• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے: لوگ مارے جا رہے ہیں حکومت کچھ نہیں کر رہی۔
انتخابات کا اصل مسئلہ لا اینڈ آرڈر ہے۔ انتخابات ملتوی ہوئے تو بات ختم ہو جائے گی،
ظاہر ہے الیکشن کمیشن نے لوگوں کی بنیاد پر ہی انتخابات کرانے ہیں، اگر لوگ ہی مارے جاتے رہے تو پرچی ڈالنے کون گھر سے نکلے گا، حکومت اس لئے کچھ نہیں کر رہی کہ پھر عوام کہیں گے دیکھو جب کرنے پر آئی ہے تو کر کے دکھا دیا، اس کا مطلب ہے وہ پانچ برسوں میں بھی کچھ کر سکتی تھی جو اس نے جان بوجھ کر نہیں کیا، سابق گورنر پنجاب نے بھی اپنی مدت گورنری میں اسی فارمولے کو اپنائے رکھا اور جب زرداری یا گیلانی نے اپنے تہہ خانے سے کوئی کرشمہ دکھایا تو وہ بیک بینی و دو گوش رخصت کر دیئے گئے، کیونکہ وہ مسلم لیگ فنگشنل کو تو آئندہ انتخابات میں حکومت سے نہیں ملا سکتے تھے، پھر بھی وفا داری بشرط استوار ہی دیکھتے کہ جاتے جاتے کہہ گئے #
کنجری بنیاں مری عزت نہ گھٹ دی
مینوں نچ کے یار مناون دے
اور جا کر آغوش زرداری میں آسودہ ہو گئے، آنے والے الیکشن لگتا ہے جانے والے الیکشن ہیں، اور اگر یوں ہوا تو وہ جو ایک زنجیر ماڑی موٹی سی جمہوری عمل کی بن گئی تھی وہ ٹوٹ جائے گی، کیئر ٹیکر گورنمنٹ تو چوکیدارہ نظام ہے، بھلا کب تک لالٹین اور ڈنڈا لے کر رات کو گلیوں میں آواز لگاتی رہے گی۔ جاگتے رہنا جاگتے رہنا ساڈے تے نہ رہنا۔ فخر الدین ابراہیم جی اپنی سی پوری کوشش کر رہے ہیں مگر ملک میں انتخابات سے پہلے حکومت کا لا اینڈ آرڈر پر قابو نہ پانا لوگوں کا مسلسل مارے جانا تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ جو جمہوریت لانے کے دعویدار تھے وہ اسے لے جانے کی سوچ رہے ہیں، یہ اچھی بات ہے کہ الیکشن کمشنر فوج کی خدمات سے استفادہ کر لے، مگر کہیں کوئی اس استفادے سے استفادہ نہ کر لے۔ اس لئے کیا یوں کہنا اب بھی مناسب نہ ہو گا #
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہئے
####
چوہدری پرویز الٰہی کہتے ہیں: شیر کا دماغ نہیں ہوتا۔ پنجے مار کر پنجاب کو کنگال کر دیا۔
چوہدری پرویز الٰہی ڈپٹی وزیراعظم بن گئے مگر ابھی تک شیر سے ڈرتے ہیں، حالانکہ جب سیاستدان وزارت عظمیٰ کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ وزیر اعلیٰ کو اتنی لفٹ نہیں کراتا کہ اس کا اصلی نام بدل کر شیر رکھ دے، بھلا شہباز اور شیر کا کیا مقابلہ اگر شیر نے پنجے مارے بھی تو مٹی ہی نکلی کیوں کہ مٹی پاؤ سکیم یہاں سے ہو کے گزری ہے، لگتا ہے پرویز الٰہی، شہباز شریف سے اک گونہ محبت بھی رکھتے ہیں ان کے Behalf پر کہا جا سکتا ہے #
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
سائیکل اور شیر کی کارکردگی دکھانے کیلئے لکی ایرانی سرکس درکار ہے، کہ شیر سائیکل پر سواری کرے اور شائقین خوب تالیاں بجا کر شیر کو داد دیں اور سائیکل کو پوچھیں بھی نہیں، پنجاب کبھی کنگال نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ پانچ دریاؤں کی سرزمین ہے، یہاں کے لوگ محنتی جفا کش اور زندہ دل ہیں، یہاں کی مٹیاریں جب پگڈنڈی پر بل کھاتی سر پر روٹی اور مکھن کا پیڑا لیکر اپنے گھر والے کو کھانا دینے جاتی ہے، تو فصلیں لہلہا اٹھتی ہیں، اور پازیب کی جھنکار پنجاب کو بہت زرخیز بنا دیتی ہے۔ یہاں کی زمین میں ہر نعمت پیدا کرنے کی صلاحیت ہے، مگر بدقسمتی سے چودھریوں اور شریفوں نے مل کر کھیتوں کا حق ادا نہ کیا اور یہاں کا وہ دہقان جس کے آہنی ہاتھ زمین سے سونا نکالتے تھے انکی حالت یہ ہو گئی کہ #
دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ
####
مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں: طالبان اور ایم کیو ایم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ مولانا طالبان کے پروپرائٹر بنے پھرتے تھے، اور اب وہ یہ فرما رہے ہیں کہ ایم کیو ایم اور طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، کیا مولانا کا اپنا بھی کوئی رخ ہے، یا یونہی بے چہرہ جلوہ سامانیاں دکھاتے رہیں گے۔ واعظِ سیاست گراں اس طرح محو تگ و دو ہیں، کہ کہنا پڑتا ہے #
یاروں کی دوڑ دھوپ ہے دنیا کی چیخ پر
اور دین ہے کبابِ ضرورت کی سیخ پر
ایم کیو ایم کا رنگ روپ ادا، صدا، آب و ہوا، قومی سیاست میں بھرپور اشتراک سبھی کچھ طالبان سے مختلف ہے، اور بھلا ایک جداگانہ غیر سیاسی تنظیم سے اس کی کیا مماثلت ہو سکتی ہے، یہ وہی بات ہے کہ #
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
اب بھائی الطاف ہی مولانا پر واضح کر دیں کہ انہوں نے شاید کوئی غلط سکہ ہاتھ میں اٹھا کر دیکھ لیا ہے، ایم کیو ایم کی مثال یہ ہے کہ بد سے بدنام برا، یہ جماعت پڑھے لکھے سمجھے ہوئے لوگوں پر مشتمل ہے، اور طالبان چیزے دیگر است، مولانا سے توقع تھی کہ وہ پورے ملک کی مذہبی جماعتوں کو یکجا کر کے کایا پلٹ دیں گے اور ملک میں دودھ کی نہریں بہا دیں گے، مگر ان سے تو جماعت اسلامی اور مولانا سمیع الحق اینڈ کمپنی بھی الگ ہو گئی، اگر ایک دین کے ماننے والے بھی ایک نہیں ہو سکتے تو پھر دو متضاد جماعتوں کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دینا چہ معنیٰ دا رد؟۔
####
میاں نواز شریف کہتے ہیں: ریاست کو سیاست سے علیحدہ کرنا روح اور جسم کو الگ کرنے کے مترادف ہے،
جو بھی ریاست آج تک دنیا میں بنی ہے وہ سیاست کی بنیاد پر بنی ہے، البتہ ریاست بغیر سیاست کے اس طرح بن سکتی ہے کہ مولانا طاہر القادری کسی علاقے پر حملہ کر کے اسے فتح کر کے اس پر اپنی بادشاہت قائم کر دیں، جمہوری دنیا میں جب بھی کوئی ریاست بنی پہلے سیاسی جوڑ توڑ ہوا، معاہدے اور ریفرنڈم ہوئے تب جا کر کوئی ریاست وجود میں آئی، میاں صاحب کوئی بڑے دانشور نہیں لیکن اب تک ان کو سیاست کی سمجھ آ چکی ہے، اس لئے انہوں نے اس نئی بدعت کے بارے واضح کر دیا کہ سیاست مضبوط نہ ہو تو ریاست اتنی کمزور پڑ جاتی ہے کہ اسے کوئی بھی لے اڑتا ہے، اقبال نے کیا خوب کہا #
قلندر جز دو حرف لا الٰہ کچھ نہیں رکھتا
فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
یہ فقیہ شہر بلکہ انٹرنیشنل فقیہ جو بانسری بجا رہے ہیں اس میں کس نے پھونک ماری ہے، کہ وہ لپ سروس کر کے اسے بجانے کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اگر کوئی شخص بہت زیادہ پڑھ لکھ جائے، اور اس میں گنجائش نہ ہو تو پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے #
کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
یہ جو کینیڈا سے اچانک ایک لہر سی اٹھی ہے ابھی یہ التوائے انتخابات کی چارہ گری نہ بن جائے، اگر لوگ باگ اس قدر ساتھ ہیں، تو یہ وسیع پیمانے پر بسوں کی فراہمی تو ایک جبر ہے۔ مزا تو تب تھا کہ ایک کال دی جاتی اور لوگ امنڈ پڑتے، مگر بنیادی فلسفہ ہی مضحکہ خیز ہے، سیاست نہیں ریاست بچاؤ۔
تازہ ترین