• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند روز پہلے کی بات، دوست کامران شاہد کا ٹی وی پروگرام، بات سندھ، کرپشن، جے آئی ٹی سے ہوتی ہوئی جب العزیزیہ فیصلے پر پہنچی تو پروگرام میں شریک لیگی سیاستدان بول پڑا ’’دیکھ لو جی ایک اور فیصلہ میاں صاحب کیخلاف آگیا، ایک بار پھر سزا ہو گئی مگر ابھی تک کرپشن ثابت نہ ہو سکی‘‘ میں نے حیران ہو کر کہا ’’کیا کہا آپ نے، العزیزیہ فیصلے میں تو صاف لکھا ہوا، میاں صاحب نے کرپشن کی، بدعنوانی کے مرتکب ہوئے بلکہ نواز شریف، حسن، حسین تینوں نے مل کر بدعنوانی کی‘‘ لیگی صاحب بولے ’’بالکل بھی نہیں، میاں صاحب پہلے نااہل ہوئے کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لی، اس بار سزا ہو گئی کہ بیٹے سے ساڑھے 8لاکھ ڈالر لے لئے‘‘ میں نے کہا ’’حضور پہلی بات تو یہ کہ نااہلی ہوئی اقامہ، ملازمت اور تنخواہ ڈیکلیئر نہ کرنے پر، اس بار معاملہ ساڑھے 8لاکھ ڈالر کا نہیں، میاں صاحب تو حسین نواز کی ہل میٹل سے 88فیصد منافع مطلب سوا ارب وصول کر چکے اور ان پیسوں کی ہر ٹرانزیکشن بلکہ چیک نمبرز تک موجود اور العزیزیہ فیصلے میں واضح کہ میاں صاحب بدعنوانی کے مرتکب ہوئے‘‘ لیگی سیاستدان بولے ’’العزیزیہ فیصلے میں کہیں نہیں کہ میاں صاحب نے کرپشن کی‘‘ میں نے شدید حیرانی سے کہا ’’آپ نے فیصلہ پڑھا ہے‘‘ بولے ’’ہاں‘‘ میں نے کہا ’’کہیں لکھا نظر نہیں آیا کہ میاں صاحب نے کرپشن کی‘‘ اعتماد بھرے لہجے میں کہا ’’بالکل کہیں نظر نہیں آیا‘‘ میں نے بے بسی سے کامران شاہد کی طرف دیکھا، اب کامران شاہد نے ان سے کہا ’’آپ کو غلط فہمی ہو رہی، ایون فیلڈ فیصلے میں تو تھا کہ میاں صاحب نے کرپشن نہیں کی لیکن العزیزیہ فیصلے میں ہے کہ میاں صاحب نے کرپشن کی‘‘ لیگی سیاستدان نے دو ٹوک انداز میں کہا ’’غلط فہمی آپ دونوں کو، ایون فیلڈ نہ العزیزیہ، کسی فیصلے میں بھی نہیں کہ میاں صاحب نے کرپشن کی‘‘ میں اور کامران شاہد ایک دوسرے کو بے بسی سے دیکھتے رہ گئے، ہم اور کر بھی کیا سکتے تھے، خیر پروگرام ختم ہوا، کیمرے آف ہوئے، مائیک اترے، میں نے اُٹھتے ہوئے اپنے لیگی دوست سے کہا ’’آپ ایک بار پھر العزیزیہ فیصلہ پڑھیں‘‘ وہ میری بات کاٹتے ہوئے معنی خیز مسکراہٹ پھینک کر بولے ’’بھائی جان میں نے فیصلہ پڑھا ہے اور مجھے پتا کہ اس میں لکھا ہوا میاں صاحب نے کرپشن کی‘‘ پر تسی کجھ وی کر لو،، اساں نئیں جے مننا‘‘ یہ سننا تھا کہ میں نے فرطِ جذبات میں آگے بڑھ کر انہیں گلے لگا کر کہا ’’بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سجان اللہ، تسی وی گریٹ تے تہاڈے میاں صاحب وی گریٹ‘‘۔

اب آپ ہی بتائیں جہاں جھوٹ، دو نمبری، فراڈ کے اس دیدہ دلیری سے دفاع ہو رہے ہوں، وہاں بھلا سچ، جھوٹ کی کیا اہمیت، مزے کی بات تو یہ کہ ازلی و ابدی وفادار اپنے ان بڑوں کا دفاع کرے جا رہے جن سے خود اپنا دفاع نہیں ہو رہا، یہ بھی سنتے جائیے، میاں صاحب فلیگ شپ ریفرنس میں بری ہوئے مگر ٹیکنیکل بنیادوں پر، فیصلے میں لکھا ہوا کہ ’’گلف اسٹیل بیچ کر کمپنیاں بنانے کا دعویٰ بوگس، نواز شریف صاحب کے قوم سے خطاب کے مندرجات ناقابل قبول، جب کمپنیاں بن رہی تھیں تب حسن نواز کم عمر، اپنا ذریعہ معاش بھی نہ تھا، یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ فلیگ شپ میں 7لاکھ پاؤنڈ کی سرمایہ کاری نواز شریف کی ہو، لیکن چونکہ شواہد نامکمل لہٰذا میاں صاحب بری، لیگیوں کو چھوڑیں، پیپلز پارٹی کو دیکھ لیں، جے آئی ٹی رپورٹ کیا آئی کہ ضبط کا ہر بندھن ٹوٹ گیا، ذرا پی پی قیادت کے بیانات دیکھئے، اسلام آباد میں بہرے، گونگے، اندھے رہتے ہیں، وفاق کمزور کیا جا رہا، ملک کو ون یونٹ کی طرف دھکیلا جا رہا، اصل میں یہ سب اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کیلئے ہو رہا، ایف آئی اے روبوٹ بن چکا، نیب پارٹی بن گیا، سیاستدانوں کا چہرہ مسخ کیا جا رہا، جعلی جے آئی ٹی سے نہ ڈراؤ، نہ چھیڑو ورنہ ایک چنگاری سب جلا کر راکھ کر دے گی۔

