• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل)کا قانون ایسے افراد کو بیرون ملک فرار ہونے سے روکنے کے لئے ہے جن کے خلاف سنگین اخلاقی و مالی الزامات کے تحت تحقیقات و تفتیش ہو رہی ہو اور خدشہ ہو کہ وہ سزا سے بچنے کے لئے غیر قانونی ذرائع اور راستے استعمال کر کے ملک چھوڑ سکتے ہیں۔ انصاف کے تقاضوں کی روشنی میں اسے ایک اچھا قانون تسلیم کیا گیا ہے جسے مزید موثر بنایا جا سکتا ہے سینیٹ آف پاکستان کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے اسے مزید بہتر بنانے کے لئے پیرکو سنیٹر رضا ربانی کی پیش کردہ ترامیم کا بل متفقہ طورپر منظور کر لیا جس کے تحت ٹھوس بنیاد کے بغیر کسی شخص کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جا سکے گا۔ محرک نے تجویز کیا کہ جس شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے اسے 24گھنٹے کے اندر فیصلے سے آگاہ کیا جائے۔ فیصلے کے خلاف اپیل کے لئے15دن کا وقت دیا جائے اور اگر حکومت اس مدت کے اندر اپیل کا فیصلہ نہ کرے تو اس کا حکم خود بخود کالعدم تصور ہوگا۔ وزارت داخلہ اور وزارت قانون نے بل کی مخالفت کی مگر بعد میں ارادہ بدل لیا اور بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا کمیٹی کے چیئرمین رحمن ملک نے اس موقع پر کہا کہ ای سی ایل میں کسی کا نام قانون کے مطابق ڈالا جائے نہ کہ ذاتی خواہشات کی بنا پر۔ یعنی جب تک کسی کے خلاف اس کے جرم کے بارے میں ٹھوس شواہد اور ثبوت نہ ہوں اسے بیرون ملک سفر سے نہ روکا جائے یہ رویہ صرف سیاسی یا کاروباری مخالفین کو زک پہنچانے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔ سینٹ میں ترمیمی بل لانے کی ضرورت غالباً اس بنا پر محسوس کی گئی کہ جعلی اکائونٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے کیس میں سپریم کورٹ کی قائم کردہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے جو رپورٹ تیار کی اس میں سیاستدانوں اور کاروباری حضرات سمیت 172شخصیات کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی اور اس مقصد کے لئے وزارت داخلہ کو خط بھی لکھ دیا چنانچہ وفاقی کابینہ نے ان کے نام اس فہرست میں ڈالنے کی منظوری دے دی جس پر ملک بھر خصوصاً سندھ میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ پیر کو سپریم کورٹ میں مذکورہ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس کارروائی پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ جے آئی ٹی کو ہم نے معاملے کی تحقیقات کے لئے کہا تھا لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے نہیں جے آئی ٹی نے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے لکھ کر اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے۔ انہوں نے بطور خاص سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ملک کے دوسرے بڑے صوبے کے چیف ایگزیکٹو کا نام ای سی ایل میں ڈال کران کی ساکھ کو بٹہ لگایا گیا۔ انہوں نے حکم دیا کہ نام ای سی ایل میں ڈالنے کا معاملہ واپس وفاقی کابینہ کو بھیجا جائے اور وہ از سر نو اس کاجائزہ لے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ جے آئی ٹی رپورٹ پرکوئی وزیر بیان نہ دے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ نے ایسا کرنے کی یقین دہانی کرائی اور سابقہ بیانات پر معذرت بھی کی۔ اس دوران سندھ میں گورنر راج اور صوبائی حکومت گرانے کی جوباتیں ہوتی رہیں چیف جسٹس نے اس پر بھی برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک صرف آئین کے تحت چلے گا ای سی ایل کی بنا پر حکومت گرانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سپریم کورٹ کے واضح بیانیے کے بعد ابر آلود سیاسی مطلع کافی حد تک صاف ہو گیا ہےمہذب معاشروں میں ای سی ایل جیسے قوانین کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کا کوئی تصور نہیں محض الزام کی بنا پر کسی کی شہرت کو داغدار کرنے کے لئے اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کوئی قانونی جواز ہے نہ اخلاقی۔ اس معاملے میں فیصلے سیاست سے بالاتر ہو کر خالص قانونی بنیاد پر اور غیر جانبدارانہ ہونے چاہئیں بلاجواز شہریت کی پابندی کسی کی حب الوطنی پر شک اور اس کے بنیادی حقوق پامال کرنے کے مترادف ہے حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا چاہئے۔نئے پاکستان میں فیصلے پسند ناپسند کی بجائے خالص میرٹ پر ہونے چاہئیں اور انصاف کے تقاضے ملحوظ رکھنے چاہئیں۔

تازہ ترین