• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیب اورعدالتی فعالیت نے سیاسی تقسیم کو انتہا پسندی میں بدل دیا٭مسلم لیگ (نون) کو سال بھر دھچکے لگتے رہے٭پی ٹی آئی نئے پاکستان میں بھی پرانی روِش پر قائم رہی٭ ’’درخشندہ ماضی‘‘ نے اپوزیشن کو حدسے تجاوز نہ کرنے دیا
فاٹا کا خیبر پختون خوا میں انضمام ہوا٭ وزیرِ اعظم کے ’’یوٹرنز‘‘ زبان زدِ عام رہے٭ عمران خان کی زیرِصدارت وفاقی کابینہ کا9گھنٹے طویل اجلاس ہوا ٭ میاں نواز شریف کو ایک سال میں دو مرتبہ جیل بھیجا گیا

2018ءمُلک کے سیاسی اُفق کے تادیر یاد رہنے والے واقعات سے لب ریز سال تھا۔ گزشتہ برس تین حکومتیں برسرِ اقتدار رہیں اورغیر متوقّع نتائج کے حامل سینیٹ انتخابات بھی ہوئے۔عام انتخابات کے بعد عدالتی فعالیت اور احتساب نےمعاشرے میں پائی جانے والی سیاسی تقسیم کو انتہا پسندی میں بدل دیا۔ احتساب اور انتقام کی جنگ جاری رہی۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) کو سال کے بارہ مہینے ہی دھچکے لگتے رہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف نئے پاکستان میں بھی اپنی پُرانی روِش پر قائم نظر آئی۔ توقعات کے مطابق کارکردگی نہ دکھانے سمیت دیگر عوامل شاخِ نازک پر بنے حکومتی آشیانے کو مزید کم زور کرتے رہے۔ بہ ظاہر منتشر حزبِ اختلاف ناانصافی کی آڑ لے کرحکومت پر دبائو بڑھاتی رہی۔ تاہم، اپنے ’’درخشندہ ماضی‘‘ نے اسے ایک حد سے تجاوز نہ کرنے دیا۔گزشتہ برس قومی سیاست پر اثرانداز ہونے والے اہم واقعات پر سلسلہ وار نظر دوڑائی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ جنوری کے پہلے عشرے میں بلوچستان میں سیاسی بُحران شدّت اختیار کر گیا۔ وزیرِاعلیٰ، سردار ثناء اللہ زہری کو اپنی جماعت ، مسلم لیگ(نون)اور اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکانِ اسمبلی کی حمایت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ناراض ارکان نے وزیرِاعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کروائی، تو اسی روز انہوں نے مزید انتشار اور پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے اپنی جماعت کے کہنے پر عُہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ثناء اللہ زہری کے مستعفی ہونے کے چند روز بعد ہی پاکستان مسلم لیگ (قاف) کے ایک غیر معروف رُکنِ اسمبلی، عبدالقدّوس بزنجو ، جنہوں نے 2013ء کے عام انتخابات میں اپنی صوبائی نشست پر کم ترین، 544ووٹ حاصل کیے تھے، وزیرِ اعلیٰ منتخب ہو گئے، جو بلوچستان اسمبلی میں سب سے زیادہ عددی اکثریت رکھنے والی پاکستان مسلم لیگ (نون) کے لیے ایک اور دھچکا تھا۔ بلوچستان میں رونما ہونے والی اس بہ ظاہر غیر متوقّع صورتِ حال کو سیاسی پنڈتوں نےمارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں طاقت کا توازن بدلنے کی ایک سوچی سمجھی اور دُور رس اثرات کی حامل چال قرار دیا۔ جنوری ہی میں پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین، عمران خان کی تیسری شادی کی خبر سامنے آئی اور یہ موضوع زبان زدِ عام ہو گیا۔ ابتدا میں پی ٹی آئی نے اس خبر کی تردید کرتے ہوئے عمران خان کی جانب سے بشریٰ بی بی نامی خاتون کو شادی کی پیش کش کی خبروں کی تصدیق کی۔ تاہم، فروری کے دوسرے عشرے میں پارٹی نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر 65سالہ چیئرمین کو نئی زندگی کی شروعات کی مبارک باد دیتے ہوئے اُن کی اپنی روحانی رہبر، بشریٰ ریاض وٹو سے شادی کی بھی تصدیق کر دی اور ساتھ ہی تقریبِ نکاح کی تصویر بھی جاری کر دی۔ 40سال سے زاید عُمر کی حامل بشریٰ بی بی کی پہلی شادی خاور فرید مانیکا سے ہوئی تھی، جو ایک سینئر بیورو کریٹ ہیں اور ان سے ان کی3بیٹیاں اور 2بیٹے ہیں۔ جنوری ہی میں قصور کی رہائشی7سالہ طالبہ، زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کا اندوہ ناک واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے نے جہاں وزیرِ اعلیٰ پنجاب، میاں شہباز شریف، ان کی حکومت اور پنجاب پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے، وہیں مُلک بَھر کے عوام میں غم و غصّے کی لہر بھی دوڑا دی اور مُلک گیر مظاہرے شروع ہو گئے۔ تاہم، اکتوبر میں ننّھی پری کے قاتل اور درندہ صفت، عمران علی کو کوٹ لکھپت جیل میں تختۂ دار پر چڑھانے کے نتیجے میں مقتولہ کے والدین اور عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد بحال ہوا۔ سال کے پہلے ہی ماہ عمران خان نے ایوان میں تقریر کرتے ہوئے پارلیمنٹ پر خُوب لعن طعن کی، جس پر پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی کے اس رویّے کو پارلیمانی اقدار اور پارلیمنٹ کے تقدّس کے منافی قرار دیا۔ اسی مہینے نقیب اللہ محسود نامی نوجوان کے مبیّنہ پولیس مقابلے میں ایس پی ملیر، رائو انوار کے ہاتھوں قتل کے خلاف کراچی سمیت مُلک کے مختلف حصّوں میں مظاہرے ہوئے اور اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا گیا۔ ماورائے عدالت قتل پر اِن کائونٹر اسپیشلسٹ کو اُن کے عُہدے سے ہٹادیا گیا اور سپریم کورٹ نے اُن کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے۔ بعدازاں، کافی تگ و دو کے بعد پولیس رائو انوار کو گرفتار کرنے میں کام یاب ہوئی۔ اسی عرصے میں مُلک بَھر کے 1800سے زاید علمائے کرام کا انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف دیا گیا متفقہ فتویٰ ایوانِ صدر نے ’’ پیغامِ پاکستان‘‘ کے نام سے شایع کیا۔

فروری کے آغاز میں پاکستان کی اہم اور سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت، ایم کیو ایم،پاکستان کے سربراہ، ڈاکٹر فاروق ستّار اور رابطہ کمیٹی کے درمیان کامران ٹیسوری کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے کے معاملے پر اختلافات سامنے آئے اور یہ جماعت ایم کیو ایم، پاکستان (بہادر آباد) اورایم کیو ایم، پاکستان (پی آئی بی) میں تقسیم ہو گئی۔ تاہم، تقسیم کا سبب بننے والے کامران ٹیسوری کو سینیٹ کا ٹکٹ نہ مل سکا اور بعدازاں ایم کیو ایم،پاکستان کی سربراہی خالد مقبول صدیقی کے پاس آگئی۔ عام انتخابات سے قبل یہ دونوں دھڑے بہ ظاہر ایک ہو گئے اور انہوں نے ایک ساتھ انتخابی معرکے میں حصّہ لینے کا اعلان کیا، لیکن الیکشنز میں بد ترین شکست کے بعد ایک بار پھر اختلافات شدّت اختیار کر گئے اور نومبر میں ڈاکٹر فاروق ستّار کے بیانات کو جواز بناتے ہوئے رابطہ کمیٹی نے ان کی پارٹی رُکنیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ دسمبر2017ء میں اثاثے چُھپانے پر نا اہل قرار دیے جانے والے پاکستان تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما، جہانگیر ترین کی چھوڑی گئی نشست پر فروری میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (نون) کے امیدوار، پیر اقبال شاہ نے ان کے بیٹے اور پی ٹی آئی کے امیدوار، علی ترین کو شکست دی۔

تمام تر افواہوں، دعووں اور خدشات کے باوجودمقرّرہ وقت پر یعنی 3مارچ کو سینیٹ کی 52نشستوں پرانتخابات ہوئے اور پاکستان مسلم لیگ (نون) 33نشستوں کے ساتھ ایوانِ بالا کی سب سے بڑی جماعت بن گئی ۔ مسلم لیگ (نون) نے سینیٹ میں اکثریت تو حاصل کر لی، مگر وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بھی اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب کروانے کی پوزیشن میں نہیں تھی، جب کہ ان انتخابات کے بعد سینیٹ میں پی پی کے ارکان کی تعداد 20اور پی ٹی آئی کے ارکان کی 12ہو گئی۔ دوسری جانب سینیٹ میں توقّع سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے بعد پی پی نے اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ لانے کے لیے جوڑ توڑ شروع کر دیا۔ سینیٹ انتخابات سے پہلے اور بعد میں ارکانِ اسمبلی کی خرید و فروخت اور نادیدہ قوّتوں کے دبائو کی اطلاعات سامنے آئیں اور کے پی کے اور بلوچستان اسمبلی میں پی پی پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات عاید کیے گئے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے چیئرمین، عمران خان نے کے پی کے اسمبلی میں موجود اپنے ووٹ بیچنے والے ارکان کے نام ظاہر کر کے انہیں نوٹس بھجوائے، جس پر ناراض ارکان نے اُن کے خلاف خیبر پختون خوا اسمبلی میں تحریکِ استحقاق جمع کروائی، لیکن دوسری جانب چیئرمین، پی ٹی آئی پنجاب اسمبلی میں مطلوبہ ارکان نہ ہونے کے باوجود اپنے واحد امیدوار، چوہدری سرور کی جیت پر خوش ہوئے۔ 12مارچ کو سینیٹ میں ہونے والے ایوانِ بالا کے چیئرمین کے انتخاب میں پی ٹی آئی اور پی پی کے مشترکہ امیدوار، صادق سنجرانی نےپاکستان مسلم لیگ (نون) اور اس کے اتحادیوں کے امیدوار، راجہ ظفر الحق کو شکست دی، جب کہ ڈپٹی چیئرمین کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار، سلیم مانڈوی والا نے حُکم راں اتحاد کے عثمان خان کاکڑ کو ہرایا۔ انتخاب کے بعد پاکستان مسلم لیگ (نون) اور اس کے اتحادیوں نے عمران خان کو یوٹرن لینے پر ہدفِ تنقید بنایا، لیکن پی ٹی آئی نے اسے بلوچستان کے عوام کے لیے بہتر فیصلہ اور پی پی نے وفاق کی جیت قرار دیا۔علاوہ ازیں،22مارچ کو پی پی کی شیری رحمٰن نے سینیٹ کی پہلی خاتون قائدِ حزبِ اختلاف کے طور پر حلف اُٹھایا۔

اپریل کے اوائل میں حکومت کی جانب سے متعارف کروائی گئی 5نکاتی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم پر حزبِ اختلاف نے تحفّظات کا اظہار کیا، جب کہ اس مہینے کے دوسرے ہفتے میں مسلم لیگ (نون) کے 6ارکانِ قومی اسمبلی اور 2ارکانِ صوبائی اسمبلی نے پارٹی سے علیحدگی اور اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے معمر سیاست دان، بلخ شیر مزاری کی قیادت میں صوبہ جنوبی پنجاب محاذ بنانے کا فیصلہ کیا اور اگلے ماہ یہ اتحاد پی ٹی آئی میں ضم ہو گیا۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں عدالتِ عظمیٰ نے آرٹیکل 62وَن ایف کی تشریح سے متعلق کیس کا فیصلہ سُناتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف اور پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما، جہانگیر ترین کو تاحیات نا اہل قرار دے دیا۔ اسی عرصے میں نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد منظور پشتین کی قیادت میں اُبھرنے والی پختون تحفّظ موومنٹ نے بھی زور پکڑااور اس کی جانب سے عوام کو پاک فوج کے خلاف بھڑکانے کے واقعات سامنے آئے۔سینیٹ انتخابات کے دوران پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی کے درمیان بڑھنے والی دُوریاں مؤخرالذّکرکی کے پی کے حکومت سے علیحدگی پر منتج ہوئیں۔پی پی کے اہم رہنما، ندیم افضل چن نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ 25اپریل کواسلام آباد ہائی کورٹ نے اقامہ رکھنے پرپاکستان مسلم لیگ (نون) کے سینئر رہنما اور وزیرِ خارجہ، خواجہ محمد آصف کو نا اہل قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور عدالتِ عظمیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ اپریل کے آخر میں پی پی نے طویل عرصے بعد کراچی کے علاقے، لیاقت آباد کے ٹنکی گرائونڈ میں جلسہ منعقد کیا، جس کے ردِ عمل میں چند روز بعد ہی ایم کیو ایم، پاکستان کے دونوں دھڑوں نے اتحاد کر کے یہاں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور پھر اس کے ایک ہفتے بعد ہی 26برس بعد ایم کیو ایم، حقیقی نے بھی لیاقت آباد میں اپنا ’’پاور شو‘‘ کیا۔