کیا سطحی، بے معنی، مضحکہ خیز بیانات، کسی بااختیار سے سوال پوچھ لو، ایسی ایسی تھیوریاں کہ خدا کی پناہ، معاملہ اتنا سا کہ زرداری صاحب اور ان کے ساتھی لٹ مار کے مرتکب ہوئے ہیں یا نہیں، یہ مجرم نہیں تو ڈر کاہے کا، جے آئی ٹی کو جھوٹا ثابت کر دیں، کیا اٹھارہویں ترمیم، ون یونٹ کی باتیں، اٹھارہویں ترمیم وہی ختم کر سکے گا جس کے پاس اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ہو گی، جب کسی کے پاس دو تہائی اکثریت ہوئی، وہ ایسا چاہے گا تو حرج کیا، یہی جمہوری طریقہ، ون یونٹ الزام پر تو ہنسی آئی، دستور کے بنیادی ڈھانچے کو بدلا جا سکتا نہ پارلیمنٹ اجازت دے گی اور نہ سپریم کورٹ نے ایسا ہونے دینا، لیکن بات وہی کہ شریف خاندان سے سوال ہو تو جمہوریت خطرے میں بلکہ میاں صاحب نے تو یہ تک کہہ دیا ’’ملک میں جمہوریت نہیں بدترین ڈکٹیٹر شپ ہے‘‘ صاحب نے یہ تب کہا جب اپنے شاہد خاقان عباسی وزیراعظم، مرکز، پنجاب میں اپنی حکومتیں، اب زرداری صاحب اینڈ کمپنی سے سوال پوچھے گئے تو بات ون یونٹ تک جا پہنچی، سجان اللہ۔

خیر یہ سب تو چلتا رہے گا، ایک اہم بات،2019 چڑھ چکا، عمران خان کیلئے ایک بڑا چیلنج معیشت بحالی کا، معاشی صورتحال انتہائی ابتر، بلکہ معاشی کباڑہ ہی ہو چکا، جیسے یہ ٹھیک کہ اگر احتساب اب نہیں تو پھر کبھی نہیں، ویسے یہ بھی درست کہ2019 معیشت کے حوالے سے عمران خان، اسد عمر کیلئے ’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘ والا سال، اس سال کوئی معاشی سرا ہاتھ نہ آیا تو پھر حالات بہت خراب، آپ اندازہ لگائیں گزشتہ 6ماہ میں ایف بی آر کے مقرر کرد ہ ہدف سے ٹیکس آمدنی 184ارب کم رہی، 5مہینوں میں ڈالر 15روپے مہنگا ہوا، مطلب ایک روپیہ قرضہ نہ لے کر 15سو ارب بیرونی قرضے بڑھے جبکہ اندرونی قرضوں پر 240ارب کا اضافی سود الگ، زرمبادلہ کے ذخائر 20ارب ڈالر سے کم ہو کر 14ارب ڈالر تک آ گئے، گردشی قرضے ایک ہزار ارب سے بڑھ کر 1362ارب ہو گئے، ڈیوٹی اور ٹیکس بڑھانے بلکہ روپیہ ڈی ویلیو کرنے کے باوجود بھی نہ امپورٹ میں کمی ہوئی نہ ایکسپورٹ بڑھی، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک سمیت سب کہہ رہے، اگر یہی حال رہا تو ہماری معاشی ترقی مطلب مجموعی پیداوار 6فیصد سے سکڑ کر 3فیصد رہ جائے گی، اس کا مطلب ہوگا نئی نوکریاں نہ نئے کاروبار، 2018کا سال پاکستانی اسٹاک ایکسچینج کیلئے بدترین ثابت ہوا، پاکستانی اسٹاک ایکسچینج دنیا کی 5بدترین اسٹاک مارکیٹوں میں، ایک سال میں ساڑھے 3ہزار پوائنٹس گرے، مسلسل مندی دیکھ کر سرمایہ کار 53کروڑ 74لاکھ ڈالر کے شیئرز بیچ کر چلتے بنے، اسٹاک ایکسچینج کی ویلیو میں 22ارب ڈالر کی کمی ہوئی، آگے سنئے، پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ مستحکم سے منفی ہو چکی اور کریڈٹ ریٹنگ بی سے مائنس بی اور جس حساب سے حکومت قرضے لے رہی، اسی حساب سے قرضے لئے گئے تو اگلے 3سالوں میں 10ہزار ارب کے قرضے مزید چڑھ جائیں گے۔

یہ اپنی معیشت کی ایک جھلک، معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنا، بے شک ایک ہمالیائی چیلنج، بلاشبہ جہالت، ناانصافی، بدعنوانی جیسے مسائل بھی اہم، لیکن اگلے 12مہینوں میں معیشت قدموں پر کھڑی یا کم ازکم سیدھی نہ ہوئی، عام آدمی تک ریلیف نہ پہنچا تو یقین جانئے تبدیلی سے جڑے امیدوں کے دیے بجھنا شروع ہو جائیں گے اور اگر تبدیلی کے دیے بجھنا شروع ہوئے تو پھر وہ دیے پھر سے جلنا شروع ہو جائیں گے جن کی روشنی ہمیشہ اپنے اور اپنوں کیلئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین