• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوہری طاقت پاکستان کو عدم استحکام کا شکار نہ کریں

امریکہ کے انتہائی متکبر اور ہوس اقتدار کے مارے ہوئے امریکی وزیر دفاع نے جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان میں عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کیا ہے، ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ اگر امریکہ اسی طرح امتیازی سلوک کرتا رہا تو خود امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے اور یہ امریکہ ہی ہے جو پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، تاہم وہ اس بات کو مدنظر رکھے کہ اس وقت جنوبی ایشیاء کے خطہ کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں ۔ یہ خطہ اس وقت دُنیا کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے، اس خطہ میں انڈیا ہے، جس کی سرحدیں سارک ممالک کے ساتھ ملی ہوئی ہیں اور جو بڑا ملک یا سپر طاقت بننا چاہتا ہے اگر چین کو اس میں شامل کرلیا جائے تو اِس خطہ میں دُنیا کی1/5 آبادی رہتی ہے۔ اِس خطہ میں سیکورٹی کی سخت ترین مشکلات ہیں۔ اگرچہ ایران، پاکستان اور چین کو آگے بڑھنے سے روکنے کی پالیسی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے تاہم افغانستان میں جو کچھ ہوگا وہ اس خطہ کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا اور اس میں پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے۔
افغانستان اس جنگ کی وجہ سے ایک ناکام ریاست تو بن ہی چکا ہے اور پاکستان اس طرف رواں دواں ہے۔ اسی وجہ سے اِس وقت یہ خطہ دُنیا کا خطرناک ترین خطہ ہے۔ اسی خطہ سے ساری دُنیا میں تبدیلی یا جنگ یا تباہی کی لہر اٹھے گی۔ امریکہ نے انتہائی ناانصافی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور پاکستان کو نظرانداز کرکے انڈیا کے ساتھ سول ایٹمی معاہدہ کرلیا اور پاکستان جو اس سے بڑا ایٹمی سازوسامان رکھنے والا ملک ہے اُس کو نظرانداز کردیا۔ جس سے ایک بہت ہی خطرناک صورتحال نے جنم لے دیا ہے۔ چین کے عالمی عزائم میں وہ جنوبی چینی سمندر کے معاملات میں الجھا ہوا ہے تو امریکہ اُس کو نیچا دکھانے یا اُس کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے چینی سمندر کو اسلحہ و جنگی سازوسامان سے بھر رہا ہے مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ دو جنوبی ایشیائی ایٹمی طاقتوں کو امریکہ الگ الگ طریقوں سے نمٹ رہا ہے جس کی وجہ سے خود امریکہ کے ایٹمی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ پاکستان دُنیا کے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والا چوتھا بڑا ملک بن گیا ہے۔ پاکستان کو ایٹمی سپلائی گروپ تک رسائی دینے سے امریکہ نے انکار کردیا۔ اسی طرح سے آسٹریلین گروپ نے انڈیا کو تو رسائی دے دی ہے مگر پاکستان کو نہیں اور ویاناگروپ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ جب ایک ملک کوئی ایٹمی سامان خریدتا ہے یا ایسے آلات و مشینری خریدتا ہے جو ایٹمی ہتھیار بنانے کے کام آسکتے ہیں تو وہ سب کو مطلع کر دیتا ہے اور پھر کوئی ملک اُسے وہ آلات و مشینری نہیں دیتا۔
