• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست میں میاں نوازشریف کو مقدرکا سکندر کہا جاسکتا ہے۔ وہ ایک بار پنجاب کے وزیر خزانہ، دو مرتبہ وزیراعلیٰ اور تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ نواز شریف اقتدار کے جس نشیب و فراز سے گزرے، شاید ہی کوئی دوسرا سیاستدان گزرا ہو۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اُن کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اُنہیں اٹک قلعہ میں قید رکھا، عمر قید سنائی، 21سال کیلئے نااہل کیا، ان کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں ، نواز شریف نے ایک عشرے سے زیادہ جدہ اور لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ اور اُن کی پارٹی شدید مشکلات سے دوچار تھی اور مخالفین یہ پیش گوئیاں کررہے تھے کہ اُن کی پارٹی ہمیشہ کیلئے ختم ہوگئی مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ پوری طاقت سے واپس آئے ۔ وہ تیسری بار ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور اپنے دور حکومت میں ملک میں پھیلی دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا، موٹر ویز اور انفرااسٹرکچر کا جال بچھایا اور خصوصاً کراچی میں امن و امان بحال کیا جس سے ملکی معیشت میں بہتری آئی اور 13سال میں پہلی بار ملکی جی ڈی پی گروتھ 5.8 تک جاپہنچی۔ اگر یہ کارکردگی کسی دوسرے ملک میں کسی شخص نے انجام دی ہوتی تو یقینا اُسے ہیرو کا درجہ دیا جاتا مگر پاکستان کی سیاست بڑی غیر یقینی اور ظالم ہے ۔ وہ ستمبر 2017ء سے اب تک تقریباً 165 مرتبہ عدالتوں کے چکر لگاچکے ہیں جبکہ اس اثناء میں اُنہیں جیل میں رہتے ہوئے اپنی اہلیہ کی وفات کے غم سے بھی گزرنا پڑا ہے۔ آج ایک بار پھر مخالفین اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ نواز شریف کا دور ختم ہوچکا مگر یہ ماننا پڑے گا کہ تمام تر صعوبتوں اور مشکلات کے باوجودوہ جمہوریت کی بالادستی کیلئے دی گئی قربانیوں کی بدولت اُن کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو یہ یقین ہے کہ جس طرح اعلیٰ عدالتوں نے نواز شریف کیخلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا، اسی طرح باقی تمام الزامات سے بھی باعزت بری ہوجائیں گے۔

العزیزیہ ریفرنس، جس میں احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو 7سال قید، 25ملین ڈالر (تقریباً ساڑھے تین ارب روپے) جرمانہ اور 10سال تک کسی بھی عوامی عہدے کیلئے نااہل قرار دیا ہے، میں نواز شریف پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے سعودی عرب میں جلاوطنی کے دوران پاکستان سے غیر قانونی طور پر رقم منتقل کرکے العزیزیہ اسٹیل ملز قائم کی اور کمپنی سے منافع حاصل کیا۔ نواز شریف کے بقول العزیزیہ اسٹیل ملز 2001ء میں اُن کے والد میاں محمد شریف نے قائم کی تھی جس کے انتظامی امور اُن کے صاحبزادے حسین نواز چلارہے تھے اور اپنے بیٹے کے کاروبار سے اُن کا کسی قسم کا لین دین نہیں تھا۔ نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کا بھی یہ موقف ہے کہ اُن کے دادا میاں محمد شریف نے اُنہیں العزیزیہ اسٹیل ملز قائم کرنے کیلئے رقم فراہم کی تھی جبکہ اسٹیل ملز چلانے کیلئے کچھ سرمایہ سعودی عرب سے لیا گیا تھا۔ اس طرح نیب، العزیزیہ ریفرنس میں عائد کئے گئے اپنے الزامات اور پاکستان سے بیرون ملک رقوم کی منتقلی کے کوئی ثبوت و شواہد فراہم نہ کرسکی۔

جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب نواز شریف اور اُن کی فیملی کو سعودی عرب جلاوطن کیا گیا تو یہ فیملی اگر چاہتی تو جلاوطنی کے دوران سعودی رائل فیملی کی مراعات پر گزارہ کرسکتی تھی مگر اُن کے ضمیر نے یہ گوارہ نہیں کیا اور سعودی رائل فیملی کی دی گئی مراعات پر گزارہ کرنے کے بجائے شریف فیملی نے گزراوقات کیلئے سعودی عرب میں کاروبار شروع کیا جو شریف فیملی کا جرم ٹھہرا۔

مخالفین اور نیب کا یہ تاثر درست نہیں کہ نواز شریف نے اپنی دولت کرپشن سے حاصل کی بلکہ پاکستان کے عوام یہ جانتے ہیں کہ سیاست میں آنے سے قبل نواز شریف کا شمار ملک کے بڑے بزنس مینوں میں ہوتا تھا اور شریف فیملی کی اتفاق فائونڈری پاکستان کی بڑی صنعتوں میں شمار کی جاتی تھی۔ یہ فیملی لاہور کے پوش علاقے میں رہائش پذیر تھی اور 1960ء میں اس علاقے میں شریف فیملی کے 40کنال پر مشتمل 10 گھر تھے جن کی مالیت آج اربوں روپے ہے۔ نواز شریف کے ساتھ کرکٹ کھیلنے والے دوست بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ نواز شریف کرکٹ کھیلنے اسپورٹس کار میں آتے تھے۔ اگر نواز شریف کرپٹ ہوتے تو بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد امریکی صدر بل کلنٹن کی ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض 3ارب ڈالر کی پیشکش نہ ٹھکراتے بلکہ نواز شریف یہ پیشکش قبول کرکے رقم کا کچھ حصہ اپنے لئے حاصل کرسکتے تھے مگر انہوں نے امریکی پیشکش ٹھکرا کر تمام تر مخالفتوں کے باوجود ایٹمی دھماکے کئے اور پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنایا۔

آج میاں نواز شریف اور اُن کے بھائی مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف پابند سلاسل ہیں جبکہ (ن) لیگ کی دوسری لیڈرشپ کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کی قیادت پر بھی جے آئی ٹی رپورٹ میں سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں اور حکومتی وزراء سندھ میں گورنر راج کی پیش گوئیاں کررہے ہیںجس سے یہ تاثر ابھرررہا ہے کہ حکومت ملک میں ون یونٹ اور ون پارٹی فارمولے پر عمل پیرا ہے جو ملکی مفاد کیلئے قطعاً درست نہیں۔ کسی بھی ملک میں جمہوریت کے پھلنے پھولنے میں اپوزیشن جماعتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور اقتدار برقرار رکھنے کیلئے اپوزیشن جماعتوں میں توڑ پھوڑ کرنا غیر جمہوری عمل تصور کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ لیڈروں کو جیل بھیجنے کا عمل جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہے۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے احتساب ایک مثبت قدم ہے اور ملک کی تمام سیاسی و جمہوری قوتیں اس بات پر متفق بھی ہیں کہ احتساب بلاامتیاز ہو اور بدعنوان افراد سے سختی سے نمٹا جائے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ احتساب پر سیاسی انتقام کا الزام نہ آنے پائے، اس کی شفافیت اور غیرجانبداری پر بھی کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین