• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عبدالقیوم صدیقی، اسلام آباد

  19 ہزار مقدمات کے فیصلے، 20 ہزار نئے کیسز داخل ہوئے، 39 ہزار ہنوز زیرِ التوا ہیں٭چیف جسٹس نے 37 اَز خود نوٹسز لیے ٭ڈیمز کی تعمیر کے لیے خصوصی فنڈ قائم کیا، تو بڑھتی آبادی کا معاملہ بھی اُٹھایا

مُلک کی اعلیٰ ترین عدالت، سپریم کورٹ آف پاکستان 2018ء میں ہر ایک کی توجّہ کا مرکز رہی۔ سالِ رفتہ کو’’ ہنگامہ خیز عدالتی فعالیت‘‘ کا سال کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔ تعلیم، صحت، آبادی میں اضافے، پانی، ماحولیات، گڈ گورنینس، ارکانِ پارلیمنٹ کی اہلیت، جعلی بینک اکاؤنٹس، بیرونِ مُلک پاکستانیوں کی جائیدادوں اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق جیسے فیصلوں سمیت احتساب کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ نے متعدّد اہم فیصلے دیے۔ عدالتی فعالیت کے سبب، سابق حکومت کی طرح، موجودہ حکومت کے وزراء بھی عدل کے ایوانوں میں طلب کیے جاتے رہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس ثاقب نثار نے 2018ء میں بھی بنیادی حقوق کے تحفّظ کے لیے 37کے قریب ازخود نوٹسز لیے۔ مذہبی اور تاریخی وَرثے،’’ کٹاس راج تالاب‘‘ میں پانی کی کمی پر اَزخود نوٹس لیا، تو پتا چلا کہ سیمنٹ فیکٹریز کے باعث زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک کم ہو چُکی ہے، جسے عدالت نے ریگولرائز کرنے کا حکم دیا۔ اسی مقدمے میں سابق چئیرمین متروکہ وقف املاک، صدیق الفاروق کی تقرّری بھی غیر قانونی قرار پائی۔ سپریم کورٹ نے توہینِ رسالتؐ کے ایک مقدمے میں آسیہ مسیح نامی خاتون کی اپیل منظور کرتے ہوئے ماتحت عدالتوں کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیا، جس پر مذہبی حلقوں کی طرف سے تنقید کی گئی، لیکن عالمی سطح پر اس فیصلے کو بہت سراہا گیا، یہاں تک کہ برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز میں چیف جسٹس، ثاقب نثار کا نام لے کر اُن کے حق میں قرار داد منظور کی گئی۔2018ء کا ایک اہم فیصلہ، آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت کسی منتخب رُکن کی نااہلیت سے متعلق تھا۔سوال یہ تھا کہ کیا مذکورہ دفعہ کے تحت اسمبلی رُکنیت سے نااہل قرار پانے والا رُکن، تاحیات نااہل رہے گا؟ یہ مقدمہ اور قانونی سوال اس لیے بھی بہت اہمیت کا حامل تھا کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی لارجر بینچ نے سابق وزیرِ اعظم، میاں محمّد نواز شریف کو’’ کیپیٹل ایف زیڈ ای‘‘ کے چئیرمین کے طور پر وصول نہ کی گئی تن خواہ ظاہر نہ کرنے پر 62ون۔ ایف کے تحت قومی اسمبلی کی رُکنیت سے نااہل قرار دیا تھا۔ تاہم، نااہلی کی مدّت کے حوالے سے یہ فیصلہ خاموش تھا۔ سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی لارجر بینچ نے مختلف نااہل قرار دیے گئے ارکانِ اسمبلی کی درخواستوں کی مسلسل کئی دن سماعت کی اور قرار دیا کہ نااہلی تاحیات ہو گی اور 62وَن۔ ایف کے تحت نااہل قرار پانے والا رُکنِ پارلیمان، انتخابی سیاست اور کسی بھی عوامی عُہدے کے لیے نااہل ہو گا۔ بعدازاں، پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ 2017ء منظور کیا، جس کے تحت سپریم کورٹ سے نااہلی کے باوجود، نواز شریف مسلم لیگ نون کے صدر یا پارٹی سربراہ کا عُہدہ رکھ سکتے تھے۔ شیخ رشید احمد، پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف سمیت متعدّد دیگر درخواست گزاروں کی طرف سے اس قانون کو چیلنج کیا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے درخواستیں منظور کرتے ہوئے قرار دیا کہ ایسا شخص جو کہ آئین کے آرٹیکل 62وَن۔ ایف کے تحت نااہل قرار دیا جا چُکا ہو، پارٹی عُہدہ نہیں رکھ سکتا۔نیز، نواز شریف نے نااہلی کے بعد بہ طور پارٹی سربراہ جو بھی اقدامات کیے، اُن کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔ اسی فیصلے میں نواز شریف کے دست خط سے سینیٹ کے لیے نام زَد پارٹی امیدواروں کے ٹکٹس بھی کالعدم قرار دئیے گئے۔

سابق وزیرِ اعظم، نواز شریف، اُن کی بیٹی، مریم نواز، بیٹے حسین نواز اور حسن نواز اور میاں صاحب کے داماد، کیپٹن(ر) صفدر پر پاناما فیصلے کے بعد جو ریفرنسز داخل کیے گئے تھے، اُن میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم اور کیپٹن(ر) صفدر کو 8سے10 سال قید، جب کہ نواز شریف کو 80لاکھ برطانوی پاؤنڈز، مریم کو 20لاکھ برطانوی پاؤنڈز جرمانے کی سزائیں بھی سُنائیں۔ تاہم، احتساب عدالت کے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس گل حسن اورنگ زیب نے 19ستمبر کو معطّل کر دیا۔ سزاؤں کی معطّلی کے فیصلے کو نیب نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ عدالت نے نیب کی اپیل سماعت کے لیے منظور کرلی اور سترہ قانونی سوالات ترتیب دیتے ہوئے لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ دیا اور 12دسمبر کو سماعت کی تاریخ مقرّر کی، لیکن سال کے آخر تک مقدمہ سماعت کے لیے مقرّر نہیں ہو سکا۔13دسمبر کو پاکپتن مزار اراضی کیس میں سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر سابق وزیرِ اعظم، نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے۔ جنوری میں سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل تین رُکنی بینچ نے شریف خاندان کے خلاف ایک ارب، 20کروڑ روپے کی مَنی لانڈرنگ کے الزامات پر مشتمل 18سال پرانے حدیبیہ پیپرز مِل ریفرنس کو دوبارہ کھولنے کے لیے نیب درخواست مسترد کر دی۔ بعد ازاں، 30اکتوبر کو نیب کی نظرِثانی درخواست بھی خارج کر دی گئی۔ فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت 2018ء میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل بینچ نے جاری رکھی، تاہم نومبر میں اس مقدمے کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا گیا، جو تادمِ تحریر جاری نہیں کیا گیا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجّاد علی شاہ پر مشتمل تین رُکنی بینچ نے 2جون کو سابق وزیرِ خارجہ، خواجہ آصف کے حق میں فیصلہ دیا۔ خواجہ آصف کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیال کوٹ سے اُن کے سیاسی مخالف، عثمان ڈار کی طرف سے دائر درخواست پر نااہل کر دیا تھا، جس کے باعث اُنھیں وزارت اور اسمبلی رُکنیت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ خواجہ آصف نے ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، جس نے اُن کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نااہلی ختم کر دی۔ پاناما فیصلے پر تنقید اور عوامی اجتماعات میں عدلیہ کی تضحیک کے الزامات پر چیف جسٹس پاکستان نے کئی ازخود نوٹسز لیے۔ مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر، دانیال عزیز، وزیرِ مملکت برائے داخلہ، طلّال چوہدری اور سینیٹر نہال ہاشمی کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کی گئی۔ دفاع کا حق دینے اور توہینِ عدالت کا ٹرائل کرنے کے بعد، سپریم کورٹ کے مختلف بینچز نے ان تینوں کو توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیا۔

18اکتوبر کو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے وزیرِ اعظم، عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 62وَن۔ ایف کے تحت صادق اور امین قرار دینے کے فیصلے پر درخواست گزار، حنیف عباسی کی نظرِثانی کی درخواست مسترد کردی۔ یاد رہے،2017 ء میں سپریم کورٹ نے حنیف عباسی کی درخواست پر فیصلہ سُناتے ہوئے عمران خان کو صادق وامین قرار دیا تھا، جب کہ تحریکِ انصاف کے سیکرٹری جنرل، جہانگیر خان ترین آئین کے آرٹیکل 62وَن۔ ایف کے تحت نااہل قرار پائے۔جہانگیر ترین نے اپنی نااہلی کے خاتمے کے لیے نظرِثانی درخواست داخل کی، تو دوسری طرف، حنیف عباسی نے، جنہیں ماتحت عدالت نے ایفی ڈرین کیس میں 25سال کی سزا سُنا رکھی ہے، عمران خان کو نااہل قرار دینے کے لیے نظر ثانی درخواست داخل کی تھی۔ تاہم، سپریم کورٹ نے اپنے سابقہ فیصلے بحال رکھے۔

