• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
موت سب کو مارتی ہے لیکن شہید موت کو مار دیتا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہتا ہے۔ شہید کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اپنی شہادت کے بعد وہ دنیا میں شجاعت و بہادری کی مثال بن جاتا ہے اور لوگ اس کا نام ہمیشہ احترام سے لیتے ہیں۔22دسمبر کو ہم لاہور میں ایک ایسے ہی شہید کی یاد منارہے تھے جسے چالیس سال پہلے جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی پاداش میں گولی ماردی گئی تھی۔ اس شہید کا نام خواجہ محمد رفیق تھا جن کا نام چالیس سال گزرنے کے باوجود لاہور کی فضاؤں میں آج بھی گونجتاہے۔ ان کی جرأت و بہادری کو سلام پیش کرنے والوں میں ان کے فرزند خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کے علاوہ جناب نواز شریف، جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ، عاصمہ جہانگیر اور بلوچ رہنما اختر مینگل بھی شامل تھے۔ الحمراء ہال لاہور کے بڑے ہال میں موجود ہزاروں خواتین و حضرات نے بیرون ملک سے ٹیلی فون پر اختر مینگل کے شکوے شکایتیں بڑے غور سے سنے۔ خواجہ محمد رفیق شہید کی یاد میں منعقد کئے گئے اس عظیم اجتماع میں مقررین بار بار اس خدشے کا اظہار کررہے تھے کہ آئندہ انتخابات کو ملتوی کرانے کے لئے سازشیں شروع ہوچکی ہیں۔ سٹیج پر میرے دائیں بائیں اور پیچھے بیٹھے ہوئے کئی مہمان سرگوشیوں میں ان خدشات کا اظہار کررہے تھے کہ انتخابات سے قبل کسی اہم سیاسی شخصیت پر حملہ کرایا جاسکتا ہے۔ اس اجتماع میں خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے بڑے اعتماد سے کہا کہ تمام تر سازشوں کے باوجود انتخابات ملتوی نہیں ہونگے لیکن کون جانتا تھا کہ اس اجتماع کے سٹیج پر جن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا وہ صرف چند گھنٹوں میں حقیقت بن جائیں گے۔ شہید جمہوریت خواجہ محمد رفیق کی برسی میں شرکت کے بعد میں واپس اسلام آباد کو روانہ ہوا تو فون پر اطلاع ملی کہ خیبر پختونخوا حکومت کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور کے پشاور میں ایک جلسے پر خود کش حملہ ہوا جس میں وہ اپنے کئی ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت کی خبر سنتے ہی میں سوچنے لگا کہ اب تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان اس حملے کی ذمہ داری قبول کرے گا اور مسلمانوں کے دشمن خوش ہوجائیں گے کہ ایک اللہ ،ایک قرآن اور ایک نبی کو ماننے والے آپس میں قتل و غارت کررہے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور اس خودکش حملہ آور کے بارے میں سوچنے لگا جسے بشیر احمد بلور کو خاموش کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ کیا وہ حملہ آور جانتا تھا کہ بشیر احمد بلور پانچ وقت کے نمازی تھے؟ ہر صبح گھر سے نکلتے وقت قرآن پاک کو چومتے تھے؟ کیا حملہ آور جانتا تھا کہ بشیر احمد بلور نے بھی ہمیشہ امریکی ڈرون حملوں میں بے گناہ عورتوں اور بچوں کی ہلاکتوں کی مذمت کی تھی؟ کیا وہ جانتا تھا کہ اس کے حملے میں بھی کئی بے گناہ مارے جائیں گے؟ کیا وہ جانتا تھا کہ قرآن پاک کی سورة النساء میں یہ کہا گیا ہے کہ” اور جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور غضب ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے عذاب عظیم تیار کررکھا ہے“کیا حملہ آور جانتا تھا کہ اس میں اور امریکہ کے ڈرون طیاروں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں مسلمانوں کو مارتے ہیں اور دونوں بے گناہوں کو مارتے ہیں؟
میری آنکھوں کے سامنے بشیر احمد بلور کا ہنستا مسکراتا چہرہ جگمگانے لگا۔ مجھے ان کے ساتھ پشاور کی سڑکوں پر امن مارچ یاد آرہا تھا۔ دو سال قبل پشاور میں شدید خوف و ہراس تھا ہم نے بشیر احمد بلور، میاں افتخار حسین، اقبال ظفر جھگڑا، مفتی کفایت اللہ اور نبیل گبول کے ہمراہ امن مارچ کیا۔ مجھے ان کا دسترخوان یاد آرہا تھا جس میں نمک منڈی کی نمکین چیزوں کی لذت کو بشیر احمد بلور کی شیریں بیانی مزید دوبالا کردیتی تھی۔ مجھے ان کی آخری گفتگو یاد آرہی تھی۔ وہ موت کے خوف سے کوسوں دور تھے اور ببانگ دہل اعلان کررہے تھے کہ پولیو کے خلاف مہم میں شامل عورتوں پر حملے کرنے والوں کے خلاف لڑائی سے وہ کبھی نہیں بھاگیں گے۔ بشیر احمد بلور کو اسفند یار ولی نے کئی مرتبہ سمجھایا کہ تھوڑی احتیاط کیاکرو اور سڑکوں پر کھڑے ہو کر دشمن کو نہ للکارا کرو۔ بشیر احمد بلور ہمیشہ یہ جواب دیتے کہ جو رات قبر میں آنی ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ پلنگ پر بیماری کے ہاتھوں مرنے سے بہتر ہے کہ سڑک پر دشمن کے ہاتھوں شہید ہوجاؤں۔ ایک دن پشاور میں اپنے گھر میں بشیر احمد بلور نے مجھے تفصیل کے ساتھ اپنے خلاف کئے گئے تین حملوں کی تفصیل بتائی۔ انہوں نے کہا کہ تیسری مرتبہ خود کش حملہ آور نے چند فٹ کے فاصلے سے نعرہ تکبیر بلند کیا اور اپنی بارودی جیکٹ کا بٹن دبایا تو دھماکہ نہ ہوسکا پھر اس نے دستی بم کی پن نکالی لیکن میرے محافظ اس کی طرف بھاگے تو وہ بھی بھاگ کھڑا ہوا اور کچھ دیر کے بعد وہ مارا گیا۔ بلور صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے چند لمحوں کے لئے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اندازہ لگالیا کہ وہ کتنا بہادر ہے جب وہ میرے سامنے کھڑا خود کو اڑانے کی کوشش میں مصروف تھا تو میں بالکل مطمئن کھڑا تھا اور اس وقت مجھے یقین ہوگیا کہ میں حق پر ہوں۔ بشیر احمد بلور کے قتل کے منصوبہ بندی کرنے والے تو یہ کہیں گے کہ وہ امریکی ایجنٹ تھا ،سیکولر پارٹی کا لیڈر تھا اور اس کا قتل بالکل جائز تھا لیکن سوال یہ ہے کہ مولانا حسن جان اور مفتی ڈاکٹر سرفراز نعیمی تو سیکولر نہیں تھے پھر تحریک طالبان پاکستان نے ان دونوں علمائے دین کو کیوں شہید کیا؟ مفتی ڈاکٹر سرفراز نعیمی اس خطے میں امریکی پالیسیوں کے بہت بڑے ناقد تھے اور انہوں نے ایک امریکی سفارت کار کی طرف سے اپنے دینی مدرسے کے لئے امداد کی پیشکش بھی ٹھکرا دی تھی پھر ان کے مدرسے میں خود کش حملہ آور بھیج کر کس کی خدمت کی گئی؟ اسلام یا امریکی حکمرانوں کی؟

دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے استاد مولانا یوسف شاہ کی گاڑی میں بم کیوں نصب کیا گیا؟ کیا محض اس لئے کہ انہوں نے اسلام کے نام پر گاڑیاں چوری کرنے اور بنک ڈکیتیوں سے منع کیا تھا؟ مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد پر خود کش حملے کیوں کئے گئے ؟ کیا یہ دونوں مسلمان نہیں؟ اگر یہ دونوں مسلمان ہیں تو پھر اسلام میں مسلمان پر حملہ کہاں جائز ہے؟ کیسی عجیب بات ہے کہ افغان طالبان فرانس کے شہر پیرس میں شمالی اتحاد کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں ا ور امریکیوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں لیکن تحریک طالبان پاکستان نے بشیر احمدبلور کو امریکہ کا حامی قرار دے کر شہید کردیا۔ سمجھ نہیں آتی کہ بشیر احمد بلور کو امریکہ کا حامی قرار دیتے ہو لیکن جنوبی وزیرستان کا طالبان کمانڈر مولوی نذیر تو امریکہ کا مخالف ہے اس پر خود کش حملہ کیوں کیا؟ صاف نظر آتا ہے کہ ان حملوں کا مقصد ناں تو خطے سے امریکہ کو نکالنا ہے ناں ہی پاکستا ن میں اسلام کا نفاذ ہے بلکہ ان حملوں کے ذریعہ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کئے جارہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں اسلام کے مکمل نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دینی جماعتوں کے باہمی اختلافات ہیں لیکن کیا تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروپ آپس میں اختلافات کا شکارنہیں؟ کیا یہ گروپ ایک دوسرے پر حملے نہیں کررہے ہیں؟ کیا یہ گروپ ایک دوسرے پر امریکہ اور بلیک واٹر کے لئے کام کرنے کا الزام نہیں لگاتے؟ کیا ان میں سے کئی گروپوں کا حکومتی اداروں اور ان کے اہلکاروں سے رابطہ نہیں؟ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میرے سامنے ایک اہم حکومتی شخصیت نے اعتراف کیا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کا فون پر اسلام آباد میں کئی سرکاری اہلکاروں سے رابطہ ہے۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ یہ ترجمان صاحب پشاور کے ایک مدرسے میں بیٹھ کر سی این این کو کیمرے پر انٹرویو دیتا ہے اور کوئی اس کو پکڑ نہیں سکتا۔ بشیر احمد بلور کی شہادت نے دراصل ہمارے خفیہ اداروں کی نااہلی کے چاک پردے کو مزیدچاک کردیا ہے۔ یہ ادارے صحافیوں اور سیاستدانوں کے ساتھ ہر قسم کی بدمعاشی کرلیتے ہیں لیکن جو اصل بدمعاش ہیں ان کے خلاف کارروائی سے گھبراتے ہیں۔ بشیر احمد بلو ر کی شہادت ایک بڑے اختتام کا آغاز ہے۔ پاکستانی قوم کو اپنے دشمنوں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔ جہاد کرنے والے موت کے خوف سے اپنا شہر چھوڑ کر نہیں بھاگتے بلکہ موت کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔ کچھ دانا اور عقل مند لوگ موت کے سامنے کھڑے ہوجانے والوں کو پاگل اور جذباتی قرار دیتی ہے لیکن شہادت کا رتبہ ایسے پاگل ا ور جذباتی لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔ شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ بشیر احمد بلور کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا لیکن ان پر حملہ کرنے والے گمراہ شخص کو صرف ایک خود کش حملہ آور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
تازہ ترین