مئی کے آغاز میں میاں نواز شریف نے صادق آباد میں منعقدہ ایک جلسے میں مقتدر اداروں کے لیے ’’خلائی مخلوق‘‘ کا لفظ استعمال کیا، جسے حُکم راں جماعت اور اس کے حامیوں میں خوب پزیرائی ملی۔ اسی دوران سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا فیصلہ سُناتے ہوئے وفاقی حکومت سے کہا کہ وہ پاک آرمی کے سابق سربراہ، جنرل(ر)مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق چیف، اسد دُرّانی کی جانب سے سیاست دانو ں میں مبیّنہ طور پر رقوم کی تقسیم کے معاملے پر 2012ءمیں دیے جانے والے فیصلے پہ عمل درآمد سے متعلق ایک ہفتے میں فیصلہ کرے۔ مئی کے دوسرے ہفتے میں پختون تحفّظ موومنٹ اور قبائلی عمائدین کے درمیان مذاکرات ہوئے اور پی ٹی ایم کی مختلف شہروں میں ریلیوں اور جلسوں کے جواب میں ’’پاکستان زندہ باد تحریک‘‘ کے تحت مُلک بَھر میں ریلیاں نکالی گئیں۔ حُکم راں جماعت اور اسٹیبلشمنٹ میں پائی جانے والی خلیج میں اُس وقت مزید اضافہ ہوا کہ جب میاں نواز شریف کا سِرل المیڈا کو دیا گیا متنازع انٹرویو سامنے آیا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے ممبئی حملوں میں ریاستی اداروں پر غیر ریاستی عناصر کی مدد کا الزام لگایا۔ اس موقعے پر وزیرِ اعظم، شاہد خاقان عبّاسی اور حکومت نے سابق وزیرِ اعظم کا دفاع کیا، جب کہ اپوزیشن نے شدید تنقید کی۔ مئی کے وسط میں پاکستانی نوجوان کو اپنی کار سے کُچلنے والے امریکی اتاشی، کرنل جوزف کو مُلک چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ مئی کے آخر میں اسد دُرّانی کی ’’اسپائی کرونیکل‘‘ نامی متنازع کتاب موضوعِ بحث بنی، جس پر انہیں جی ایچ کیو طلب کیا گیا۔ نیز، اسی مہینے میں فاٹا کا خیبر پختون خوا میں انضمام ہوا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگراں وزیرِ اعظم اور نگرں وزرائے اعلیٰ کے انتخاب کے لیے مذاکرات ہوئے۔ اس موقعے پر پی ٹی آئی کو خیبر پختون خوا اور پنجاب کے نگراں وزرائے اعلیٰ کے نام واپس لینے پرسبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ 31مئی کو پاکستان مسلم لیگ (نون) کی حکومت کی مدّت ختم ہونے کے بعد نئے انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا گیا۔

یکم جون کو جسٹس (ر) ناصر الملک نے نگراں وزیرِ اعظم کے طور پر حلف اٹھایا اور اسی روز لاہور ہائی کورٹ نے نئے کاغذاتِ نام زدگی کالعدم قرار دے کر الیکشن کمیشن کو ان کی وصولی سے روک دیا۔ جون کے پہلے ہفتے میں ریہام خان کی مبیّنہ کتاب شایع ہونے سے پہلے ہی اداکار اور اینکر پرسن، حمزہ عبّاسی اس کے چند اقتباسات منظرِ عام پر لے آئے۔ ان میں عمران خان کو ایک بد کردار شخص ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پی ٹی آئی نے ایک دوسرے کے خلاف شدید بیان بازی کی۔ پی ٹی آئی نے پی ایم ایل(این) پر عمران خان کی سابقہ اہلیہ کی مدد کا الزام عاید کیا، جسے اس نے مسترد کر دیا۔ اسی دوران عدالتِ عظمیٰ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کاغذاتِ نام زدگی فارم کے ساتھ بیانِ حلفی جمع کروانا لازمی قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں میاں نواز شریف سمیت 30فریقین اور سابق صدر، جنرل (ر) پرویز مشرف کو عدالت طلب کیا۔ ایم کیو ایم، پاکستان کی کنوینر شپ خالد مقبول صدیقی کو مل گئی اور ایم کیو ایم کے سینئر رہنما، حیدر عبّاس رضوی کینیڈا سے واپسی پر چند گھنٹے مُلک میں قیام کے بعد دوبارہ بیرونِ مُلک روانہ ہو گئے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنا شروع کیے۔ مُلک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے کراچی سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے نام زد کردہ انتخابی امیدواروں پر اعتراضات اُٹھائے گئے اور نظر انداز کیے گئے امیدواروں نے اپنی پارٹی کے خلاف مظاہرے کیے۔ میاں شہباز شریف کی کوششوں کے باوجود میاں نواز شریف اور پارٹی کے سینئر رہنما، چوہدری نثار کے درمیان اختلافات ختم نہ ہو سکے۔ نتیجتاً، پاکستان مسلم لیگ (نون) نے راول پنڈی کے حلقوں میں دیگر امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے اور چوہدری نثار نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصّہ لینے کا اعلان کیا۔ کاغذاتِ نام زدگی جمع کروانے کے موقعے پر عمران خان کی مبیّنہ بیٹی، ٹیریان جونز پر بحث مباحثہ شروع ہوا اور سابق چیف جسٹس، افتخار محمد چوہدری نے چیئرمین، پی ٹی آئی کو نا اہل کروانے کے لیے عدالت میں جانے کا اعلان کیا۔ پرویز مشرّف کے خلاف دوبارہ ٹرائل کے لیے خصوصی عدالت قائم کی گئی، لیکن سابق صدر نے وطن واپسی سے انکار کر دیا۔

