• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان جب غربت، جہالت، ناانصافی اور کرپشن کیخلاف جہاد کو سالِ نو کا عزم قرار دیتے ہیں تو بات اس محدود مفہوم میں نہیں ہوتی کہ وطنِ عزیز کو صرف مذکورہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔ دو دہائیوں کے دوران سرزمینِ پاک کو غیر ملکی ایجنٹوں، در اندازوں اور دہشت گردوں کے ذریعے جس انداز سے تیسری عالمی جنگ کے سب سے بڑے تھیٹر میں تبدیل کرنے کا ہر ممکن جتن کیا گیا، اس میں تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے، تنصیبات اور اسٹرٹیجک اہمیت کی چیزوں کو نشانہ بنانے، سیکورٹی اداروں اور عام لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر عدم تحفظ کی کیفیت پیدا کرنے، معیشت کو کھوکھلا کرنے اور ادارہ جاتی ڈسپلن ختم کرنے کی بہت سی کوششیں سامنے آئیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر ان سب سے بھی خاصا پہلے تعلیمی نظام ڈھانے، سماجی ڈھانچہ زمیں بوس کرنے سمیت بہت سا کام ایسے عناصر کے ہاتھوں انجام پا گیا جو اپنے دعوئوں کے بموجب بھی اور اصولی طور پر بھی تمام توانائیاں ملکی بقا، ترقی، استحکام اور خوشحالی کے لئے بروئے کار لانے کے پابند تھے۔ موجودہ حکومت کو ملک جن حالات میں ملا، وہ اس ایجنڈے کی اختتامی منزل کی طرف اشارہ کرتا محسوس ہو رہا تھا جو بعض ویب سائٹس میں پچھلی صدی کے آخری برسوں میں پیش کیا گیا تھا۔ باری تعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانوں کو جو مملکت 14؍اگست 1947ء کو عطا فرمائی، وہ تمام مشکلات، چیلنجوں، سازشوں اور ریشہ دوانیوں پر بڑی حد تک قابو پا چکی ہے۔ آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد کے بعد دہشت گردوں کی جو بچی کھچی ٹکڑیاں مختلف سمتوں سے حملہ آور ہیں، ان کا بھی دمِ آخر نظر آ رہا ہے؛ تاہم مختلف سمتوں میں مملکت کے لئے مسائل کے ایسے پہاڑ کھڑے نظر آ رہے ہیں جنہیں عبور کرنے کے لئے غربت، جہالت، ناانصافی اور کرپشن پر قابو پانے کی تدابیر ضروری ہیں۔ یہ اہداف موجودہ حالات میں خاصے مشکل معلوم ہوتے ہیں مگر جب ان کے حصول کے لئے احتیاط سے پیش قدمی کی جائے گی تو یقیناً پاکستان کے سنہری مستقبل کی منزلیں قریب آتی چلی جائیں گی۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ ملک جس کے تعلیمی اداروں کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے مشرق وسطیٰ سمیت کئی خطوں کے طلبہ پاکستان میں تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے تھے، جس ملک کی قومی فضائی کمپنی کی مثالی کارکردگی کو دنیا بھر میں سراہا جاتا تھا، جس ملک میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والا اسٹیل ملز اپنے معیار اور آمدنی کے اعتبار سے ممتاز حیثیت کا حامل تھا اس مذکورہ کے ادارے آج مالی خسارے کے باعث زبوں حالی کی تصویر بنے نظر آ رہے ہیں۔ رشوت اور سیاسی غلط بخشیوں نے تمام ہی اداروں میں میرٹ کو پامال کر کے ایسے لوگوں کا بوجھ بڑھا دیا جن کی مطلوب کاغذی اہلیت کے تقاضے مصنوعی طور پر پورے کرنے کے لئے ایک طرف جعلی ڈگریوں کے کاروبار نے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچایا تو دوسری جانب متعدد ادارے تباہی سے دوچار ہو گئے۔ ہماری ریلوے بوگیوں اور انجن سازی کی صنعت سے لے کر جہاز سازی اور بحری جہازوں کی مرمت کے کاروبار تک کی تفصیلات آج قصۂ ماضی لگتی ہیں۔ منگل کے روز وزیراعظم عمران خان نے چیئرمین پی آئی اے کو ہدایت کی ہے کہ 414.3؍ارب روپے کے خسارے کی شکار قومی ائیر لائن کو منافع بخش بنانے کا جامع بزنس پلان تیار کریں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سونے، چاندی اور تانبے کی دولت بخش کانیں بھی ماضی کے بعض فیصلوں کے نتیجہ میں ہرجانوں کی صورت میں تاوان ادا کرنے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ یہ جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ معدنیات اور بجلی کی پیداوار سمیت غیرملکی کمپنیوں سے معاہدوں میں ایسے سقم کیوں رہ جاتے ہیں کہ ثالثی یا عدالتی کارروائی میں پاکستان کو اربوں ڈالر کے جرمانے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ پاکستان جس اقتصادی بحران سے نکلنے کی جدوجہد میں مصروف ہے، بظاہر اندرونی سازشوں سمیت اس کی کئی جہتیں ہیں۔ ان سب جہتوں کے حوالے سے حکومت اور قوم کو پوری طرح چوکس رہنا ہو گا۔

تازہ ترین