھرنا شروع ہوگیا۔ ملاح کے سوا کوئی بھی تیرنا نہیں جانتا تھا مگراسے اپنی نہیں تمام لوگوں کی جانیں بچانا تھیں۔ ملاح کامیاب ہو گیا۔ سوراخ بند کر دیا گیا۔اُس شخص کی تلاش شروع کی گئی جس نے کشتی میں سوراخ کیا تھا۔ آخر کار وہ شخص تلاش کرلیا گیا کچھ لوگوں نے کہا کہ اسے سمندرمیں پھینک دیاجائے مگرکچھ لوگ اس کے ساتھی بن گئے اور کہنے لگے ’’ تم نے کب اسے سوراخ کرتے ہوئے دیکھا ہے ‘‘ملاح نے کہا ’’اسے سمندر میں پھینکے کی بجائے ایک طرف باندھ دیتے ہیں تاکہ دوبارہ یہ حرکت نہ کرے۔ ‘‘ اُس کے ساتھیوں نے اس بات کی بھی مخالفت کی اور اسے باندھنے بھی نہ دیا۔ موقع ملتے ہی اس شخص نے دوبارہ کشتی میں سوراخ کردیا۔ کشتی ڈوب گئی اورخودوہ تیر کر کنارے پر پہنچ گیا۔ کہانی کا نچوڑ یہ نکالا گیا کہ اگر ملاح کی بات مان لی جاتی تو وہ کشتی ڈوبنے سے بچ سکتی تھی‘‘

کون نہیں جانتا کہ اِس وقت پاکستان کی حالت اُسی کشتی جیسی ہے جس میں سوراخ ہوچکا ہے اوراس کشتی کا ملاح عمران خان اس کاسوراخ بند کرنے میں لگا ہواہے، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار، نیب کے چیئر مین جسٹس (ر) جاوید اقبال اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس کام میں اُن کی بھرپورمدد کررہے ہیں کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ اگرسوراخ بند نہیں ہوا یعنی کرپشن کا خاتمہ نہ ہوا تو خدا نخواستہ ملک پاکستان کی کشتی ڈوب بھی سکتی ہے۔ عمران خان نے تو اپنی زندگی کا مقصد ِ اولین اسی سوراخ کو بند کرنا بنایا ہوا ہے۔ اس خیال سے انہوں نے اپنی پارٹی کا نام بھی ’’تحریک انصاف ‘‘رکھا تھا۔ انہیں علم تھا کہ جہاں انصاف ہوتا ہے وہاں کرپشن نہیں ہوتی۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے جب تک ملک میں کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک ملک میں ہونے والی تمام ترقی بے کار ہے۔

عمان میں بھی پاکستانی سرمایہ کاری خاصی قابلِ ذکر ہے۔ یقیناً اس بات کی بھی تحقیق کی ضرورت ہے کہ دبئی کی طرح عمان میں جوپاکستانیوں کے بڑے بڑے بزنس ہیں اُن کےلئے جو سرمایہ پاکستان سےعمان منتقل ہوا،وہ کتنے فیصد غیر قانونی طور پر عمان پہنچا۔ عمان اگرچہ دبئی کی طرح غیرقانونی سرمایہ کاری کی جنت نہیں لیکن پاکستانی اور انڈین سرمایہ کاروں میں رابطے کی جگہ ضرور ہے۔ عمان میں تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ انڈین آباد ہیں اور ڈیڑھ لاکھ پاکستانی۔ یعنی عمان پر انڈیا کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ بھارتی افسران کے لئے عمان میں ویزے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ بے شک عمان کی ترقی میں انڈین لوگوں کا خاصا کردار ہے۔ زیادہ تر سڑکیں اور موٹرویز بھارتیوں نے بنائی ہیں۔ عمان کی ایک اہم بندرگاہ دقم بھی تقریباً انڈین نیوی کے پاس ہے۔ اسے تیار بھی انڈین نیوی نے ہی کیا ہے۔ معاہدے کے تحت بھارت اسے فوجی مقاصد کےلئے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ باقی تمام بندرگاہوں کی سیکورٹی امریکہ کے حوالے کی گئی ہے۔ یعنی بوقتِ ضرورت امریکہ بھی اسے استعمال کر سکتا ہے۔

عمان کا دارالحکومت ’’مسقط‘‘ گوادر سے صرف بیس منٹ کے ہوائی سفر پرہے۔ اسلامی ممالک میں ایران اور افغانستان کے بعد عمان ہمارا قریب ترین ہمسایہ ملک ہے۔ ضروری ہے کہ پاکستان عمان کے معاملات میںگہری دلچسپی لے،یہاں ہونےوالی چھوٹی بڑی تبدیلیوں پر نگاہ رکھے۔ یہاں اپنے اثر رسوخ میں اضافہ کرے۔ پاکستانی سفارت خانہ یہاں اپنے کام میں بالکل ناکام ثابت ہوا ہے۔ جو سفیر یہاں چار سال سے متعین ہے اسے فوری طور پر واپس بلا لیا جائے اورکسی ایسے آدمی کو یہاں سفیر بنا کر بھیجا جائے جو عربی زبان جانتا ہو۔ یہاں زیادہ تر انڈین سفارت کار ایسے ہیں جو عربی زبان بولنا جانتے ہیں۔ عمران خان کو فوری طور پر عمان کا دورہ کرنا چاہئے۔ ماضی میں عمان اور پاکستان کے تعلقات زیادہ اچھے کبھی نہیں رہے۔ 1958ء میں جب پاکستان نےعمان سے گوادر واپس لیا تو عمان کی حکومت نےخوش دلی سے یہ دوہزار میل کا علاقہ واپس نہیں کیا تھا بلکہ مجبوراً واپس کیا تھا۔ برطانیہ نے صاف طور پر عمان سے کہہ دیا تھا کہ ا س سے پہلے پاکستان وہاں زبردستی قبضہ کرلے عمان یہ علاقہ پاکستان کو واپس کردے۔ اس علاقے کی تاریخ یہ ہے کہ1781 ء میں عمان کے ایک شہزادے نے خان آف قلات کے پاس پناہ حاصل کی تھی۔ خان آف قلات نے اس کی گزر بسر کےلئے یہ علاقہ اسے دے دیا تھا۔ وہ شہزادہ جب عمان کا بادشاہ بنا تو اس نے اس علاقے یعنی گوادر پر بھی اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 1861ء میں خان آف قلات نے اس علاقے کی واپسی کا مطالبہ کیا تو برطانیہ نے اس معاملے میں مداخلت کی مگر کوئی فیصلہ نہ دیا۔ پاکستان بننے کے بعد چونکہ ایسی تمام جاگیریں حکومتِ پاکستان نے منسوخ کردی تھیں اس لئے عمان کےلئے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ یہ علاقہ واپس کر دے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان نے اس سلسلے میں کچھ رقم عمان کو دی تھی مگر اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ عمران خان نے جس طرح سعودی عرب کو سی پیک میں شامل ہونے پررضامند کیا ہے اسی طرح سلطان قابوس کو بھی گوادر میں انویسٹمنٹ کی دعوت دیں۔ عمان اس عظیم پروجیکٹ کا حصہ بنےگا کیونکہ عمان اپنے قریب ترین بننے والی اتنی بڑی بین الاقوامی بندرگاہ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اگرچہ عمان کےافغا ن طالبان سے بھی اچھے مراسم ہیں اور اس نے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات میں بھی اہم کردار ادا کیا ہےمگر عمان مذہبی طور پر تنگ نظر نہیں ہے یہاں مسلکی رواداری شاید پوری دنیا سے زیادہ ہے۔ یہ ایک انتہائی پُرامن ملک ہے۔ سو اس کے ساتھ پاکستان کے بہتر مراسم پاکستان پر اچھے اثرات مرتب کریں گے۔

تازہ ترین