• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


 سیاسی، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے ایک ہنگامہ خیز سال ٭ سابق وزیراعظم اور اہلِ خانہ کی گرفتاری،رہائی، پیشیاں مسلسل موضوعِ گفتگو رہیں٭ نئے  وزیر اعلیٰ کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی رہی ٭ ’’کرتار پور راہ داری‘‘ کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی

گزرے برسوں کی طرح سال 2018ء بھی صوبہ پنجاب کے لیے سیاسی، سماجی اور اقتصادی طور پر خاصا ہنگامہ خیز رہا اور اسی لیے نہ صرف ملکی، بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی اس کو شہ سرخیوں میں جگہ ملی۔ چاہے 2018ء کے عام انتخابات ہوں یا 56کمپنیز کے قیام کے متنازع منصوبے، کم سِن زینب کے قاتل کو تختۂ دار پر لٹکانے کا فیصلہ ہو یا عمران خان کی حکومت کے ابتدائی 100دن، سابق وزیر اعظم نواز شریف کا بیٹی اور داماد کے ساتھ وطن واپس آکر گرفتاری پیش کرنا ہو یا کلثوم نواز کی رحلت، نواز شریف، مریم نواز کی رہائی یا پھر نواز شریف یا سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی نیب عدالتوں میں پیشیاں۔ ان تمام معاملات میں ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب، ملکی سیاست کے لیے ایک مرکز ہونے کی حیثیت سے سنسنی خیز خبروں کا محور بنا رہا۔ پھر2018ء کے عام انتخابات نے بھی سیاسی بساط پلٹ کر رکھ دی۔ ایک طویل عرصے تک تختِ لاہور پر حکمرانی کرنے والے میاں محمد نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کو اہلیانِ پنجاب نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھا۔ اگست 2018ء میں پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا، مگر انتخابات سے پہلے، نگراں حکومت کے دور میں اور حکومت کے ابتدائی ایک سو ایّام میں بھی مجموعی طور پر مُلکی حالات وواقعات کے تناظر میں جو صوبہ سب سے زیادہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر سب سے زیادہ چھایا رہا، وہ پنجاب تھا۔ پنجاب کے عوام شہباز شریف کی شکل میں ایک متحرک، ڈائس پر مائیکس گرانے، تقاریر میں گھن گرج کے ساتھ اشعار پڑھنے اور بیوروکریسی کو چین کی نیند نہ سونے دینے والے وزیر اعلیٰ کے عادی ہوچکے تھے، لیکن جب وزیر اعظم، عمران خان نے عوام اور خود ان کے پارٹی لیڈرز کی توقعات کے برعکس، ایک بہ ظاہر دھیمے مزاج کے حامل، معصوم، خاموش طبع، غیرمعروف اور ڈیرہ غازی خان جیسے نسبتاً پس ماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی میں بھی نووارد، عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب نام زَد کیا تو جیسے بحث مباحثے کا ایک نیا باب کُھل گیا۔ مخالفین نے انہیں سیاسی بصیرت اور ایک ایکٹو لیڈر کی خصوصیات سے عاری قرار دے دیا، جب کہ عمران خان بضد رہے کہ ان کا انتخاب بالآخر بہترین ثابت ہوگا۔ بہرکیف،2018ء کا سورج کے غروب ہونے تک عثمان بزدار اپنی شخصیت اور کارکردگی کا کوئی دیرپا اثر چھوڑنے میں کام یاب نظر نہیں آئے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ عثمان بزدار کے پسِ پردہ کوئی اور حکمرانی کررہا ہے۔ تاہم، پنجاب کے عوام اپنے متعدد مسائل کے حل کے حوالے سے ہنوز کسی’’مردِ آہن‘‘ کے انتظار میں ہیں۔ سیاسی جوڑ توڑ اور حالات و واقعات کے نشیب و فراز کے دنوں میں 29نومبر 2018ء کا دن اس حوالے سے بے حد اہمیت کا حامل رہا کہ اُس روز وزیراعظم پاکستان، عمران خان نے نارووال اور شکر گڑھ کے درمیان دریائے راوی کے نزدیک واقع ’’کرتار پور راہ داری‘‘ کا افتتاح کیا، جس کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی۔

سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب کے دَور میں شروع کیے گئے دو بڑے منصوبوں میں سے میٹرو بس کا منصوبہ تو بخیر و خوبی مکمل ہوا، تاہم اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ اُس وقت اختتامی مراحل میں تھا، جب پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت نے برسرِاقتدار آکر اس کی تکمیل کے حوالے سے تحفّظات کا اظہار کردیا۔جس کے بعد سے تاحال منصوبہ تکمیل کی راہ دیکھ رہا ہے اور اہلیانِ لاہور آج بھی اس ادھورے منصوبے کے باعث بننے والے گڑھوں، ہر وقت اُڑنے والی مٹّی، گردوغبار اور مارکیٹوں تک رسائی میں آمد ورفت کی سنگین مشکلات سے دوچار ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے مطابق اورنج لائن ٹرین پراجیکٹ کی لاگت میں 15ارب کا اضافہ ہوا ہے اور اب اس کے لیے ایک ترمیمی منصوبہ بنایا گیا ہے، لہٰذا لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے منصوبے کی تکمیل کے لیے جولائی 2019ء تک کی مہلت مانگی ہے۔ علاوہ ازیں، اسی طرح کے اور بھی کئی ایسے منصوبے ہیں، جن کی قیمت پنجاب کے عوام کو صحت اور آمد ورفت کے سنگین مسائل کی صورت ادا کرنی پڑرہی ہے۔ شہباز شریف نے مختلف محکموں سے متعلق اربوں روپے کی لاگت سے جو56کمپنیز بنائی تھیں، 2018ء میں ان کا شیرازہ بکھر گیا۔ لاکھوں کی تن خواہیں وصول کرنے والے کئی بیوروکریٹس جیل بھیج دیئے گئے۔ کئی نے وصول شدہ بھاری بھرکم تن خواہیں واپس کرنے پر آمادگی ظاہر کردی، جب کہ متعدد بیورو کریٹس اب تک مقدمات بھگت رہے ہیں۔ اس حوالے سے پنجاب، بالخصوص اہلیانِ لاہور یہ پوچھنے میں حق بہ جانب ہیں کہ اس سارے چکّر میں انہیں کیا حاصل ہوا۔ لاہور کے عوام کو صاف پانی مہیّا کرنے کے لیے جو کمپنی بنائی گئی، اس کے منتظمین کرپشن میں پکڑے گئے، جب کہ عوام ہنوز گندے پانی کے استعمال سے ڈائریا، ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس اور جگر، معدے کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ تاہم، اس دوران ایک اچھی خبر یہ سننے کو ملی کہ حکومتِ پنجاب نے ’’رِنگ روڈ2 پراجیکٹ‘‘ کی تعمیر کے لیے گرین سگنل دے دیا، جس پر 40ارب روپے کی لاگت آئے گی۔ واضح رہے کہ مذکورہ پراجیکٹ کی تعمیر سے لاہور اور قصور، شیخوپورہ باہم منسلک ہوجائیں گے۔

’’گڈ گورننس‘‘ کے حوالے سے بھی پنجاب کے عوام پورے سال غیر یقینی کیفیت سے دوچار رہے۔ سال کے ابتدائی تین، چار ماہ نگران حکومت کے دور میں بے یقینی کی فضا چھائی رہی، حتیٰ کہ ملک میں عام انتخابات منعقد ہونے تک سارا سرکاری کام ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ بیوروکریسی اس مخمصے میں گرفتار تھی کہ نیا حاکم کون آتا ہے اور انہیں کس کا ساتھ دینا چاہیے، حالات کے پیشِ نظر سیکڑوں کی تعداد میں بیورو کریٹس نے طویل رخصت لینے ہی میں عافیت سمجھی۔ جس کے نتیجے میں سرکاری سطح پر عوامی مسائل بری طرح نظر انداز ہوئے۔ یوں مجموعی طور پر 2018ء عوام کو سہولتوں کی عدم فراہمی کے حوالے سے بدترین سال رہا۔ پھر پی ٹی آئی حکومت اپنے قیام کے ساتھ ہی مہنگائی کا سونامی بھی لے کر آئی، جس سے عوام شدید متاثر ہوئے۔ گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے کاروباری طبقے کو کھلی چھوٹ مل گئی۔ عوام جو کسی مثبت تبدیلی اور کچھ ریلیف کے منتظر تھے، انہیں گویا 440وولٹ کا ایک ایسا جھٹکا لگا کہ جس سے وہ اب تک سنبھل نہیں سکے۔ تاہم، 2018ء کے آخر تک پنجاب کی حکومت عوام کو مسلسل یہ باور کروانے میں مصروف رہی کہ حالات جلد بہتر ہوجائیں گے، لیکن عمران خان کے مسلسل اور پے درپے ’’یوٹرنز‘‘ کے باعث عوام اس بیان پر بھی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ بہرحال، کچھ اچھے کام بھی دیکھنے میں آئے، جن میں سے ایک، ملکی تاریخ میں پہلی بار ایوننگ فیملی کورٹس کا (2بجے سے 6بجے تک) قیام ہے۔ ان کا افتتاح چیف جسٹس، لاہور ہائی کورٹ نے کیا۔ اس وقت عدالتوں میں عائلی تنازعات اور طلاقوں کے نتیجے میں علیٰحدہ ہوجانے والے جوڑوں کے بچّوں کی والدین سے ملاقات کے سیکڑوں مقدمات زیرِ التوا ہیں۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح ان مقدمات کو نمٹانے میں تیزی آئے گی۔ دوسری جانب، والد یا والدہ کی تحویل میں موجود بچّے اپنے والدین سے شام کے اوقات میں اچھے اور پُرسکون ماحول میں ملاقات کرسکیں گے، البتہ فیملی کورٹس کے حوالے سے سامنے والی ایک رپورٹ خاصی تشویش ناک ہے کہ پنجاب میں گزشتہ سال طلاق اور خلع کے واقعات میں 69فی صد اضافہ ہوا اور صرف پنجاب میں علیحدگی اختیار کرنے والے جوڑوں کی تعداد میں سالانہ 9فی صد اضافہ ہورہا ہے۔

