• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ دو ہزار بائیس قبل از مسیح کی ایک خوشگوار صبح تھی۔ میں اور بہلول ایک قافلے ساتھ دھن کوٹ سے لہوار جا رہے تھے۔ ابھی شہر سے نکلے ہوئے ہمیں تھوڑی دیر ہوئی تھی۔ اس وقت دریائے سندھ ہمارے سامنے تھا۔ پہاڑوں کی چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی دریاکی موجوں کے گرم خرام میں نرم روی آ رہی تھی ۔کنارے پر تھرتھراتی ہوئی کشتیاں پرسکون ہوتی جا رہی تھیں۔ ان میں سامان لاد ا جا رہا تھا۔ اونٹ اورگھوڑے بھی کشتیوں پر سوار ہونے تھے۔ دریا پر زندگی جاگ چکی تھی۔ ساحل چہک رہا تھا۔ جہاں ہم کھڑے تھے ہمارے بالکل پیچھے نمک کی کان تھی۔ ہمارے دائیں طرف سرسبز و شاداب کالا باغ کی بستی تھی بائیں طرف بے آب و گیا ہ کوہساروں کا سلسلہ تھا۔ ہمارے سامنے دریا کے اس پار کوریوں کی بستی ”ماڑی “ تھی جہاں کچھ سال پہلے کوریوں اور پانڈوں کے درمیان خوفناک لڑائی ہوئی تھی۔ اتنا خون بہا تھا کہ دریائے سندھ کے پانی کا رنگ بھی سرخ ہو گیا تھا۔ کئی چٹانوں پر ابھی خون کے داغ موجود تھے جہاں ہر جمعرات کو لوگ سرسوں کے تیل کے دئیے جلاتے تھے۔ تھوڑی دیر میں قافلہ کشتیوں میں سما گیا۔ جیسے ہی کشتیاں دریا کے درمیان میں پہنچیں تو پہاڑ پر نشیب سے فراز تک پھیلا ہوا کالا باغ شہر دکھائی دینے لگا۔ آنکھیں ابھی اس منظر سے باہر نہیں نکلی تھیں کہ ہم دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔ قافلہ کشتیوں سے اتر آیا۔ اور ماڑی شہر کو ایک طرف چھوڑ کر آگے بڑھنے لگا۔ اب ہم کئی کوس چل چکے تھے۔ دریا کے پانی سے دوشیزہ رہنے والی زمینیں بہت پیچھے رہ گئی تھیں ۔اس وقت ریت کا لق و دق تھل کا صحرا ہمارے دائیں طرف بہہ رہا تھا اور چچالی کا بے آب و گیاہ پہاڑی سلسلے کی دیوتاؤں کے ہاتھوں سے تراشی ہوئی سربلند دیوار بائیں طرف تھی۔ ابھی سورج دوپہر کے نیزے تک نہیں پہنچا تھاہم آسمان سے ہمکلام ہوتی ہوئی دیوار کے سائے سائے چل رہے تھے ۔ ہم صرف چند لوگ نہیں تھے یہ ایک بڑا تجارتی قافلہ تھا سب تاجروں کے پاس دو طرح کا سامان تھا ،ہر تاجر کے سامان ایک حصہ” نمک“ پر مشتمل تھا۔یہ بڑا قیمتی نمک تھا۔ کالاباغ کی کانوں سے نکلنے والے اس نمک کی شہرت ہڑپہ اور موہنجو داڑو تک پھیلی ہوئی تھی ،اس نمک کو پچاس خچروں پر لادا گیا تھا۔سامان کا دوسرا حصہ سندھو گوزہ گر کے نگار خانے میں بنائے گئے برتنوں اورکچھی کے ترنجنوں میں بنے ہوئے ریشم کے نازک پارچہ جات پرمشتمل تھاکچھی کے جنگلات سے حاصل ہونے والے ریشم کی چمک سونے سے کم نہیں تھی۔ اکثر خریدار یہ سمجھتے تھے کہ یہ سونے کی تاروں سے بنا ہوا کپڑا ہے۔سامان کے اس حصے کو بائیس اونٹوں پر مضبوطی کے ساتھ باندھا گیا تھا ۔
ایک بوڑھا تاجر جو ہمارے قریب چل رہا تھا اس نے بہلول سے پوچھا
” نوجوان تم کیابیچنے جا رہے ہولہوار“
بہلول نے آہستہ سے کہا
”دماغ“
