• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ نقب زَنی کرنے والوں کو ہر دور میں ایسے سہولت کار میسر آجاتے ہیں جو گھر کے بھیدی بن کر لنکا ڈھاتے اور ’’لاڈلے‘‘ کہلاتے ہیں۔ ماضی بعید کے گڑے مُردے کیا اکھاڑنا، ماضی قریب کی بات ہے جب نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا تھا تو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اُنہی کے معاون و مددگار بن گئے جنہیں ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی دھمکیاں دیا کرتے تھے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جاتی امرا میں پاکستانی ہم منصب کے گھر ہونے والی شادی کی تقریب میں شرکت کی تو بلاول نے آزاد کشمیر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کو ’’مودی کا یار‘‘ قرار دیدیا۔ آصف زرداری میمو گیٹ جیسے اسکینڈل بھگت چکے تھے اور محلاتی سازشوں سے بخوبی واقف تھے مگر جب پاناما اسکینڈل کے بعد نواز شریف کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جا رہی تھی تو پیپلز پارٹی نے راہیں جدا کر لیں۔ نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر خوشیاں منائی گئیں۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کا مینڈیٹ چُرانے اور حکومت گرانے کا منصوبہ تیار ہوا تو آصف زرداری نے اپنا کندھا پیش کیا اور پھر لاہور میں ہونے والے جلسے کے دوران ببانگ دہل اس بات کا کریڈٹ بھی لیا۔ آصف زرداری مفاہمت کے بادشاہ کہلاتے ہیں مگر اُن دنوں انہوں نے جلسوں میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف جو لب و لہجہ اختیار کیا وہ شاید عمران خان جیسے مخالفین بھی نہ اپنا سکے۔ سینیٹ انتخابات کے موقع پر آصف زرداری ایک بار پھر ’’سہولت کار‘‘ کے طور پر سامنے آئے۔ اکثریتی جماعت ہونے کے ناتے چیئرمین سینیٹ لانا مسلم لیگ (ن) کا استحقاق تھا مگر جمہوریت دشمن قوتوں کو شکست دینے کیلئے پیپلز پارٹی کو یہ پیشکش بھی کی گئی کہ رضا ربانی کو دوبارہ چیئرمین سینیٹ کیلئے نامزد کر دیا جائے لیکن خوش فہمیوں کے مرضِ لادوا میں مبتلا آصف زرداری نے یہ پیشکش نہایت حقارت کیساتھ مسترد کر دی اور یوں ’’بادشاہ گر‘‘ یہ بازی بھی جیت گئے۔ انتخابی مہم شروع ہوئی تو صدر آصف زرداری نے ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسلم لیگ (ن) کو وفاق تو کیا پنجاب میں بھی حکومت نہیں بنانے دوں گا۔ سیاسی تجزیہ کار ان کا دعویٰ سن کر حیران رہ گئے اور چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ نبض شناس صحافیوں کا خیال تھا کہ وفاق میں نتائج جو بھی ہوں‘ پنجاب میں تو مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے میں کامیاب ہو ہی جائے گی اور بالفرضِ محال اگر پنجاب میں اَپ سیٹ ہوتا بھی ہے تو زرداری صاحب اس کا کریڈٹ کیسے لے سکتے ہیں؟ کیا پیپلز پارٹی پنجاب میں کوئی سرپرائز دینے والی ہے؟ پیپلز پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ دیکھتے ہوئے تو یہ بات ناممکن محسوس ہوتی ہے۔ تو پھر آصف زرداری کا یہ دعویٰ کیسے سچ ثابت ہو گا؟ انتخابات کے بعد یہ معمہ حل ہو گیا اور سب جان گئے کہ پیپلز پارٹی سیاسی بندوبست کی اس واردات میں شریکِ جرم تھی اور پی ٹی آئی کی جیت بھی دراصل پیپلز پارٹی کی کامیابی تھی، اس لئے آصف زرداری مسلم لیگ (ن) کی شکست کا کریڈٹ لینے میں حق بجانب تھے۔ انتخابی نتائج پر بیشتر سیاسی جماعتوں کو تحفظات تھے، مولانا فضل الرحمٰن، محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی سمیت کئی سیاسی رہنما انتخابی نتائج کو اتنی آسانی سے ہضم کرنے کو تیار نہ تھے۔ پارلیمنٹ کے بائیکاٹ پر بھی غور ہو رہا تھا مگر پیپلز پارٹی کی ڈھیلی ڈھالی پوزیشن کے باعث سب سیاسی جماعتوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ پارلیمنٹ میں عددی برتری کے اعتبار سے اپوزیشن بہت بہتر پوزیشن میں تھی، اسپیکر اور پھر وزیراعظم کے انتخاب میں پانسہ پلٹ سکتا تھا لیکن شاید پیغام یہ ملا تھا کہ کسی قسم کی مہم جوئی کی کوشش نہ کی جائے۔ صدرِ مملکت کے انتخاب کی نوبت آئی تو ایک بار پھر پیپلز پارٹی اپوزیشن جماعتوں کو طرح غچہ نکل گئی اور یوں حکومت سازی کے تمام مراحل کسی حیل و حجت کے بغیر مکمل ہو گئے۔ وقفے کے بعد ’’ڈریم کیچرز‘‘ کی فلم دوبارہ شروع ہوئی تو سینما میں بیٹھے تماشائی ہی نہیں، اداکار بھی گھبرا گئے۔ اسکرپٹ رائٹر نے کہانی کو ایک نیا موڑ دے کر ’’نوری نت‘‘ کے بعد ’’مولا جٹ‘‘ کو بھی وِلن بنا دیا ہے۔ ’’مولا جٹ‘‘ کا خیال تھا کہ ’’نوری نت‘‘ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کرنے کے بعد اسے کھلی چھٹی مل جائے گی مگر اب اسے معلوم ہوا ہے کہ یہ تو ایک ’’چال‘‘ تھی۔ اگر شکاری بیک وقت ’’مولا جٹ‘‘ اور ’’نوری نت‘‘ پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتا اور وہ ایکا کر لیتے تو سارا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جاتا۔ بہرحال فلمی دنیا سے واپس میدانِ سیاست کا رُخ کیا جائے تو صورتحال میں خاصی مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ ’’ایک زرداری سب پہ بھاری‘‘ کا خطاب پانے والے ’’خالص ترین‘‘ سیاستدان کو اب اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹنا پڑ رہی ہے تو ملال کے بجائے جلال اور اشتعال کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی موجودہ کیفیت اور بے چینی دیکھ کر مجھے تو اعزاز احمد آذرؔ کی نظم یاد آ رہی ہے۔

تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو، کوئی ستارہ سنبھال رکھنا

مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو تم اپنے گھر کا خیال رکھنا

اُجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی

اب اس میں اُگنے لگا اندھیرا تو جی میں کیسا ملال رکھنا

یہ دھوپ چھائوں کا کھیل ہے یاں، خزاں بہاروں کی گھات میں ہے

نصیب صبحِ عروج ہو تو نظر میں شامِ زوال رکھنا

تشویشناک اور فکر انگیز بات یہ ہے کہ ہماری بالغ نظر سیاسی قیادت جسے سویلین بالادستی کے قیام کیلئے ہو رہی جدوجہد کو لیکر چلنا ہے، وہ برسہا برس اس دشت کی خاک چھاننے کے بعد بھی دھوپ چھائوں کے اس کھیل کو نہیں سمجھ پائی۔ اگرحکومتوں سے نکالے جانے، جیلیںکاٹنے اور جلا وطن ہونے کے بعد بھی انہوں نے ماضی کے تلخ تجربات سے کچھ نہیں سیکھا اور ہر بار وقتی مفادات کی خاطرکسی کے ’’آلہ کار‘‘ اور ’’سہولت کار‘‘ بننے کو تیار ہو جاتے ہیں تو پھر جمہوریت کی مضبوطی کے خواب کیسے پورے ہوں گے؟ ممکن ہے ہماری جمہوری قیادت کے پاس کتابیں پڑھنے کا وقت نہ ہوتا ہو مگر یہ سب جانوروں سے متعلق معلومات دینے والے چینل جیسے نیشنل جیو گرافک، اینیمل پلانیٹ وغیرہ تو دیکھتے ہوں گے۔ جنگل میں کسی طاقتور اور خونخوار درندے سے بچنا ہو تو جانور کیا کرتے ہیں؟ ریوڑ، جُھنڈ یا جتھے کی شکل میں نکلتے ہیں تاکہ کسی کو حملہ کرنے کا موقع نہ ملے۔ اس طرح کے چینل دیکھنے میں بھی دلچسپی نہ ہو تو پاکستانی اور ہندوستانی فلمیں دیکھنے کا شوق تو ہو گا۔ نواز شریف بھی باذوق انسان ہیں اور آصف زرداری تو خود کسی دور میں سینما کے مالک ہوا کرتے تھے، اتنی سی بات تو کوئی بھی فلم بین سمجھ سکتا ہے کہ جب کسی نیٹ ورک کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تو سب سے پہلے دراڑ ڈالی جاتی ہے، غلط فہمیاں پیدا کرکے تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ ایک ایک کرکے نشانہ بنانے میں آسانی ہو۔ جب تک یہ بات سمجھ نہیں آئے گی ،شکاری یونہی ایک کو ختم کرنے کے بعد دوسرے کی چیخ و پکار سن کر ہنستا رہے گا۔

تازہ ترین