اسی طرح ایٹمی سپلائی گروپ کوئی ایٹمی سازوسامان بیچنے کی اجازت نہیں دیتا اور ایسے آلات و مشین بھی نہیں دیتا جو دہرے مقاصد کے کام آتے ہوں یعنی وہ ایٹمی اسلحہ بنانے میں بھی کسی طرح استعمال ہوسکتے ہوں۔ یہ ایک قسم کا اجارہ داری کا گروپ بن گیا جو دُنیا پر اجارہ داری کا سلسلے کو جاری رکھنے میں اِن لوگوں نے اب تک اپنی روش تبدیل نہیں کی ہے۔ البتہ انڈیا کو اپنے اجارہ دار گروپ میں ضرور شامل کرلیا ہے۔ ایران پر بھی سخت دباؤ ہے اور ہمیں ایران سے گیس بھی لینے نہیں دیتے، عربوں سے بھی دباؤ ڈلواتے ہیں تو خود بھی پابندیوں کی دھمکیاں دیتے ہیں اگرچہ پاکستان اِن پابندیوں کو برسوں سے سہہ رہا ہے مگر ایٹمی پروگرام کے معاملے میں اس نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ نیوکلیئر سپلائی گروپ میں انڈیا کی شمولیت کا راستہ پاکستان نے ویانا میں روک دیا تھا اور اُسے ویٹو کردیا تھا مگر آصف علی زرداری نے امریکہ کے دباؤ میں آکر انڈیا کے لئے یہ راستہ کھول کر پاکستان کی کوئی خدمت نہیں کی البتہ شاید اُن کو این آر او کے تحت حکومت دلوانے کا صلہ دے دیا ہو، مگر یہ فیصلہ پاکستان کے خلاف جائے گا۔ انڈیا اس وقت امریکی عزائم کی تکمیل کا ایک بڑا پہیہ بن کر سامنے آیا ہے۔ جس سے اس خطہ کو مزید خطرات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ انڈیا بالادست ملک بننے کے لئے جو کچھ کرے گا پاکستان اس کے ردعمل میں اپنی سی کوشش جاری رکھے گا اور یہ نہیں ہونے دے گا کہ پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے چھوڑ دیا جائے اور انڈیا آگے بڑھتا چلا جائے، سارے اجارہ دار ملک اُس کی پذیرائی کریں اور پاکستان ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہے۔ انڈیا نے غیرجانبدار ملکوں کی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی اور اب وہ سب سے جانبدار ملک بن کر ابھرا ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ خطہ میں امن اور شانتی صرف اسی صورت کامیاب ہوسکتی ہے جب خطہ کے ممالک پاکستان، ایران، روس، چین اور دیگر ممالک افغانستان میں امن قائم کریں، ایران کے خلاف پابندیاں ختم کریں ۔ امریکہ اُسی صورت یہاں سے عزت و آبرو کے ساتھ نکل سکتا ہے جب امریکہ پاکستان کے تحفظات کا خیال رکھے اور اگر وہ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے یا افغانستان کو بے انتظام چھوڑ کر جانے کا ارادہ رکھتا ہے جیسا کہ سوویت یونین نے کیا تھا تو وہ اِس خطہ کیلئے ہی نہیں خود امریکہ اور سارے عالم کے لئے سخت نقصان دہ ہوگا۔ افغانستان میں قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوگا تو پاکستان میں دہشت گردی عروج پر پہنچ جائے گی جس سے خطہ کے دوسرے ممالک بشمول انڈیا بھی اس کی زد میں آجائیں گے یہ امریکہ کے لئے کوئی سودمند نہیں ہوگا کیونکہ انڈیا بھی عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا اور اتنی تیزی سے ہوگا کہ جس کا تصور بھی امریکہ کے ذہن میں نہیں ہوگا۔
اس لئے امریکہ افغانستان سے ذمہ دارانہ طور پر نکلے اور پاکستان کو ایٹمی طاقت تسلیم کرے اور اُس کے ساتھ امتیازی سلوک بند کرے۔ ایک غریب یا تنگدست اور عدم استحکام کا شکار ایٹمی ملک پاکستان شمالی کوریا سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔ یہ بات اب خواب ہوگئی ہے کہ امریکہ ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کو اٹھا کر لے جائے، چاہے اُس کی سریع الحرکت فوج افغانستان میں بیٹھی ہو یا امریکہ کے ٹیٹوزدہ بلیک واٹر کے افراد پاکستان کے فضائی اڈوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں یا سفارت کار بھی سریع الحرکت فوج کے افسران کو لگا دیں۔ پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کا ایک بہترین نظام رکھتا ہے اور ان کے تحفظ کا بھرپور عزم بھی رکھتا ہے۔ یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ ہمیں دوست بنائے یا ہمیں کمزور کرنے کی کوشش کرے۔
تازہ ترین