ایف آئی اے نے جولائی میں چیف جسٹس، ثاقب نثار کی سخت تنبیہ پر جعلی بینک اکاونٹس کیس میں رپورٹ پیش کی، جس کے مطابق جعلی بینک اکاونٹس کے ذریعے مختلف کاروباری گروپس کی طرف سے مبیّنہ طور پر 35ارب روپے کی مَنی لانڈرنگ کی گئی، جب کہ اسی کیس میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین، آصف علی زرداری، اُن کی بہن، فریال تالپور، قریبی دوست انور مجید، حسین لوائی اور دیگر کے خلاف عبوری چالان بینکنگ کورٹ میں داخل کیا گیا۔ 5ستمبر کو ڈی جی، ایف آئی اے، بشیر میمن نے سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے اور مزید تحقیقات کے لیے مختلف ریاستی اداروں کی خدمات درکار ہیں۔ اعتزاز احسن نے ایف آئی اے ٹیم کے سربراہ، نجف قلی مرزا پر اعتراض کیا، جس پر عدالت نے اُنھیں تحقیقات سے الگ کرتے ہوئے پاناما کیس طرز پر جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم جاری کیا اور تین ماہ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا۔ جے آئی ٹی نے 24دسمبر کو جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق کئی سو صفحات پر مشتمل رپورٹ عدالت میں پیش کی، جس میں 16ریفرنسز بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ عدالت نے مدعا علیہان سے رپورٹ پر جواب طلب کر لیا، جس کی سماعت 2019 ء میں ہو گی۔ اس ضمن میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2019ء پیپلزپارٹی کی قیادت کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بہت اہم ہوگا۔

مُلک میں گڈ گورنینس کے لیے بھی سپریم کورٹ نے کئی ازخود نوٹسز لیے۔ ڈی پی او، پاکپتن کی رات گئے ٹرانسفر کے معاملے پر سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کی اور نومنتخب وزیرِ اعلیٰ پنجاب، عثمان بزدار کو طلب کیا ، جہاں اُنہوں نے عدالت سے معافی طلب کی۔ اسی طرح چیف جسٹس آف پاکستان نے آئی جی اسلام آباد کو عُہدے سے ہٹانے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ،سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی وزیر، اعظم سواتی کو طلب کیا۔ سماعت کے دوران سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے بتایا کہ آئی جی اسلام آباد، جان محمّد کا تبادلہ وزیرِ اعظم، عمران خان کے زبانی احکامات پر کیا گیا۔ عدالت نے اس معاملے کو الگ کیا اور اعظم سواتی کے محافظوں کی طرف سے غریب خاندان پر تشدّد اور مقدمات کے بارے میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی، جس نے وفاقی وزیر کو ذمّے دار قرار دیا، جس پر وفاقی وزیر نے عدالت سے معافی طلب کی، تاہم یہ معاملہ اعظم سواتی کے وزارت سے استعفے پر ختم ہوا۔ چیف جسٹس ، ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رُکنی لارجر بینچ نے’’ طلعت حسین بنام قومی احتساب بیورو‘‘ مقدمے میں مقنّنہ کو نیب آرڈینینس میں ترمیم کے لیے کہا۔ اس فیصلے میں عدالت نے تجویز کیا کہ نیب آرڈینینس میں ترمیم کر کے ضمانت کا اختیار متعلقہ احتساب عدالت کو دیا جائے، کیوں کہ ضمانت کے مقدمات میں اعلیٰ عدالتوں کا بہت وقت ضائع ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے جسٹس عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں سابق جج، اسلام آباد ہائی کورٹ، جسٹس شوکت صدیقی کی درخواست پر اعلیٰ عدلیہ کے جج کے خلاف اُس کی خواہش پر کُھلی عدالت میں کارروائی سے متعلق فیصلہ دیا۔ سپریم جوڈیشل کاؤنسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئیر جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی طرف سے عدالتی معاملات میں مبیّنہ مداخلت سے متعلق راول پنڈی بار میں کی گئی تقریر، عدالتی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دی اور مُلکی تاریخ میں 50سال بعد، کسی اعلیٰ عدلیہ کے جج کو ججز کے احتساب کے ادارے، سپریم جوڈیشل کاؤنسل نے عُہدے سے ہٹانے کی سفارش کی، جسے صدرِ مملکت نے اُسی روز منظور کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو گھر بھیج دیا۔ سپریم جوڈیشل کاؤنسل کے اس فیصلے کے خلاف شوکت عزیز صدیقی کی درخواست سپریم کورٹ نے اعتراضات لگا کر واپس کر دی۔ البتہ اعتراضات کے خلاف اپیل زیرِ سماعت ہے۔

