• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز میں کرپشن کے خلاف احتساب کے نعرے کا کوئی ایک ذمہ دار شخص بھی مخالف نہیں ہو گا۔ کچھ باتیں یونیورسل ٹروتھ ہوتی ہیں جیسے ظلم و جبر نہ کرو، جھوٹ مت بولو، وعدہ خلافی نہ کرو، والدین کا ادب کرو، ہمسایوں سے اچھا سلوک کرو۔ کون کافر ہے جو ان میں سے کسی ایک کا بھی مخالف ہے؟ اصل سوال ان باتوں پر عمل درآمد یا انطباق کا ہے۔ مثال کے طور پر ان دنوں ہم ناجائز تجاوزات کے خلاف مہم چلائے ہوئے ہیں، اگر ہم میں سے کوئی دس تجاوزات میں سے پہلی اور دوسری کو گرا دے اس کے بعد تیسری اور پانچویں کو چھوڑ کر دیگر کو گرانا شروع کر دے تو ایسی تقسیم پوری مہم کو گندا کر دے گی۔ درویش ایک مرتبہ ایسی ہی مہم پر تھا کہ بیچ میں ایک بڑی بلڈنگ آگئی جس پر ن لیگی قائدین کی تصاویر لگی تھیں۔ ایک گروہ نے آکر کہا کہ آپ اس عمارت کو نہیں گرا سکتے یہ وزیر اعلیٰ کے صاحبزادے کی ہے، وہ ہر جمعرات کو یہاں آکر اجلاس بھی کرتے ہیں۔ فوری اپنے اسکواڈ کو بلایا کہ اس کو فوری گراؤ کہ مجھے موصوف کے والد صاحب (وزیراعلیٰ) کا یہی حکم ہے ۔

عرضِ مدعا یہ ہے کہ ان دنوں احتساب کے نام پر جو ڈرامے کیے جا رہے ہیں ان میں سوائے انتقام کے اور کچھ نہیں ہے۔ تماش بین ان پر جتنی چاہے واہ واہ کریں لیکن کوئی بھی روشن ضمیر اس کو درست نہیں کہہ سکتا۔ حبیب جالب نے کیا خوب کہا تھا کہ یہ لوگ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیں، میرے پاکستانی بھائیوں کو یاد ہو گا کہ جنرل ضیاء الحق نے بھی ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ ان گیارہ برسوں پر محیط ظلمت میں کتنا احتساب ہوا، آج یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ جنرل ایوب نے اپنے زمانے میں احتساب کے نام پر ایبڈو کا جو قانون بنایا تھا اور اس کا جس طرح سیاسی استعمال کیا تھا، پاکستان کی مختصر تاریخ پر نظر رکھنے والے کیا اس سے بے خبر ہیں؟ ہم نے بہت پہلے یہ تحریر کیا تھا کہ وطنِ عزیز میں دو مثبت نعروں کا ہمیشہ منفی استعمال ہوا ہے جن میں سے ایک کرپشن کے خلاف احتساب کا نعرہ ہے اور دوسرا اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ ہے۔ آمرانہ ذہن رکھنے والوں نے ہر دور میں ان میں سے کسی ایک کا خوب ناروا استعمال کرتے ہوئے جبر کی حکمرانی کو طوالت بخشی ہے ۔

احتساب بہت اچھی تلوار ہے اس کا استعمال خوب کرو لیکن ذرا اپنا دامن بھی دیکھ اور بند ِ قبا بھی دیکھ ۔یہ دنیا عارضی ہے اس میں اتنے اندھے نہ ہو جاؤ کہ شرفاء کی عزتیں اچھالو۔ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا، طاقت کے نشے میں کوئی اتنا زیادہ نہ گر جائے کہ جب برُے حالات آئیں تو ہر کوئی آپ سے منہ پھیر لے۔ نواز شریف کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اسے بولنا نہیں آتا ورنہ وہ بڑے بڑے جلسوں میں دہائیاں دیتا کہ یا اللہ یا رسول نواز شریف بے قصور۔وہ عوام میں ایک بڑا انقلابی لیڈر بن کر ابھرتا مگر اُسے بولنا نہیں آتا۔ اس کی پارٹی میں بھی کوئی ایسا چالباز اور زمانہ ساز نہیں ہے جو مخالفانہ پروپیگنڈے کا بہتر توڑکرنے کی پوزیشن میں ہوتا ۔ رہ گیا آصف علی زرداری اس میں لیڈر شپ والی کوئی ایک بات کم از کم درویش کو کبھی دکھائی نہیں دی ورنہ 2013کے بعد جب جمہوری و غیر جمہوری لوگ جس طرح صف آراء ہو رہے تھے جس شتابی سے جمہوریت پر پے در پے وار ہورہے تھے،سب کو دکھائی دے رہا تھا کہ وطنِ عزیز کی کمزور و ناتواں جمہوریت اتنی بڑی طاقت کے سامنے زیادہ دیر مزاحمت نہیں کر سکے گی۔ اس وقت اگران میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیاسی وژن کی ایک جھلک بھی ہوتی تو اس نوع کا غیر ذمہ دارانہ رویہ قطعاً اختیار نہ کرتے اور نہ ہی ایسی اجازت اپنے بیرسٹر اور کائرہ جیسے ساتھیوں کو دیتے بلکہ جمہوریت پر ایمان رکھنے والی تمام پارٹیوں اور جتھوں کا ایسا مضبوط ایکا بنانے کے لیے پریشان ہوتے جو 2018کے بڑے غیر جمہوری وار کو سہہ جانے کی سکت کا حامل ہوتا لیکن آپ تو اپنی ذات کے خول سے باہر کبھی جھانک ہی نہیں سکےبلکہ بی بی کے جمہوری ورثے کو بھی اپنی کاروباری کمپنی سمجھ رکھا ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ مل کر آپ لوگوں نے خون پسینہ ایک کرنا تھا آپ انہی لوگوں کا کھلے بندوں تمسخر اڑاتے رہے ۔بی بی کی پارٹی اور اس کے آدرشوں کو اس حد تک گرا دیا کہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ جمہوریت کشی میں سیاسی اناڑیوں کا رول زیادہ ہے یا آپ لوگوں کا؟