سماجی اور معاشی معاملات کی بات کی جائے، تو 2018ء اس اعتبار سے بھی کچھ زیادہ خوش گوار نہیں رہا۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر اضلاع کے عوام گزشتہ کئی برسوں کی طرح 2018ء میں بھی آمدو رفت کے مسائل اور ٹریفک جام کے اذیّت سے بری طرح دوچار رہے۔ متعدد اضلاع کے بے ہنگم ٹریفک نے عوام کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی۔ اگرچہ لاہور میں موٹر سائیکل سواروں کے لیے ہیلمٹ پہننے کی پابندی، ای چالان اور اسی قسم کے دیگر نمائشی اقدامات دیکھنے میں آئے۔ تاہم، شہر میں بےہنگم ٹریفک کنٹرول کرنے کی کوئی بڑی کوشش کام یاب ہوتی نظر نہ آئی۔ اس کی شاید ایک وجہ کاروں اور موٹر سائیکلز کی تعداد میں ہوش رُبا اضافہ بھی ہے۔ لاہور میں صرف 2018ء میں ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں رجسٹر کی گئیں، جب کہ 15برسوں میں موٹرسائیکلز کی تعداد میں 500 اور کاروں کی تعداد میں 300 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ گاڑیوں کی یہ بڑھتی ہوئی تعداد ماحول کی خطرناک آلودگی کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ پنجاب میں نومبر کے آغاز ہی سے اسموگ کاراج رہا اور بڑی تعداد میں لوگ سانس، گلے اور دیگر امراض کا شکار ہوتے رہے۔ اینٹوں کے بھٹوں کی بندش اور فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی بھی اس مسئلے کی سنگینی کو کم نہ کرسکی۔

پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے حوالے سے حکومتی کارکردگی مایوس کن رہی۔ کوئی قانون پاس ہوا، نہ پرائیویٹ بل آیا۔ 200سے زائد قراردادوں میں سے صرف چند ہی پاس ہوسکیں۔ جب کہ پولیس ریفارمز کا وعدہ بھی وعدے ہی تک محدود رہا۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا دعویٰ بھی محض دعویٰ ہی رہا۔ تاہم، اس حوالے سے ایک ایگزیکٹو کائونسل ضروربنادی گئی، جس کا صرف ایک اجلاس ہوسکا۔ اسی طرح لوکل گورنمنٹ کا نیا نظام لانے کا بھی بہت شور تھا۔ اس سلسلے میں ایک قانون تیار کیا گیا، لیکن اسے کابینہ کے سامنے لایا گیا، نہ اسمبلی میں پیش کیا جاسکا۔ عوام 2018ء میں صحت اور تعلیم کے شعبے میں بھی انقلابی تبدیلیوں کے منتظر رہے۔ تاہم، ابھی تک بات خوش کن بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ 2018ء میں جس زرعی ایمرجینسی کا اعلان کیا گیا تھا، وہ حقیقت کا روپ نہ دھار سکی اور صوبے کے زمین دار اور کسان انقلابی تبدیلیوں ہی کے منتظر رہے۔ اسی طرح کی مایوس کن صورت حال سے وہ والدین اور طلبہ بھی دوچار رہے، جو یکساں تعلیمی نظام کے نعروں کو عملی شکل میں ڈھلتا دیکھنا چاہتے تھے۔ 50لاکھ گھروں کے حوالے سے بھی پنجاب کے عوام کسی اچھی، نتیجہ خیز اور امید افزا خبر کے منتظر ہی رہے اور 2018ء کا سورج بے گھر افراد کی امیدوں اور تمنّائوں کے ساتھ ہی غروب ہوگیا کہ ہمارے یہاں اکثر منصوبے، صرف نعروں کی حد تک ہی محدود رہتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب حکومت کے درجنوں تعلیمی، طبّی اور سماجی منصوبے ’’ڈرائنگ بورڈ‘‘ پر ضرور موجود ہیں۔ تاہم، انہیں عملی شکل دینے میں کافی وقت لگے گا۔ 2018ء میں اگرچہ عمران خان پنجاب کے وزراء کی کابینہ کے اجلاس کی ازخود صدارت کرتے رہے، لیکن عملاً کچھ ہوتا نظر نہیں آیا۔ صوبائی وزیر تعلیم نے ’’دانش اسکول اتھارٹی‘‘ ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور نجی اسکولوں کے چیک اینڈ بیلنس کے لیے ایک ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کا اعلان کیا۔ بچّوں کو لازماً اسکول بھیجنے کے لیے قانون سازی بھی زیرِغور ہے۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کی دو یونیورسٹیز سمیت پنجاب کے 19اضلاع میں ہیلتھ انشورنس اسکیم کے اجراء کی منظوری بھی دی گئی۔ نجی کلینکس کے معاملات جانچنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا اور سرکاری اسپتالوں میں ادویہ کی 100فی صد فراہمی کو یقینی بنانے کے اقدامات بھی زیر غور آئے۔ گورنر ہائوس کے دروازے عوام کے لیے کھولے گئے اور 3دسمبر کو گورنر ہائوس کی دیواریں بھی گرانا شروع کی گئیں، لیکن پھر عدالت کے حکم پر یہ کام روک دیا گیا۔

