• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے بھی خزاں میں باغ اجڑے پر یوں نہیں جیسے اب کے برس
سارے بوٹے پتہ پتہ روش، روش بربا ہوئے
پہلے بھی طواف شمع وفا تھی، رسم محبت والوں کی
ہم تم سے پہلے بھی یہاں منصور ہوئے فرہاد ہوئے
زہر کا پیالا پینا اور دودھ کی نہر لانا فیض صاحب نے اتنے خوبصورت انداز میں ایک ہی مصرعے میں سمو دیئے کہ حالات حاضرہ کو دیکھ کر جی چاہا کہ یہ اشعار قارئین کی نذر کروں، کوزے میں دریا سمودیا ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس کے بعد مزید کچھ لکھنے کی گنجائش نہیں مگر کالم کا تقاضہ ہے کہ اسے مکمل کیا جائے، سو حاضر ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں پشاور ایئرپورٹ پر حملے سے لیکر سپریم کورٹ کا نوٹس اور پھر عوام کا خاموش احتجاج ایسے واقعات ہیں جو کہ توجہ طلب ہیں لیکن چونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں موجود ہے لہٰذا اس پر کوئی تبصرہ قبل از وقت ہوجائے گا اور وہ ان حالات میں بالکل بھی مناسب نہیں، ہم سے عقلمند تمام سیاسی پارٹیاں ہیں جو اس معاملے پر مکمل طور پر خاموش ہیں اور کسی بڑے لیڈر کا کوئی بیان نظر سے نہیں گزرا۔ شاید وہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے یا 7 جنوری کے منتظر ہیں۔ اگرچہ میڈیا میں یہ بار بار کہا جارہا ہے کہ بھائی نہیں آئیں گے لیکن اس کے باوجود کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاید 7 جنوری کو بھائی اچانک آجائیں اور سپریم کورٹ میں پیش ہوجائیں۔ بہرحال یہ صرف خیال ہے اور ابھی7 جنوری میں بہت دن باقی ہیں اور سال بھی بدل جائے گا، 2013 شروع ہوجائے گا جو کہ بہت بڑے بڑے لوگوں کی ریٹائرمنٹ کا سال ہے اور موجودہ حکومت اور اسمبلی کا بھی آخری سال ہے۔بقول فیض
کچھ بھی ہو آئینہ دل کو مصفّا رکھئے
جو بھی گزرے، مثل خسروِ دوراں چلئے
امتحاں جب بھی ہو منظور جگر داروں کا
محفل یار میں ہمراہ رقیباں چلئے
امتحان کا ذکر آیا تو خیال آیا کہ پاکستان اور خاص طور پر کراچی میں رہنا تو ہر روز امتحان سے گزرنا ہے، یہاں تو دوسرے امتحانات کے علاوہ زندگی کا بھی امتحان ہوجاتا ہے، اس لئے ہر وقت خیر کی دعا مانگنی چاہئے۔ ویسے کوئٹہ کے حالات بھی کچھ کراچی سے مختلف نہیں۔ اگرچہ آبادی میں کوئٹہ کراچی کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے لیکن دہشت گردی کے واقعات میں شاید نمبر لے گیا ہے۔ اب تو پشاور نے بھی کہا کہ ہم کسی سے پیچھے نہیں اور رات کے اندھیرے میں ایئرپورٹ پر دھاوا بول دیا۔ مندرجہ بالا جملے تمام اخباری خبروں سے لئے گئے ہیں اور ان میں ایسی کوئی بات نہیں جس کا عوام کو علم نہ ہو۔ جس بات کا عوام کو علم نہیں ہے وہ یہ ہے کہ یہ کون کرارہا ہے؟ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، کرنے والے کا اصل ایجنڈا کیا ہے اور معصوم لوگوں کو مارنے سے انہیں کیا مل جاتا ہے، یہ تمام وہ سوالات ہیں جو تقریباً میں اپنے کئی گزشتہ کالموں میں اٹھاچکا ہوں، خود بھی ان کا جواب ڈھونڈتا رہتا ہوں اور میری عدالت کے احاطے میں پولیس والوں سے کثرت کے ساتھ بے تکلف ملاقاتیں ہوتی ہیں اور موقع دیکھ کر یہ سارے سوالات ان سے کرتا ہوں۔ میں تو یہاں تک بھی پوچھ لیتا ہوں کہ سیاسی پارٹیوں کے چھوٹے عہدیداروں کا قتل محض اتفاقی ہے یا ان کے پیچھے بھی کوئی ہاتھ ہوتا ہے۔ پولیس والے بڑے ہوشیار ہوتے ہیں اور بقول ابن انشا یوں جواب دیتے ہیں
ہم بھی وہیں موجود تھے، ہم سے بھی سب پوچھا کئے
ہم چپ رہے، ہم ہنس دیئے، منظور تھا پردہ ترا
کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرہ ترا
مندرجہ بالا اشعار حالات حاضرہ کے بارے میں اپنے اندر سارے جوابات سموئے ہوئے ہیں، کاش انشا جی زندہ ہوتے تو ہم ان سے کچھ اور لکھنے کی فرمائش کرتے اور وہ ضرور لکھتے۔ ابھی کالم لکھ ہی رہا تھا کہ ٹی وی پر ٹِکر چلا کہ کراچی ایئرپورٹ پر خندقیں کھودی جارہی ہیں اور دہشت گردوں کے حملے کے پیش نظر حفاظتی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ مجھے اپنے بچپن کی 65ء کی جنگ اور پھر جوانی کی1971ء کی جنگ کی خندقیں کھودنا یاد ہے، گلی محلوں میں نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت فضائی حملوں سے بچاؤ کیلئے لمبی لمبی خندقیں کھودتے تھے اور اس کام میں بچے بھی حصہ لیتے تھے۔ ایسے لگتا تھا جیسے کوئی پکنک ہورہی ہے کیونکہ اسکول سے چھٹیاں ہوتی تھیں اور بچوں کا اسکول بند ہوجائے تو اس سے زیادہ خوشی کاموقع شاید ہی کوئی ہوتا ہو۔ جب میں وکیل بنا تو میں نے ایکشن ری پلے دیکھا۔ جب بورڈ ڈسچارج ہوتا ہے تو بیشتر وکلاء اسکول کے بچوں کی طرح خوشی مناتے ہیں۔ سوائے ان وکلاء کے جن کا کام ارجنٹ ہوتا ہے یا جن کا موکل جیل میں بند ہوتا ہے،وہ رک جاتے ہیں اور باقی سب خوشی خوشی بار روم یا اپنی کاروں کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب کراچی میں 92 ء کے آپریشن کے دوران روز ہڑتالیں ہوتی تھیں، تو بچے اسکول سے چھٹی کی وجہ سے بہت خوش ہوتے تھے اور جس روز ہڑتال نہیں ہوتی تھی تو بچے باقاعدہ سوال کرتے تھے کہ آج ہڑتال کیوں نہیں ہے؟ ہڑتالوں کا موسم دوبارہ آتا ہوا نظر آرہا ہے، اب یہ نہیں معلوم کہ یہ خوشیاں لائے گا یا پھر…؟ میں نے احتیاطاً سوالیہ نشان دے دیا کیونکہ حساس معاملات میں زیادہ پیشگوئیاں کرنے والا آدمی خود پھنس جاتا ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ منہ بند رکھا جائے، جو ہونا ہے وہ سب کے سامنے ہے اور دیوار پر لکھا ہے۔ میرے چھپانے سے چھپے گا تو نہیں لیکن میری تسلی ہوجائے گی کہ میں نے کچھ نہیں بتایا اور یہ کام بڑے بڑے کالم نگاروں اور اینکر حضرات کیلئے چھوڑ دیا جن کے اختیارات لامحدود ہیں بقول منیر نیازی
خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ جمے ہیں
جب تک دن کا سورج آئے اس کا کھوج لگاتے رہنا
تم بھی منیر اب گلیوں سے اپنے آپ کو دور ہی رکھنا
اچھا ہے جھوٹے لوگوں سے اپنا آپ بچائے رہنا
کون جھوٹا ہے اور کون سچا، یہ تو منیر نیازی ہی کو پتہ ہوگا یا وقت بتائے گا، ہمارے تو پر جل جاتے ہیں اس لئے ہم ان مقامات سے اپنے آپ کو دور ہی رکھتے ہیں، یہ سب مسائل تصوف ہیں اور انہیں بیان کرتے کرتے مرزا غالب ولی ہوتے ہوتے رہ گئے۔ ان کی بادہ خواری آڑے آگئی۔ نہ جانے ہمارے آڑے کیا آجائے، اس لئے اونچے درجوں سے پرہیز کرتے ہیں لیکن آپ خود ضرور دیکھیں گے میرے لکھنے پر نہ جائیں، حالات کچھ اچھے نہیں ہیں، ہر وقت احتیاط لازم ہے اور خیر کی دعا مانگنی چاہئے، بقول فراق گورکھپوری
ہم کو ہے معلوم سب روداد علم و فلسفہ
ہاں پر ایمان و یقیں، وہم و گماں بنتا گیا
تازہ ترین