بلوچستان میں جب شب خون مارا جا رہا تھا اُس کا کریڈٹ تک لینے کی کوشش آپ نے کی۔رضا ربانی صاحب کے حوالے سے اتنی بڑی پیشکش آپ کو ہوئی مگر آپ نے اس کو قہقہوں میں اڑا دیا۔بد زبانی کرنے والے اپنے کسی ساتھی کو آپ نے لگام ڈالنے کی کبھی کوشش تک نہ کی ۔اپنے دیرینہ حلیف حضرت مولانا صاحب کو آپ نے کتنی مرتبہ مایوس لوٹایا۔آج بھی آپ نے غیر ذمہ دارانہ بیان داغا ہے کہ ہم تنہا اس وار کا سامنا کر سکتے ہیں۔ آپ نجانے کس شغل میں آج بھی ایسی غیر سنجیدہ بات کہہ رہے ہیں ۔حضور اب آپ کے پاس وقت نہیں بچا لیکن بی بی کے بیٹے کو یہ سمجھا کر جائیں کہ بولنے سے پہلے تولا کرو اور فارغ اوقات میں اپنی والدہ محترمہ کی ویڈیوز ہی ملاحظہ کر لیا کرو ۔بلاشبہ بلاول میں بڑا پوٹینشل ہے جو مریم بی بی سے کسی طرح کم نہیں ہے لیکن مودی کے یار جیسے نعرے ہانکنے کی بجائے وطنِ عزیز میں جو شطرنج کھیلی جا رہی ہے اور اس میں جمہوری پیادوں کو جس بے دردی سے مارا جا رہا ہے، سنجیدگی سے اس کھیل کے اسرار و رموز کو سمجھ کر اگلی چال چلنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب جب جمہوری قوتوں نے ایکا کرتے ہوئے سنجیدہ جدوجہد کی ہے ،غیر جمہوری طاقتوں کو پسپائی پر مجبور ہونا پڑا ہے ۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ قوم پر یہ ثابت کر سکو کہ رولا ذاتی مفادات کا نہیں ،سویلین بالادستی کا ہے ۔آئین اور جمہوریت کی بقا کا ہے حتمی طور پر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس ملک میں حقِ حکمرانی بائیس کروڑ عوام کے شفافیت سے منتخب کردہ نمائندوں کا ہے یا کسی اور کا؟ کاش اس حقیقت کا ادراک آپ لوگ چار سال قبل کر لیتے۔ رہ گیا کرپشن کا سوال اس پر آپ لوگ اداروں کو مطمئن کریں یا نہ کریں عوام کو ضرور اعتماد میں لیں، چاہے آپ کو تمام مشکوک جائیدادوں سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں۔

اگر پاکستان میں اصل رولا جمہوری و غیر جمہوری اتھارٹی کا ہے تو جمہوری لوگوں پر یہ زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا دامن تمام آلائشوں سے پاک رکھیں تاکہ دوسرے ’’پاکیوں ‘‘کا بہتر اسلوب میں سامنا کر سکیں ۔اگرچہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں لیکن اگر آپ لوگوں کا دامن صاف ہوگا تو عوام کو آلائشوں سے اٹے ہوئے طاقتوروں کو پہچاننے میں کوئی مغالطہ نہیں رہے گا۔ ہمارے میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ حق اور سچ کی آواز بنے۔اگر کسی کمزور کی سفید چادر پر لگے سیاہ دھبے آپ لوگوں کو دکھائی دیتے ہیں تو ڈکیتوں کی سیاہ اوڑھنیوں کو بے نقاب کرنے کا بھی آپ لوگوں میں یارا ہونا چاہئے۔

تازہ ترین