بوڑھے تاجر نے سوچتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا اور کہا
”جانتے ہو دماغ کسے کہتے ہیں “
بہلول نے کہا
”ہاں دماغ دیوتائی عقل کے منبع کو کہتے ہیں جوروح کو سمجھنے کی اہلیت رکھتاہے “
بوڑھا تاجر بولا
”اور روح“
بہلول نے کہا
”روح اس مکمل وحدت کی ایک کرن ہے جو ہر شے کی اصل ہے“
اب بوڑھے تاجر نے محبت بھرے انداز میں بہلول کو دیکھااور بولا
”میری دعاہے کہ تم جس مقصد کے لئے جارہے ہو اس میں عقل کا دیوتا تم پر مہربان رہے تمہاری باتوں سے الہام کی خوشبو آتی ہے الہام جو زندگی کی رہنمائی کیلئے روح ِ ِکل کا سب سے بڑا انعام ہے“
چلتے چلتے اچانل قافلہ رک گیا کسی اونٹ پر بندھی ہوئی پسے ہوئے نمک کی بوری میں سوراخ ہو گیا تھا۔بوڑھا تاجر ہمیں چھوڑ کر اس سمت بھاگا۔میں نے بہلول سے کہا
”بوڑھا تاجر ایسا بھاگا ہے جیسے بوری سے نمک نہیں سونا بہہ رہا ہو“
بہلول نے کہا
”میرے نزدیک تو یہ نمک سونے سے زیادہ اہم ہے۔ تمہیں معلوم ہے جس کان سے یہ نمک نکلتا ہے اس میں کام کرنے والوں کی عمر چالیس سال سے زیادہ نہیں ہوتی
میں نے حیرت سے کہا
”وہ کیوں “
بہلول کہنے لگا
”نمک ہڈیوں کو چاٹ جاتا ہے۔۔۔انسانی زہر کے تریاق ہر بوری،انسانی سانسوں کا اجتماع ہوتی ہے اور سانس سے زیادہ قیمتی شے اس کائنات میں اور کوئی نہیں“
میں نے سوچتے ہوئے کہا
”انسانی زہر کا تریاق۔۔یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی “
بہلول نے مجھے حقارت بھری نظر سے دیکھاجیسے اس واسطہ کسی بہت ہی کند ذہن شخص سے پڑ گیا ہو اور کہنے لگا
”انسان بنیادی طورپر ایک زہریلا جانور ہے۔بہت زیادہ زہریلا جانور۔۔وہ انسان جو نمک نہیں کھاتے وہ اتنے زیادہ زہریلے ہوتے ہیں کہ غلطی سے انہیں کبھی اڑنے والا کوبراکاٹ لے توخود مرجاتا ہے۔“
مجھے پھر حیرت سے پوچھنا پڑ گیا“
”میں سانپوں کے متعلق بہت کچھ جانتا ہوں مگرکوبروں کی کوئی ایسی نسل میری نظر سے نہیں گزری جو اڑ بھی سکتی ہو“
بہلول نے ہنس کرکہا
”اڑنے والے کوبرے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے پر ہوتے ہیں ۔ یہ کوبرے دراصل بہت لمبی چھلانگ لگانے پر قادر ہوتے ہیں اسی چھلانگ کے دوران ڈس بھی لیتے ہیں ۔یہ دنیا کا سب سے زہریلا سانپ ہوتا ہے“
میں بحث کرتے ہوئے کہا
”مجھے اس نسل کا پتہ ہے مگر یہ کوبرے نہیں ہوتے“
بہلول میری بحث سے اکتا کر بولا
” اچھا بھائی یہ کوبرے نہیں ہوتے ہونگے ۔ مجھے تمہاری یارو سنیاسی سے کرانی پڑے گی اس کے مخبوں میں کئی ایسے کوبرے موجود ہیں اور خود یارو سنیاسی کوبرے سے زیادہ زہرہلا ہے“
میں نے پوچھا
”کیا اس نے ساری زندگی نمک نہیں کھایا“
بہلول کہنے لگا
”اس کا تعلق حکمرانوں کے قبیلے سے ہے اس میں نمک کے استعمال کا ابھی تک رواج شروع نہیں ہوا۔“
میری آنکھ کھل گئی میں دوہزار بارہ میں واپس آگیا اوربستر پر بیٹھ کر سوچنے لگاکہ کیا سیاست دانوں اورحکمرانوں کے قبیلے میں ابھی تک نمک کا استعمال شروع نہیں ہوا۔
تازہ ترین