جولائی کے آغاز میں چوہدری نثار کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جیپ کا انتخابی نشان الاٹ کیے جانے پر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ (نون) کے انتخابی امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ واپس کرنے کے بعد اپنے لیے جیپ کا انتخابی نشان مانگ لیا، جسے سابقہ حُکم راں جماعت نے اپنی خلاف سازش قرار دیا۔ 6جولائی کو نیب کی عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اثاثے چُھپانے پر میاں نواز شریف کو 11، مریم نواز کو 8اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سُنائی۔ نیز، 165کروڑ روپے جُرمانہ اور لندن فلیٹس ضبط کرنے کے علاوہ سابق وزیرِ اعظم کی دُختر اور داماد کو بھی نا اہل قرار دے دیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد پی ایم ایل (این) کے رہنمائوں اور کارکنان میں غم و غُصّے کی لہر دوڑ گئی۔ تب میاں نواز شریف اور مریم نواز لندن میں حیات و موت کی کشمکش میں مبتلا بیگم کلثوم نواز کے پاس موجود تھے۔ فیصلے کے ایک روز بعد ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے اور اس کے اگلے روز کیپٹن (ر) صفدر نے رضا کارانہ طور پر گرفتاری دے دی اور انہیں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس موقعے پر میاں نواز شریف کے مخالفین نے اُن کے وطن واپس نہ آنے کا پروپیگنڈا کیا، لیکن سابق وزیرِ اعظم اور اُن کی صاحب زادی نے جاں گُسل لمحات میں وطن واپسی کا جرأت مندانہ فیصلہ کر کے اپنے تمام ناقدین کو خاموش کروا دیا۔ باپ اور بیٹی 13جولائی کو مُلک واپس آئے، تو انہیں جہاز ہی سے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا۔ اسی اثنا میں شریف برادران کے درمیان دُوری کی خبریں بھی سامنے آئیں، جو بعدازاں غلط ثابت ہوئیں۔ قبل ازیں، نیب نے نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری، فواد حسن فواد کو گرفتار کیا تھا۔ انتخابات سے چند روز قبل انسدادِ منشّیات کی خصوصی عدالت نے ایفی ڈرین کیس میں این اے 60سے پاکستان مسلم لیگ (نون) کے امیدوار، حنیف عبّاسی کو عُمر قید کی سزا سُنائی۔ شیخ رشید اور پی پی کے ایک رہنما نے اس حلقے میں انتخابات ملتوی کیے جانے کے خلاف پٹیشن جمع کروائی، جسے عدالتِ عظمیٰ نے مسترد کر دیا۔ اس موقعے پر دورانِ اسیری میاں نواز شریف کی ناسازیٔ طبیعت کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے مرکز میں 115نشستوں کے ساتھ سبقت حاصل کی، جب کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پی پی کے حصّے میں بالتّرتیب 63اور 43نشستیں آئیں۔اکثریت ملنے کے بعد پی ٹی آئی نے وفاق کے علاوہ پنجاب اور خیبرپختون خوامیں حکومت بنانے اور بلوچستان میں اتحادی حکومت میں شامل ہونے اور عمران خان نے پاکستان کو مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست بنانے کا اعلان کیا۔ پی ایم ایل (این)، پی پی،ایم ایم اے اور ایم کیو ایم، پاکستان سمیت انتخابات میں شکست کھانے والی دیگر جماعتوں نے الیکشنز کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے احتجاج کا اعلان کیا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے اے پی سی طلب کی، جس میں ایم ایم اے سمیت دیگر جماعتوں نے از سرِ نو انتخابات کا مطالبہ کیا۔ تاہم، پی پی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک نہیں ہوئی اور پاکستان مسلم لیگ (نون) اور ایم کیو ایم، پاکستان نے نتائج مسترد کرنے کے باوجود پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا اعلان کیا۔ یورپی مبصّرین اور فافن نے عام انتخابات میںدھاندلی کا امکان تومسترد کر دیا، تاہم ان کا یہ ماننا تھا کہ چُنائو سے قبل ایسی فضا بنائی گئی کہ جس سے کسی ایک جماعت کو فائدہ پہنچا۔ان انتخابا ت کو اس لیے بھی منفرد قرار دیا جاسکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اور چوہدری نثار سمیت کئی نام وَر سیاست دان پارلیمنٹ میں نہ پہنچ سکے، جب کہ آصف علی زرداری طویل عرصے بعد اپنے صاحب زادے، بلاول بُھٹّو زرداری کے ساتھ ایوانِ زیریں کے رُکن منتخب ہوئے۔ نیز، پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ اور علی وزیر نے بھی کام یابی حاصل کی۔ انتخابات کے بعد پنجاب میں حکومت سازی کے لیے پی ٹی آئی اور پی ایم ایل (این) کے درمیان معرکہ آرائی شروع ہوئی اور دونوں جماعتوں نے آزاد امیدواروں سے رابطے شروع کیے۔ تاہم، پی ٹی آئی مرکز کے علاوہ پنجاب میں بھی معمولی برتری سے حکومت بنانے میں کام یاب ہو گئی۔

اگست کے وسط میں 15ویں قومی اسمبلی کے نو منتخب ارکان نے پی ٹی آئی کے اسد قیصر اور قاسم سوری کو بالتّرتیب ایوان کا نیا اسپیکر اور نیا ڈپٹی اسپیکر منتخب کیا۔ اسد قیصر نے سابق قائدِ حزبِ اختلاف، خورشید شاہ کے146ووٹوں کے مقابلے میں176اورقاسم سوری نے اپنے حریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے صاحب زادے،اسعد محمودکے144ووٹوںکےمقابلےمیں183ووٹ حاصل کیے۔ 17اگست کو چیئرمین پی ٹی آئی،عمران خان 176ووٹ لے کرمُلک کے22ویں وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔قائدِ ایوان کے انتخاب میں پاکستان مسلم لیگ (نون) کے سربراہ اور وزاتِ عظمیٰ کے امیدوار، میاں شہباز شریف کو 96ووٹ پڑے۔ میاں شہباز شریف کی بہ طور وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کی نام زدگی سے اختلاف کی بناء پر مولانا فضل الرحمٰن کی کوششوں کے باوجود پی پی نے ووٹنگ میں حصّہ نہیں لیا۔ عام انتخابات کے بعد پی پی اور پاکستان مسلم لیگ (نون) نے ایوان میں حزبِ اختلاف کا مضبوط اتحاد بنانے کا اعلان کیا اور قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان منتخب ہونے سے پہلے حزبِ اختلاف کے اتحاد نے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاج بھی کیا ، لیکن یہ اتحاداسپیکر کے انتخاب تک ہی قائم رہا۔ بعد ازاں، میاں شہباز شریف متحدہ اپوزیشن کی باضابطہ منظوری سے قائدِحزبِ اختلاف مقرّر ہو گئے۔ اگست کے آخر میں صدارتی انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار، عارف علوی کے مقابلے میں منقسم حزبِ اختلاف کی جانب سے دو امیدوار، پاکستان مسلم لیگ (نون) کے حمایت یافتہ، مولانا فضل الرحمٰن اور پی پی کے چوہدری اعتزاز احسن میدان میں اُترے۔ سو، ستمبر کے پہلے ہفتے میں عارف علوی352الیکٹورل ووٹ لے کر فتح یاب قرار پائے، جب کہ مولانا فضل الرحمٰن 184ووٹ لے کر دوسرے اور اعتزاز احسن 124الیکٹورل ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ عارف علوی9ستمبر کو حلف اٹھا کر پاکستان کے 13ویں صدر بن گئے ہیں اور یہ ملک کی 71سالہ تاریخ میں دوسرا موقع تھا کہ جب ایک منتخب صدر سے صدارت آئینی طریقے سے دوسرے منتخب صدر کو منتقل ہو ئی۔ اس سے قبل آصف زرداری سے ممنون حسین کو آئینی طریقے سے صدارت منتقل ہوئی تھی۔ 11ستمبر کوشریف خاندان کو اس وقت ایک شدید دھچکا لگا کہ جب طویل عرصے سے برطانیہ میں زیرِ علاج بیگم کلثوم نواز انتقال کر گئیں۔حکومتِ پنجاب نے مرحومہ کی تدفین میں شرکت کے لیے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو پیرول پر رہائی دی۔ اس کڑے وقت مُلک کے تمام سیاسی رہنمائوں نے میاں نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ سے اظہارِ تعزیّت کیا اور مرحومہ کی جمہوری خدمات پر خراجِ عقیدت بھی پیش کیا۔ 19ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔ بعض عناصر نے اس رہائی کو کسی ’’ڈِیل‘‘ کا نتیجہ قرار دیا اور سابق وزیرِاعظم اور ان کی صاحب زادی کی پُراسرار خاموشی سے بھی اس رائے تقویّت ملی۔ تاہم، اس موقعے پر پاکستان مسلم لیگ (نون) کا کہنا تھا کہ اُن کے قائد اور مریم نواز اپنے بیانیے پر بہ دستور قائم ہیں اور بیگم کلثوم نواز کے چہلم کے بعد وہ دوبار ہ اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کریں گے، مگر اپنی پارٹی کے دعووں کے برعکس اڈیالہ جیل سے واپسی کے بعد میاں نواز شریف خاموشی سے احتساب عدالت کی پیشیاں بھگتتے رہے اور دسمبر کے تیسرے عشرے تک مریم نواز کے ٹویٹر اکائونٹ پر بھی سکوت طاری رہا۔

نئی حکومت قائم ہونے کے بعدسے سال کے اختتام تک عدالت اور نیب کی فعالیت میں تیزی آتی گئی، جسے اپوزیشن جماعتوں نے انتقام قرار دیا، حالاںکہ اسی عرصے میں کئی حکومتی ارکان اور وزیرِ اعظم کی ہم شیرہ، علیمہ خان بھی اس کی زد میں آئے۔ 17اگست کوایف آئی اے نے منی لانڈرنگ کیس میں آصف علی زرداری اور دیگر مفرور ملزمان کے وارنٹ جاری کیے اور 27اکتوبر کوسابق صدر اور ان کی ہم شِیرہ، فریال تالپور ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے۔ بعد ازاں، دونوں کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی گئی ۔تاہم، یہ کیس آصف علی زرداری پر تلوارکی مانندلٹکتا رہا۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں قومی احتساب بیورو نے آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں وزیرِاعلیٰ کی حیثیت سے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کے الزام میں قائدِ حزبِ اختلاف، شہباز شریف کو گرفتار کر لیا اور اس سے اگلے روز احتساب عدالت نے انہیں جسمانی ریمانڈ پر نیب حُکّام کے حوالے کر دیا۔ دسمبر میں پیراگون ہائوسنگ اسکیم میں سابق وزیرِ ریلوے، خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی، خواجہ سلمان رفیق کو نیب نے حراست میں لے لیا۔ اسی مہینے پارک لین کمپنی کیس میں آصف علی زرداری اور بلاول بُھٹّو زرداری کو نیب میں طلب کیا گیا۔ تاہم، چیئرمین پی پی کی جگہ پارٹی کے سینئر رہنما اور معروف وکیل، فاروق ایچ نائیک نیب کے سامنے پیش ہوئے۔ دریں اثنا، سپریم کورٹ نےمیاں نواز شریف کے خلاف پاکپتن اوقاف اراضی کیس میں جے آئی ٹی تشکیل دے دی اور مسلم لیگ (ن) کی ترجمان، مریم اورنگزیب کے اثاثوں کی چھان بین اور پارٹی کے سینئر رہنما، رانا ثناء اللہ کے خلاف بھی مَن پسند افراد کو کروڑوں کا فائدہ پہنچانے کے الزام پر نیب نے تحقیقات کا آغاز کیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے نیب کی کاررائیوں میں حکومت کا عمل دخل قرار دے کر احتجاج کیا۔ تاہم، دوسری جانب ستمبر کے آغاز میں نندی پورا سکینڈل میں نیب ریفرنس دائر ہونے کے بعد وزیرِ اعظم کی تلقین پر اُن کے خصوصی مشیر برائے پارلیمانی امور، بابر اعوان اپنے عُہدے سےمستعفی ہوگئے۔ اکتوبر کے آغاز میں وزیرِ اعظم، عمران خان کی اہلیہ، بشریٰ بی بی کی بیٹی کے ساتھ پولیس اہل کاروں کے مبیّنہ ناروا سلوک پر ڈسٹرکٹ پولیس افسر پاکپتن کے تبادلے کی تحقیقات سے متعلق ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی، جس میں کہا گیا کہ ڈی پی او، پاکپتن کا تبادلہ وزیرِ اعلی پنجاب، عثمان بزدار کے دفتر کے حکم پر کیا گیا ۔اس موقعے پر عدالتِ عظمیٰ نے نہ صرف خاورمانیکا کی سرزنش کی، بلکہ وزیرِ اعلیٰ کی آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کی جانب توجّہ بھی دلوائی، جو رکنِ پارلیمان کی نا اہلی سے متعلق ہے۔ دسمبر میںوفاقی وزیرِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اورپی ٹی آئی کے رہنما، سینیٹر اعظم سواتی اپنے خلاف سپریم کورٹ میں جاری آئی جی اسلام آباد معطّلی کیس کے باعث وزارت سے مستعفی ہوگئے ۔