پنجاب جتنا بڑا صوبہ ہے، عوام کی توقعات بھی اتنی ہی زیادہ ہیں۔ صرف لاہور کی آبادی میں اس قدر ہوش رُبا اضافہ ہوا کہ مزید 4تحصیلیں بنانی پڑیں، جس کے بعد لاہور کی کل تحصیلوں کی تعداد 9ہوگئی۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، لاہور 4لاکھ 31ہزار ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے، جہاں تک پنجاب میں امن و امان کی صورتِ حال کا تعلق ہے، تو 2018ء میں جرائم کے حوالے سے اضافہ ہی دیکھنے میں آیا، شہری کروڑوں کے مال اسباب سے محروم ہوتے رہے۔ جب کہ ’’لاہور ڈولفن فورس‘‘ کے موٹر سائیکل سوار پورے شہر کی کی سڑکوں پر محض پیٹرول ہی پھونکتے نظر آئے، ان کی کارکردگی پر کئی برسوں سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جرائم کے اعتبار سے ضلع قصور، پوری دنیا میں خبروں کا موضوع بنارہا، جہاں برسوں سے بچّوں کو جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ زینب کے قاتل، عمران کی پھانسی کے باوجود، جرائم کی وارداتیں کم نہ ہوسکیں، حتیٰ کہ ایک ہفتہ ایسا بھی گزرا کہ جب بچّوں سے زیادتی کے 10واقعات رونما ہوئے۔ 2018ء میں زمینوں اور اراضی پر قبضہ کرنے والے مافیا کے ایک سرکردہ رکن، منشا بم کی گرفتاری بھی زیرِبحث رہی، لیکن حکومت کے اس دعوے کے باوجود کہ پنجاب میں 88ہزار ایکڑ اراضی، قبضہ مافیا سے چھڑالی گئی۔ اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل تلاش نہیں کیا جاسکا۔ اسی طرح ناجائز تجاوزات کے خلاف چلنے والی دھواں دار مہم بھی چند ہفتوں بعد سست روی کا شکار ہوگئی۔ عمران خان نے لاہور میں مسافر خانوں کی تعمیر کے پراجیکٹ کا افتتاح کیا اور فٹ پاتھ پر سونے والے بے گھر افراد کے لیے شیلٹر ہومز بھی خیموں کی شکل میں بنائے گئے۔ نئے بلدیاتی نظام کے ڈھانچے کے بارے میں بھی بلند وبانگ دعوے کیے گئے۔ تاہم، 2018ء کے اواخر میں شروع کیے گئے، تمام مجوّزہ فیصلے اور منصوبے تاحال ابتدائی مراحل میں ہیں اوراب سال 2019ء ہی یہ بتائے گا کہ آیا عوام کی قسمت میں کوئی تبدیلی آئے گی یا پہلے کی طرح دھند کی چادر ہی تَنی رہے گی۔

تازہ ترین