• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندہ قومیں اپنے عظیم لیڈروں جو ملک کی قسمتیں بدلتے ہیں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بھی قائداعظم محمد علی جناح کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسے عظیم لیڈر عطا کئے جنہوں نے بے شمار قربانیاں دے کر پاکستان کو امت مسلمہ کی پہلی اور دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت بنایا۔ میرا اور میری فیملی کا شہید بے نظیر بھٹو سے بڑا قریبی تعلق رہا ہے اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ان کے ساتھ کام کرکے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی میں شہید بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کیلئے محترمہ کے ساتھ گزارے گئے تاریخی لمحات آج اپنے قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا تاکہ نوجوان نسل کو ان کی پاکستان کیلئے دی گئی قربانیوں کے بارے میں آگاہی ہو۔ بے نظیر بھٹو میری رول ماڈل تھیں، میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا میں ان کے پائے کے بہت کم لیڈر ہیں۔ ملک میں جمہوری استحکام کیلئے 14 مئی 2006ء کو ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے غیر آئینی ترامیم، جمہوریت کی بحالی اور انتقامی سیاست کے خاتمے کیلئے ”میثاق جمہوریت“ پر دستخط کئے۔ شہید بے نظیر بھٹو کی قومی مفاہمتی اور برداشت کی پالیسی پر صدر پاکستان آصف علی زرداری نے عمل کرتے ہوئے عوامی طاقت کے ذریعے بغیر کوئی گولی چلائے ایک آمر سے حکومت چھین کر5 سالہ جمہوری حکومت مکمل کی اور اپنے آپ کو ایک ذکی اور فہیم کامیاب سیاسی لیڈر کے طور پر منوایا۔ صدر پاکستان کی مفاہمت کی پالیسی ایک فلسفہ بن چکی ہے جسے تمام شعبہ ہائے زندگی مثلاً خاندانی، کاروباری، سفارتی اور سیاسی شعبوں میں استعمال کرکے مثبت نتائج حاصل کئے جارہے ہیں۔
شہید بے نظیر بھٹو سے میری پہلی ملاقات1994ء میں ہوئی۔ اس کے بعد میں محترمہ کو وقتاً فوقتاً مختلف میٹنگز میں ملکی معیشت اور توانائی کے بحران پر مختلف تجاویز اور پرپوزل دیتا رہا، وہ مجھے بے شمار غیر ملکی دوروں میں اپنے ساتھ لیکر گئیں۔ وہ عموماً اپنے خصوصی طیارے کی روانگی کے تھوڑی دیر بعد وفد کے ارکان کو فرداً فرداً بلاکر ان کی تجاویز اپنے ایجنڈے میں شامل کرتی تھیں، وہ مجھے اپنے ساتھ برطانیہ، کوریا، اسپین، مراکش، ترکمانستان اور دیگر کئی ممالک کے سرکاری دوروں پر وفاقی وزراء کے ہمراہ لے کرگئیں۔ صدر پاکستان کے حالیہ دورہ کوریا کے دوران شہید بے نظیر بھٹو کی یاد اس وقت تازہ ہوگئی جب صدر آصف علی زرداری نے بھی بی بی کی طرح کوریا جانے والے وفد میں شریک تمام بزنس مینوں سے طیارے میں فرداً فرداً ملاقات کی۔ دبئی میں جلاوطنی کے دوران میرے اور میرے بھائی اشتیاق بیگ سے محترمہ کے تعلقات بہت قریب رہے۔ محترمہ کی میری مرحومہ بھابھی نازیہ حسن سے بھی بہت قریبی دوستی تھی۔2002ء کے الیکشن کے وقت شہید بے نظیر بھٹو نے مجھے کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250 سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے کہا جس کیلئے میں بالکل تیار نہ تھا لیکن بی بی اور مخدوم امین فہیم، سینیٹر رضاربانی کے اصرار پر میں محترمہ کو انکار نہ کرسکا۔ یہ الیکشن میری سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔
بی بی نے مجھے پیپلز بزنس فورم کی ذمہ داری دی جس کا کام بزنس کمیونٹی اور پیپلزپارٹی کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرنا تھا۔ ہم نے برطانوی پارلیمینٹ کے چند ارکان جو ہمارے قریبی دوست ہیں کے ذریعے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کی حمایت حاصل کی۔ اسی طرح امریکہ نے بھی اپنی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کے ذریعے بی بی کو پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو کہا اوربالآخر شہید بے نظیر بھٹو نے18/اکتوبر2007ء کو وطن واپسی کا اعلان کیا۔ اعلان کے وقت میں،پارٹی کے تمام سینئر لیڈر اور ورکرز بلاول ہاؤس میں جمع تھے۔ محترمہ کی کراچی واپسی ہم سب کیلئے خوشی کے ساتھ ایک چیلنج بھی تھا کہ ہم محترمہ کا شایان شان طریقے سے استقبال کریں۔ استقبالیہ کمیٹی جس میں، میں بھی شامل تھا نے محترمہ کے شاندار استقبال کی تیاریاں کیں، پھر دنیا نے دیکھا کہ کراچی بالخصوص بلاول ہاؤس کا میرا قومی اسمبلی کا حلقہ NA-250 محترمہ کی قد آور خوبصورت تصاویرسے سجایا گیا تھا جس کی وجہ سے اس وقت کے وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم نے نہ صرف میرے گھر پر پولیس چھاپے پڑوائے اور مجھے، قائم علی شاہ اور دوسرے لیڈروں کو پیپلزپارٹی کی ایک ریلی سے گرفتار کرکے ڈیفنس تھانے میں بند رکھا۔ ہماری رہائی کیلئے خورشید شاہ، رضا ربانی، یوسف تالپور اور میرے وکلاء رات گئے تک کوشش کرتے رہے۔ بعد میں ٹی پی او کلفٹن آصف شیخ نے مجھے بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے میرے علاوہ تمام لیڈرز کی رہائی کا حکم دیا ہے اور وہ مجھ سے وہ تحریری معافی نامہ اور شہید بے نظیر بھٹو کے استقبال کی تیاریوں میں حصہ نہ لینے کا حلف چاہتے تھے جو میں نے انکار کردیا۔ بعد میں میرے ساتھیوں نے بھی میری رہائی تک رہا ہونے سے انکار کردیا۔ رات گئے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے مجھ سے فون پر بات کرکے مجھے اور تمام لوگوں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ شہید بے نظیر بھٹو کا شایان شان استقبال اور سانحہ کارساز تاریخ کا حصہ ہیں۔ میں نے الیکشن اور بی بی کے استقبال کی مصروفیات کی بنا پر اپنے چھوٹے بھائی اشتیاق بیگ کو بی بی کے ساتھ دبئی سے کراچی آنے کیلئے بھیجا۔ بی بی نے طیارے میں اپنے ہاتھ سے میرے نام کی پی پی پی الیکشن کیپ نہ صرف خود پہنی بلکہ طیارے میں موجود تمام افراد کو پہننے کو کہااور دنیا بھر کے چینلز نے میری کیپ پہنے بی بی کو طیارے سے اترتے ہوئے دکھایا۔ ان کی برسی کے موقع پر میں نے وہی کیپ پہنی بی بی کی مسکراتی تصویر کے بل بورڈز اپنے حلقہ میں آویزاں کئے ہیں۔
شہید بے نظیر بھٹو اپنے قریبی ساتھیوں کو مختلف ذمہ داریاں دے کر آزماتی تھیں۔ کراچی میں محترمہ نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت الیکشن آفس میں ہنگامے کے بعد واپسی پر بلاول ہاؤس میں ایک اہم میٹنگ کی جس میں میرے علاوہ فہمیدہ مرزا، ذوالفقار مرزا، شیری رحمن، رضا ربانی، رحمن ملک، قائم علی شاہ اور دیگر اہم پارٹی رہنما شریک تھے۔ اجلاس میں طے ہوا کہ محترمہ سیکورٹی کے پیش نظر اپنے کاغذات نامزدگی کی تصدیق کیلئے دوبارہ سندھ الیکشن کمیشن نہیں جائیں گی۔ میں نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ ہمیں الیکشن کمیشن سے آپ کی حاضری سے استثنیٰ حاصل کرنا چاہئے۔ میں نے فوراً اسی وقت الیکشن کمیشن کے سیکریٹری کنور دلشاد جن سے میرے اچھے تعلقات تھے کو فون کیا جس کی انہوں نے اجازت دے دی۔ میں محترمہ کو اپنا یہ کارنامہ بتانا ہی چاہتا تھا کہ رحمن ملک نے کہا کہ ان سے تحریری اجازت لی جائے۔ اتوار کا دن ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن نے تھوڑی ہی دیر بعد تحریری اجازت نامہ بلاول ہاؤس فیکس کیا تو میں اسے فخریہ انداز میں لے کر محترمہ کے پاس گیا تو محترمہ نے مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے Welldon کہا۔ اس موقع پر وہاں موجود ذوالفقار مرزا نے مذاقاً کہا ”میڈم! ایسے کام صرف ”مرزا“ ہی کرسکتے ہیں“۔ جس پر محترمہ نے جواباً کہا ”نہیں صرف ”بیگ “ کرسکتے ہیں“۔ محترمہ کے یہ الفاظ میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔
محترمہ نے مجھے لندن کے پارٹی اجلاس میں 2008ء کے انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250 کا پارٹی ٹکٹ دیا۔ پورے پاکستان میں 2008ء کے الیکشن میں صرف میں ہی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا مشترکہ امیدوار تھا جبکہ مجھے اے این پی، جے یو آئی اور سنی تحریک کی حمایت بھی حاصل تھی اور میں نے ریکارڈ ووٹ حاصل کئے۔ میرا اور پارٹی کے تمام ورکرز کا یہ نصب العین تھا کہ بی بی کی شہادت کے بعد بلاول ہاؤس کے حلقے کی یہ نشست پیپلزپارٹی کی ہو لیکن انتخابات کے نتائج کو خالی بیلٹ پیپر کے ذریعے بدل کر عوامی مینڈیٹ کا جو مذاق اڑایا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ ہائیکورٹ میں میری الیکشن پٹیشن پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مرحلے پر مفاہمت کے تحت پارٹی کے شریک چیئرمین کی ہدایت پر اپنا کیس واپس لینا پڑا جس کا مجھے آج بھی سخت افسوس ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے کئی دن بعد ان کی بلیک بیری سے میرے پاس شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا ایک میسج آیا کہ شہید بے نظیر بھٹو کے آخری پیغامات میں آپ کو کیا گیا ایس ایم ایس بھی شامل ہے۔ دراصل میں نے قومی اسمبلی کے اپنے حلقہ NA-250 میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر محترمہ کا شکریہ ادا کیا تھا جس کا انہوں نے مجھے اس طرح جواب دیا۔
"Are you happy, now you must win this seat, Good Luck"
(اب تو آپ خوش ہیں، آپ اس نشست کو ضرور جیتیں، خوش قسمتی کے ساتھ) میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اپنی قائد سے یہ میری آخری گفتگو ہوگی۔
تازہ ترین