5جولائی 2018ء کو چیف جسٹس پاکستان، جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں چار رُکنی لارجر بینچ نے مشترکہ مفادات کاؤنسل کے فیصلے کے پیشِ نظر مُلک میں دو بڑے آبی ذخائر، دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر کا حکم دیا۔ عدالت نے پانی کی قلّت پر لیے گئے اَزخود نوٹس کیس میں چئیرمین واپڈا کی سربراہی میں فیصلے پر عمل درآمد کمیٹی تشکیل دی اور پاکستانیوں سے دِل کھول کر عطیات دینے کی اپیل کی تاکہ 2025ء سے پہلے ڈیمز تعمیر ہو سکیں ۔ نیز، اس مقصد کے لیے’’ سپریم کورٹ دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ‘‘ قائم کیا گیا، بعدازاں وزیرِ اعظم، عمران خان نے بھی ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈز کی اپیل کی، تو اسٹیٹ بینک کی درخواست پر سپریم کورٹ نے24ستمبر کو عطیات کے لیے قائم اکاؤنٹ کا نام تبدیل کرنے کی منظوری دی، جس پر فنڈ کا نام’’ سپریم کورٹ آف پاکستان اور وزیرِ اعظم، پاکستان دیامر بھاشا و مہمند ڈیم فنڈ‘‘ رکھ دیا گیا۔ جولائی سے دسمبر تک اس فنڈ میں آٹھ ارب، اکیانوے کروڑ، 71لاکھ روپے جمع ہوئے۔ چیف جسٹس، ثاقب نثار مُلکی عدالتی تاریخ کے پہلے چیف جسٹس ہیں، جنہوں نے آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے بیرونِ مُلک عطیات جمع کرنے کی تقاریب میں شرکت کی۔ 2018ء میں چیف جسٹس، ثاقب نثار نے چاروں صوبوں کے بڑے اسپتالوں کے دورے کیے اور عوام کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے احکامات صادر کیے۔ سپریم کورٹ نے والدین کی طرف سے نجی اسکولز کی بڑھتی فیسیز کو 20فی صد تک کم کرنے اور موسمِ گرما کی تعطیلات میں لی گئی پچاس فی صد فیس واپس یا مستقبل کی فیسیز میں ایڈجسٹ کرنے کا بھی حکم دیا۔ اپنے عبوری حکم میں یہ بھی قرار دیا کہ نجی اسکولز فیسز میں سالانہ 5فی صد سے زائد اضافہ نہیں کر سکتےاور اس کے لیے ریگیولیٹری باڈی سے منظوری لینا لازمی ہو گی۔ چیف جسٹس، ثاقب نثار نے قصور میں آٹھ سالہ زینب کے بہیمانہ قتل کا اَزخود نوٹس لیا، جس کے باعث ملزم کی گرفتاری اور ماتحت عدالت میں ٹرائل جلد مکمل ہوا۔ اس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس، ثاقب نثار کی آنکھیں فرطِ جذبات سے نم رہیں، تو عدالت میں موجود لوگوں کے بھی آنسو بہتے رہے۔ نومبر میں سپریم کورٹ نے زیرِ سماعت مقدمات کے حوالے سے توہینِ عدالت کیس کا فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کسی بھی زیرِ سماعت مقدمے کے حوالے سے ایسے تجزیے یا تبصرے نہیں کر سکتا، جس سے ملزم کے آئین میں دئیے گئے شفّاف ٹرائل کا حق متاثر ہو۔ عدالتِ عظمیٰ نے گزشتہ برس میڈیا ہاؤسز کی طرف سے کارکن صحافیوں کو تن خواہوں کی عدم ادائی کا بھی نوٹس لیا۔نیز، چیف جسٹس، ثاقب نثار نے آبادی میں اضافے جیسے اہم معاملے کو بھی اٹھایا اور عوام میں اس حوالے سے شعور بیدار کرنے کے اقدامات تجویز کیے، تو پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کی عمارت میں پاکستان لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے تحت اس معاملے پر سیمپوزیم منعقد ہوا، جس میں وزیرِ اعظم، عمران خان بھی شریک ہوئے۔ موبائل فون بیلنس پر چالیس فی صد ٹیکس کٹوتی کو بھی سپریم کورٹ نے روکنے کا حکم دیا۔ کوئٹہ سانحے کے ازخود نوٹس کیس کے ساتھ، سپریم کورٹ نے مجموعی طور پر گزشتہ برس 19ہزار سے زائد مقدمات کے فیصلے کیے، جب کہ 20ہزار 500سے زائد نئے مقدمات داخل بھی ہوئے۔نیز،سال کے اختتام پر تقریباً 39ہزار مقدمات زیرِ التواء تھے۔

تازہ ترین