اکتوبر کے آخر میں وفاقی وزیر کا فون اٹینڈ نہ کرنے پر آئی جی اسلام آباد کو اپنے عُہدے سے ہاتھ دھونا پڑے تھے اور چیف جسٹس، میاں ثاقب نثار نے وزیرِ اعظم عمران خان کے زبانی حُکم پر آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ روکتے ہوئے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی، جس نے اپنی رپورٹ میں اعظم سواتی کو ذمّے دار قرار دیا۔ خیال رہے کہ عمران خان اس سے قبل متعدد مرتبہ پولیس کو سیاست سے پاک کرنے کا دعویٰ کر چُکے تھے۔ اس موقعے پر حکومت نے حکومتی ارکان کے مستعفی ہونے کونئے پاکستان کی نئی روایات قرار دیا۔علاوہ ازیں، وزیرِ اعظم کے دوست اورمعاونِ خصوصی، زلفی بخاری بھی دُہری شہریت کےمقدّمے اور پاناما میں آف شور کمپنیز پر عدالت اور نیب کے سامنے پیش ہوتے رہے ۔دسمبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اُن کا نام ای سی ایل سے نکال دیااور بعدازاں سپریم کورٹ نےدوہری شہریت پر انہیں نا اہل قرار دینے کی درخواست بھی مسترد کردی۔ عدالتِ عظمیٰ نے وزیرِاعظم کی ہم شِیرہ، علیمہ خان کو بیرونِ مُلک جائیداد کو ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے پر ایف بی آرکو 2کروڑ 94لاکھ روپے جُرمانہ ادا کرنے کا حُکم دیا۔ علاوہ ازیں، مالم جبّہ اراضی لیز کیس میں وزیرِ دفاع، پرویز خٹک کے خلاف تحقیقات میں تیزی آئی اور دسمبر میںاسی کیس کے حوالے سے پی ٹی آئی کے سینیٹرمحسن عزیز اور وزیرِ اعلیٰ کے پی کے،محمود خان نیب کے سامنے پیش ہوئے۔ دسمبر ہی میں حکومت نے نیب قوانین میں تبدیلی اور پارلیمانی کمیٹیز کے قیام پرحکومت اور اپوزیشن کے درمیان پایا جانے والا ڈیڈلاک ختم کرنے کے لیے قائدِ حزبِ اختلاف، شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی دینے کا فیصلہ کیا۔

قبل ازیں،نومبر کے آغاز میں سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے پر تحریکِ لبّیک پاکستان سمیت دیگر مذہبی، سیاسی جماعتوں نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا۔ تحریکِ لبّیک نے مُلک بھر میں دھرنے دیے۔ تاہم، حکومت نے دبائو مسترد کر دیا اوردھرنادینے والوں کے خلاف سخت ایکشن کا فیصلہ کیا گیا۔ بعد ازاں، ایک معاہدے کے نتیجے میں مظاہرین منتشر ہوگئے اور بارہ ربیع الاول کے بعد ٹی ایل پی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ اسی عرصے میں پہلے ایک سو روز مکمل ہونے پر حکومت نے اپنی کام یابیاں گنوائیں، جب کہ حکومت نے ان ایّام کو دروغ گوئی سے عبارت قرار دیا۔ دسمبر میں وزیرِ اعظم نے اپنے وزراء کی کارکردگی جاننے کے لیے کابینہ کا اجلاس طلب کیا ۔ اس اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ 9گھنٹے تک جاری رہا اور یہ پاکستان کی تاریخ میں کابینہ کا طویل ترین اجلاس تھا، جس میں وزیرِ اعظم نے تمام وزراء کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ تاہم، حکومت کی ناتجربہ کاری، لا اُبالی پن اور فکر وتدبّر کی بہ جائے جذباتی بیانات اور فیصلوں کی وجہ سے اسے نہ صرف اپوزیشن بلکہ مُلک کے سنجیدہ طبقات کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ نیز،عمران خان کی جانب سے 50لاکھ گھروں کی تعمیر کے اعلان اورکرپشن کے خلاف سخت مؤقف رکھنے کے باوجود غیر مقبول فیصلوں کی وجہ سے حکومت کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی، جس کا خمیازہ اسے ضمنی انتخابات میں اپنی نشستیں کھو دینے کی صورت بُھگتنا پڑا۔ علاوہ ازیں، وزیرِ اعظم کے ’’یوٹرنز‘‘ بھی زبان زدِ عام رہے۔ 24دسمبر کو احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں کرپشن ثابت ہونے پر میاں نواز شریف کو 7سال قید بامشقّت کی سزا سُنائی اور یوں سابق وزیرِ اعظم کو ایک سال میں دوسری مرتبہ جیل بھیج دیا گیا۔

تازہ ترین