• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر کوئی کسی جگہ 2013ء کے عام انتخابات کو ملتوی کرانے کا سوچ رہا ہے یا پلان بنا رہا ہے تو وہ ملک کا خیر خواہ نہیں بلکہ وطن عزیز جو پہلے ہی بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے کو مزید گمبھیر صورتحال میں دھکیلنا چاہتا ہے ۔ الیکشن ملتوی کرنے یا کرانے کی باتیں ہر انتخابات سے قبل ہوتی ہیں جس کی ایک وجہ پاکستان کے مخصوص حالات ہیں ۔2007ء میں بھی ایسا ہی ہوا مگر باوجود اس کے کہ بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا الیکشن پھر بھی مقررہ وقت پر ہی ہوئے جو کہ یقیناایک قابل ستائش عمل تھا۔ اگرچہ نون لیگ کے سینیٹر ظفر علی شاہ کی چھٹی حس کہتی ہے کہ آئندہ انتخابات دیئے گئے وقت پر نہیں ہوں گے ہمیں یقین ہے کہ فیصلے کرنے والی قوتیں ایسا نہیں کریں گی کیونکہ الیکشن کا التوا بے شمار مسائل کو جنم دے گا۔ اپوزیشن کی جماعتیں ہر صورت انتخابات مقررہ وقت پر چاہتی ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابات دیئے گئے وقت کے مطابق ہونا بے حد ضروری ہے۔ وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کہتے ہیں کہ آئین کے مطابق الیکشن ایک سال تک ملتوی کئے جاسکتے ہیں مگر وہ ان کا مقررہ وقت پر انعقاد کا ہی مشورہ دیں گے۔ اس طرح کے ذمہ دار عہدوں پر فائز حضرات کو ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ وہ انتخابات کے وقت پر ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔ وہ تمام عناصر جو الیکشن کو موخرکرانے کی خواہش رکھتے ہیں یا ایسی کوششوں میں سرگرم ہیں کو آزاد عدلیہ کی موجودگی بھی مد نظرضرور رکھنی چاہئے جو کسی صورت بھی ایسے کسی اقدام کو مسترد کر دے گی۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ انتخابات صرف ملکی خانہ جنگی کی صورت میں موخر ہو سکتے ہیں۔ کوئی کسی غلط فہمی میں نہ رہے اب ایسی سازشوں کا دور گزر چکا ہے۔ ایسی سوچ رکھنے والوں کو ملک کو جمہوری سفر میں آگے لے جانے کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔
ملک کی امن وامان کی صورت پچھلے دو عام انتخابات خصوصاً2008ء کے الیکشن کے موقع پر آج سے قطعاً مختلف نہیں تھی ۔اس وقت بھی دہشت گردی زوروں پر تھی اور سیاسی افراتفری موجود تھی بلکہ اب توانتہائی تسلی بخش بات یہ ہے کہ ایک حقیقی جمہوری حکومت مارشل لا کی چھتری کے بغیر اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر رہی ہے۔ اس وقت ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ “ جیسے نعروں کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی کوئی گنجائش ہے۔ ایسے نعرے لگانے والے کئی سال سے ملک سے باہر رہ کر مزے کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ نئے انتخابات کے چند ماہ قبل انہیں اچانک ریاست کا خیال آگیا۔ وہ ایک عرصہ سیاست کے میدان میں بھی رہے اور صرف ایک بار ہی قومی اسمبلی کی ایک سیٹ جیت سکے ۔ ان کی عوامی تحریک سیاست میں کچھ مقام پیدا نہ کر سکی ۔ اب وہ ساری سیاست کو ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا رول سوائے مہمان اداکار کے کچھ نہ ہو گا اور اگر وہ الیکشن موخر کرانا چاہتے ہیں تو وہ اس میں بھی کامیاب نہیں ہوں گے ۔پاکستان کی کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت نے ان کے شوشے کی حمایت نہیں کی ۔ یہ ان کی سولو فلائٹ ہے، معلوم نہیں کہ یہ ان کی ذاتی سوچ ہے یا وہ کسی کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ حضرات کراچی کے حالات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ وہ انتخابات کے التوا کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کراچی میں ووٹروں کی تصدیق اور نئی حلقہ بندیوں کے خلاف ہے جس کا حکم عدالت عظمیٰ نے دیا ہے۔ ٹھوس خدشات موجود ہیں کہ کراچی کی امن وامان کی صورتحال بہت خراب ہو سکتی ہے جس کا مظاہرہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو سپریم کورٹ کی طرف سے توہین عدالت کا نوٹس ملنے کے ایک روز بعد ہوا جب کراچی حیدر آباد اور سندھ کے کچھ دوسرے شہر ہوائی فائرنگ سے گونج اٹھے  خوف وہراس پھیل گیا اور معمولات زندگی معطل ہو گئے ۔ ایم کیو ایم نے اس فائرنگ کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم اسی روز الطاف حسین کے حق میں مظاہرے کئے گئے جس سے سب کچھ صاف ظاہر ہو رہاتھا۔ پچھلے پانچ سال میں جتنی بڑی تعداد میں کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے وہ پاکستان کی تاریخ میں ایک قابل مذمت ریکارڈ ہے۔ یہ سلسلہ زور شور سے جاری و ساری ہے۔ اگر بدتر امن وامان کی وجہ سے کوئی بھی صوبائی حکومت اس عرصہ میں برطرف کی جانی چاہئے تھی تو وہ سندھ حکومت تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا لہٰذا اب یہ حالات اور ایم کیو ایم کا ووٹروں کی تصدیق اور نئی حلقہ بندیوں کے خلاف ممکنہ احتجاج کو انتخابات کے التوا کا بہانا کسی صورت بھی نہیں بنایا جاسکتا۔ موجودہ حکومت کے اعمال نامے میں کراچی میں کشت و خون سب سے بڑا سیاہ دھبہ ہے ۔ بے حسی عروج پر رہی ۔ نہ ہی وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومت کی طرف سے ایک بھی ایسا اقدام کیا گیا جس سے یہ ثابت ہو کہ حکمران کراچی کے حالات کو ذرہ برابر بھی ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ صرف اس چیز کا انتظار کیاجاتا رہا کہ مختلف گروہ ایک دوسرے کو مار مار کر ختم ہو جائیں گے اور اس طرح حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ایم کیو ایم صرف پچھلے پانچ سال بلکہ مشرف کے پورے دور میں حکومت کا بہت بڑا حصہ رہی ہے تو اس کا یہ کہنا کہ اس کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیاہے چہ معنی دارد ۔ ایک ہی وقت میں اس کے نمائندے وفاقی اور صوبائی کابینہ میں شامل ہیں اور جس بات کا سب سے زیادہ شور مچا رہی ہے وہ کسی بھی عدالتی فیصلے میں موجود ہی نہیں ہے۔ایم کیو ایم طیش میں ہے کہ جسٹس انور ظہیر جمالی نے اس کے کراچی میں سیاسی اثرورسوخ کے بارے میں اجارہ داری (مناپلی) کا لفظ استعمال کیوں کیا ہے۔ اکثر و بیشتر ججوں کے ریمارکس ان کے فیصلوں سے مختلف ہوتے ہیں۔اس کو اصل غصہ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے پر ہے جس میں اس نے کراچی میں فوج کی مدد سے ووٹروں کی تصدیق اور نئی حلقہ بندیوں کا حکم دیا اور الطاف حسین کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا۔
نوٹ : کم بولنے اور کارکردگی کی وجہ سے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اپنے پیشرو سے کافی بہتر لگ رہے تھے مگر انہوں نے بھی ایسا کام کر دیا ہے جس سے انہیں سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔کیا ضرورت تھی کہ اپنے داماد کو ورلڈ بنک کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر لگا دیا گیا۔ چند سالوں میں ہی داماد صاحب گریڈ اٹھارہ سے اکیس میں چلے گئے، باقی سرکاری افسروں کو بھی ایسے ہی سسروں کی تلاش ہو گی۔اب سپریم کورٹ نے اس تقرری کا ازخود نوٹس لے لیا ہے نتیجہ کیانکلتا ہے اگلے چند ہفتوں میں معلوم ہو جائے گا۔
تازہ ترین