• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی مذہب کے حوالے سے کتب ، احادیث پر تحقیقی کام کولوگ نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ ان کے بڑے معترف اور مداح بھی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی سیاست میں سرگرم حصہ ہی نہیں لیا بلکہ انتخابی سیاست میں بھی زور آزمائی کی اور پھر 2002ء کے الیکشن میں منتخب ہونے کے بعد اچانک استعفیٰ دیکر سیاست سے کنارا کر لیا۔ کچھ عرصہ بعد2004ء میں ملک کو خیرباد کہہ کر کینیڈا جا بسے ۔ اس دوران مذہب کے حوالے سے انہوں نے نہ صرف تحقیق و تصنیف کا کام جاری رکھا بلکہ ویڈیولنک کے ذریعے پاکستان میں اپنے چاہنے والوں سے مختلف اوقات میں خطاب بھی کرتے رہے۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے ایک نعرہ لگایا ہے کہ ” سیاست نہیں ریاست بچاؤ“ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے ایک بڑا تفصیلی کتابچہ ہی شائع نہیں کیا بلکہ 23 دسمبر2012 ء کو پاکستان واپس آکر مینار پاکستان کی گراؤنڈ میں یہ اعلان کرنے کا ارادہ ہے کہ وہ کیا طریقہ کار یا ممکنہ راستہ ہے جس سے ریاست کو بچایا جا سکتا ہے۔ کئی دنوں سے ان کی آمد کے حوالے سے ایک بھرپور میڈیا مہم بھی جاری ہے کہ پاکستان میں حقیقی تبدیلی کا وقت آچکا ہے اپنی اسی مہم کے سلسلہ میں گزشتہ ہفتے سینئر صحافیوں سے ویڈیو لنک کے ذریعے ملاقات کی اور سوال و جواب کا ایک طویل سیشن ہوا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ ملک میں بیروزگاری 15.4فیصد ہے بنگلہ دیش میں 5.1فیصد، بھوٹان و سری لنکا میں 4 فیصد اور نیپال میں 4.6فیصد ہے اس طرح پاکستان بیروزگاری میں چھوٹے ترقی پذیر ممالک سے بھی آگے ہے ۔ پاکستان کا تعلیم پر کل خرچ جی ڈی پی کا صرف2.7فیصد جبکہ بہت سے ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح 3سے 4 فیصد ہے۔ نیپال اور بھوٹان کا تعلیمی بجٹ ہم سے 2گنا اور مالدیپ کاتقریباً 5 گنا ہے۔ صحت کے حوالے سے خرچ جی ڈی پی کا 2.6فیصد ہے اور پندرہ سال سے یہی چلا آ رہا ہے جبکہ بنگلہ دیش کا صحت بجٹ4.3فیصد ،نیپال کا6 فیصد، بھوٹان کا5.5فیصد، سری لنکا کا4فیصد اور مالدیپ کا 5.6فیصد ہے یہاں تک کہ ایتھوپیا اور حبشہ کا 3.6فیصد ہے ، یہ قوم کیلئے لمحہٴ فکریہ ہے ۔ اس کی وجہ دراصل سیاسی اجارہ داریاں ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے سے لے کر آج تک جس جس علاقے میں جو لوگ حکمران رہے انہی کی نسلیں آج بھی پاکستانی عوام پر مسلط ہیں چونکہ یہ نام نہاد انتخابات کے نام پر منتخب ہو کر آتے ہیں یہی انتخابی ڈرامہ عوام کا سب سے بڑا دشمن ہے اور ملک میں ”جمہوریت نہیں بلکہ مجبوریت “ہے کیونکہ جمہوریت اس نظام کو کہتے ہیں جس میں محکوم اپنے حکمرانوں کو اور ووٹر اپنے نمائندوں کو کنٹرول کر سکیں۔ جمہوریت کیلئے تو شہریوں کا انداز نظر جمہوری، طریقہ کار جمہوری اور طرز حکمرانی جمہوری ہونا چاہئے ۔ مگر ہمارے ہاں خود سیاسی جماعتوں کے اندر لیڈر کے مواخذے کاکوئی تصور نہیں، جہاں مواخذہ نہ ہو تو اس نظام کو جمہوری نظام کیسے کہا جا سکتا ہے۔ اس لئے ملک میں حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
کسی بھی ملک میں تبدیلی کے تین طریقے ہو سکتے ہیں ایک تبدیلی فوج کے ذریعے آسکتی ہے، دوسرا طریقہ بذریعہ بندوق یا تشددہے اور تیسرا طریقہ بیلٹ کے ذریعے تبدیلی لانے کا ہے مگر ان تینوں کے بارے میں ڈاکٹر طاہر القادری کاجواب نفی میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کے نتائج نے اس ملک کو گرداب سے نکالا ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے صحیح قیادت سامنے آتی ہے۔ اس سے ملک کو استحکام بھی نہیں ملا اور نہ ہی معیشت مستحکم ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ اب ملک میں سرجری کی ضرورت ہے اور میں تشدد کا راستہ بھی اختیار نہیں کرنا چاہتا میں یا میری پارٹی الیکشن کی حصہ دار بھی نہیں بننا چاہتی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ سرجری بھی چاہتے ہیں ، نشتر بھی استعمال نہیں کرنا چاہتے اور یہ بھی کہناہے کہ موجودہ انتخابی قوانین کے تحت ہونے والے انتخابات کے ذریعے نہ تو عام آدمی منتخب ہو سکتا ہے اور نہ ہی نظام بدل سکتا ہے۔ الیکشن سے پہلے اصلاحات کرنا ہوں گی۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ الیکشن کو رکوانا چاہتے ہیں اور ایک ایسے وقت میں ریاست بچانے کا نعرہ لگا کر لوگوں کو گمراہ کرنے جارہے ہیں جبکہ الیکشن کی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں۔ یہ کون سا طریقہ ہو سکتا ہے ؟ گو ان کی دلیل کسی کی سمجھ سے بالاتر ہے ۔ آج جب وہ عملی طریقہ کار کا اعلان کریں گے تو یہ چیز واضح ہو سکے گی مگر انہیں ایک مشورہ دینا ہے کہ دنیا کے جمہوری ممالک اور ان میں بسنے والے افراد کی یہ مسلمہ رائے ہے کہ آج کے دور میں تبدیلی لانے کا بہترین طریقہ الیکشن ہیں ۔ ہاں البتہ ان کی اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا (سوائے اسٹیٹس کو کی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کے ) کہ موجودہ الیکشن کے نظام میں اصلاحات کی بہت زیادہ ضرورت ہے لیکن اصلاحات کے نام پر پورے سسٹم کو نہیں لپیٹنا چاہئے۔ میں اپنے انہیں کالموں میں کئی مرتبہ یہ لکھ چکا ہوں کہ وہ لوگ جو الیکشن میں حصہ لیناچاہتے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ان امیدواروں کو میڈیا پر مشتہر کریں، ان کے اثاثے سامنے لائے جائیں، عوام کو پورا حق دیا جائے کہ وہ ان کا احتساب کریں پھر انہیں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہو اور الیکشن کمیشن آئین کے معیار پر انہیں پرکھ کر اہل قرار دے۔ جب قوم کو ایسے اہل افراد مل جائیں گے تو الیکشن لڑنے کے لئے ان کے اخراجات سیاسی پارٹیاں اور قومی خزانے سے کئے جائیں۔ اخراجات کی یہ حد زیادہ سے زیادہ 5لاکھ تک ہونی چاہئے تاکہ ان الیکشن میں ایک عام آدمی جو سب سے زیادہ محب وطن اور لوگوں کے حقیقی مسائل سے واقف ہو وہ منتخب ہوسکتا ہے ۔ اگرایسی اصلاحات نہیں لائی جاتیں تو پھر سو مرتبہ بھی الیکشن کروا لئے جائیں تو نہ مثبت تبدیلی آسکتی ہے نہ ہی معاشی استحکام لایا جا سکتا ہے۔ بس ڈاکٹر طاہر القادری سے یہ سوال کرنا ہے کہ آپ نے تو پاکستان کو چھوڑ کر کینیڈا کی شہریت اختیار کر لی تھی۔ آپ کیسے قانونی اور آئینی طریقے سے ریاست کو بچانے کے لئے اہل ہو سکتے ہیں ۔ اگر آپ واقعتا اور اس ارادے سے ملک میں آ رہے ہیں تو دوسرے ملک کی شہریت کو چھوڑیئے اور اپنے جیسی سوچ رکھنے والی جماعتوں کو ساتھ ملا کر ریاست کو بچانے کے لئے کردار ادا کریں ۔ سڑکوں پر لوگوں کو لا کر کیسے ممکن ہے کہ نشتر بھی استعمال نہ کئے جائیں اور سرجری بھی مکمل ہو جائے ۔ آپ کو چاہنے والے پاکستان کے ہر شہر میں موجود ہیں، آپ ایک آئینی طریقہ یہ بھی اختیار کر سکتے ہیں کہ انتخابی قوانین میں اصلاحات کیلئے پاکستان بھر کے تمام انتخابی حلقوں سے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں ایک جیسی رٹس دائر کریں اور اصلاحات کے حوالے سے یہ فیصلہ فوری سامنے آنا چاہئے تاکہ الیکشن بروقت ہو سکیں ۔ یہی ریاست بچانے کا ایک بہتر طریقہ ہے، الیکشن سے ہٹ کر جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے گا اس میں خرابی کے امکانات زیادہ ہوں گے!
تازہ ترین