• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان ہی نہیں پورے خطے کا امن و استحکام اور ترقی و خوشحالی افغانستان میں امن اور پاکستان سے مضبوط اور خوشگوار تعلقات میں مضمر ہے۔ افغانستان میں بدامنی کے خاص طور پر پاکستان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں چنانچہ پاکستان افغانستان میں نہ صرف امن کا خواہاں ہے بلکہ اس سلسلے میں ہر ممکنہ تعاون پر بھی تیار ہے۔ پاکستان نے دنیا پر یہ بھی واضح کیا کہ اس مسئلے کا حل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال میں نہیں بلکہ افغان حکومت اور طالبان کے تمام گروپوں سے مذاکرات میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمعرات کے روز راولپنڈی میں، افغانستان میں کمانڈر ریزولوٹ اسپورٹ مشن جنرل آسٹن اسکاٹ سے ملاقات میں بھی اسی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کا امن پاکستان میں امن کے لئے ضروری ہے، ملاقات میں خطے کی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور سمیت افغان مصالحتی عمل پر بھی تفصیلی بات ہوئی، آرمی چیف پاکستان اور کمانڈر ریزولوٹ اسپورٹ مشن کے مابین افغان امن عمل افغان عوام کی خواہش کے مطابق کرنے اور دہشت گردوں کے خلاف موثر سرحدی اقدامات پر بھی اتفاق ہوا۔ جہاں تک پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بات ہے، بدقسمتی سے یہ کبھی مثالی نہ رہے۔ دونوں ملکوں میں قربت سوویت یونین کی افغانستان پر یلغار کے بعد سامنے آئی، پاکستان نے افغانستان کا بھرپور ساتھ دیا اور مجاہدین وجود میں آئے جنہیں بعد ازاں طالبان کہا گیا اور جنگ میں فتح یابی کے بعد انہوں نے افغانستان میں حکومت بھی بنائی لیکن یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا اور اس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے کہ پاکستان میں 40لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین چلے آئے۔ نائن الیون کے بعد افغان پالیسی میں یکسر تبدیلی پر پاکستان دشمن قوتوں کی اشیرباد سے دہشت گردی کی جنگ پاکستان پر مسلط کر دی گئی۔ پاکستان کی مسلح افواج نے بے شمار قربانیاں دے کر دہشت گردوں کی گوشمالی کی اور ان کی باقیات کے خاتمے کے لئے آپریشن ردالفساد ہنوز جاری ہے۔ معاملات میں مزید تلخی تب آئی جب امریکی صدر نے نئی افغان پالیسی کا اعلان کیا اور پاکستان پر گھٹیا الزامات عائد کئے۔ اس پر قوم کا یہ بیانیہ سامنے آیا کہ پاکستان اب کسی کی جنگ نہیں لڑے گا، اس پر امریکہ کا غصہ اور گھبراہٹ اس لئے بڑھ گئی کہ اسے اس حقیقت کا ادراک ہے کہ افغانستان سے پُرامن واپسی بھی پاکستان کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔ امریکہ نے اپنا رویہ تبدیل کیا اور پاکستان کی اس بات پر عمل پیرا ہوکر افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے مذاکرات پر مائل ہوا، پاکستان سے مدد چاہی اور پاکستان نے بھی معاونت کے لئے مقدور بھر کوشش کی۔ 21دسمبر کو امریکی صدر کا اعلان سامنے آیا کہ شام کے بعد افغانستان سے بھی امریکی فوجیوں کی قابلِ ذکر تعداد کو واپس بلا لیا جائے گا، اس کی وجہ 19دسمبر کو متحدہ عرب امارات میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات میں امید کی فضا کو قرار دیا گیا۔ افغان حکومت نے ان مذاکرات کی حمایت کی جن میں افغان طالبان اور امریکہ کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتیں بھی شامل ہوئیں۔ افغان حکومت جو ہمیشہ پاکستان پر الزام لگاتی آئی ہے ،نے اس عمل کو پاکستان کی جانب سے قیام امن کا پہلا عملی قدم قرار دیا۔ مذکورہ مذاکرات سے اس لئے بھی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں کہ ان میں افغان طالبان کے عسکری اور سیاسی گروہوں کے نمائندے بھی شامل ہوئے ،ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ دریں حالات افغانستان میں کمانڈر ریزولوٹ اسپورٹ مشن جنرل آسٹن اسکاٹ کا دورہ پاکستان اور آرمی چیف سے ملاقات نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ قیاس یہی ہے کہ جنرل آسٹن اسکاٹ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ان معاملات پر رہنمائی اور تعاون کے طلبگار ہوں گے کہ پاکستان کے سوا کسی اور ملک کو ایسی جنگ کا تجربہ نہیں۔ آرمی چیف کا موقف مبنی برحقیقت ہے کہ افغانستان میں قیام امن ہی میں پاکستان کا مفاد ہے۔ امید ہے کہ یہ عمل تیزی سے مراحل طے کرے گا اور افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوششیں ثمربار ہوں گی۔

تازہ ترین