• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتدار میں آنے کے کچھ دن بعد عمران خان کی حکومت نے ایک ’’منی بجٹ‘‘ پیش کیا جو دراصل انکم ٹیکس کے نرخوں میں اضافے کا بل تھا۔ اس کے ذریعے کسٹم ڈیوٹیز بڑھا کر اور کچھ ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کرکے اضافی بالواسطہ ٹیکسز عائد کر دئیے گئے۔ وہ ٹیکس نہ دینے والے افراد کے لئے گھر اور گاڑیاں خریدنا بھی آسان بنانا چاہتے تھے لیکن اپوزیشن رہنمائوں، خاص طور پر میاں شہباز شریف اور میڈیا کی طرف ہونے والی شدید تنقید کے بعد پی ٹی آئی کو قدم پیچھے ہٹانا پڑا۔

اب صرف تین ماہ بعد حکومت ایک اور منی بجٹ پیش کرنے کے لئے پر تول رہی ہے۔ اس مرتبہ وہ دو سو بلین روپے کے مزید ٹیکسز وصول کرنا چاہتی ہے۔ موجودہ حکومت ایک مرتبہ پھر ٹیکسز میں اضافہ کیوں کر رہی ہے؟ کیا اس کی وجہ آئی ایم ایف کا دبائو ہے یا ایف بی آر کی ناکامی کہ وہ ٹیکس سال کے پہلے نصف میں مطلوبہ محصولات جمع کرنے میں ناکام رہا؟

اخبارات کی رپورٹس کے مطابق اس سال کے پہلے نصف میں محصولات میں برائے نام اضافہ ہوا۔ یہ گزشتہ سال سے صرف 2فیصد زائد تھا۔ 8.5فیصد افراطِ زر اور 4.5فیصد معاشی نمو کو دیکھتے ہوئے محصولات کے حجم میں گزشتہ سال کی نسبت کم از کم 13فیصد اضافہ ہونا چاہئے تھا۔ 2فیصد اضافے کا مطلب ہے کہ ممکنہ طور پر وصول کئے جانے والے ٹیکسز میں 11فیصد کمی واقع ہوئی۔

چونکہ پاکستانی کرنسی گزشتہ سال کے نسبت 30فیصد تک قدر کھو بیٹھی، اس لئے کسٹم ڈیوٹی اور بندرگاہوں سے حاصل کئے جانے والے دیگر محصولات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہونا چاہئے تھا۔ پاکستان میں نصف سے زیادہ ٹیکسز بندرگاہوں سے حاصل کئے جاتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکسز، جو بندرگاہوں سے نہیں آتے، میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہو گی۔ یہاں حکومت کو ایک مرتبہ دیکھنا چاہئے کہ اُس سے کیا غلطی سرزد ہو رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب گزشتہ چند ماہ کے دوران معاشی سرگرمیاں سست ہو چکی ہیں تو ٹیکسز جمع کرنا بھی بہت مشکل ہو جائے گا لیکن اگر حکومت مزید ٹیکسز عائد کرنے کی پالیسی پر گامزن رہی تو اس کے نتیجے میں معیشت مزید سست ہو جائے گی، محصولات کا حجم بھی کم ہو جائے گا۔ اس وقت جس چیز کی معیشت کو ضرورت ہے، وہ ٹیکسز میں مزید اضافہ نہیں بلکہ معاشی نمو کو تیز کرنے کے لئے کچھ ٹیکس کٹوتیوں اور ترغیبات کا اعلان کرنا ہو گا۔

بلاشبہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے حکومت پر بجٹ کا خسارہ کم کرنے کے لئے دبائو ڈال رہے ہوں گے۔ خسارہ کم کرنے کے دو طریقے ہیں۔ اخراجات کم کئے جائیں یا ٹیکسز میں اضافہ کیا جائے۔ تو پھر صرف ٹیکسز میں اضافے پر ہی زور کیوں؟ یقیناً مسلم لیگ (ن) کی ’’نااہل اور فضول خرچ ‘‘ معاشی ٹیم گزشتہ سال کے بجٹ کا کافی حصہ چھوڑ گئی ہو گی اور پی ٹی آئی کے سامنے کاٹنے کے لئے معقول کیک موجود ہے۔ پی ٹی آئی کی وہ کفایت شعاری کہاں چلی گئی جس کا اتنا چرچا تھا؟ حکومت چلانے کے اخراجات میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ مثال کے طور پر ایوانِ صدر چلانے کا یومیہ خرچہ 28لاکھ روپے ہے۔ اُنہیں مزید ٹیکسز عائد کرنے سے پہلے اپنے اخراجات میں کمی کرنا چاہئے۔

کساد بازاری کے اس دور میں محصولات میں اضافے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس سے صرف ہماری معاشی مشکلات میں اضافہ ہی ہو گا۔ اس وقت ہمیں ایک ایسی پالیسی کی ضرورت ہے جو ہمیں معاشی گراوٹ میں مزید دھکیلنے کی بجائے اس سے نکالنے میں مدد کرے۔ حکومت نے پہلے ہی معاشی سرگرمیوں کو جمود کا شکار کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ اُنہیں مزید غلطیاں کرنے سے گریز کرنا ہو گا۔ کولمبیا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک شہرت یافتہ ماہر سیاسیات و معاشیات پروفیسر اکبر زیدی صاحب نے حال ہی میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو ایک صحت مند معیشت ورثے میں ملی تھی، جس کی شرح نمو 5.8فیصد تھی اور اس کے رواں برس 6.2فیصد تک پہنچنے کے امکانات موجود تھے۔ مئی میں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت رخصت ہوئی تو معیشت میں امید کا پہلو بہت نمایاں تھا۔

اس کے بعد نگران حکومت قائم ہوئی تو معیشت صحت مند دکھائی تھی۔ اپنی مدت تمام کرنے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور نگران حکومت سمجھتی تھی کہ درآمدات سے کسی قدر ہاتھ کھنچنا اور روپے کی قدر کم کرنا ضروری ہے۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت نے تو آتے ہی ایک بھونچال سا برپا کر دیا۔

حکومت کا دعویٰ تھا کہ پاکستان میں سالانہ دس بلین ڈالر کی منی لانڈرنگ اور انتہائی ہوشربا کرپشن ہو رہی ہے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار خوفزدہ ہو گئے۔ اس شور شرابے کا ہی نتیجہ تھا کہ 2018ء میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے ہماری اسٹاک مارکیٹ سے 537ملین ڈالر نکال لئے۔ مزید بدترین بات یہ ہوئی کہ حکومت کرنسی کی قدر گھٹانے کی باتیں کرنے لگی۔ یہ ناقابل فہم ہے۔ وزرا کبھی بھی قبل از وقت ظاہر نہیں کرتے کہ کرنسی کی قدر کم ہونے جا رہی ہے لیکن ہم نے وفاقی وزرا کو ایسی باتیں کرتے سنا۔

یہ ایک قابلِ غور بات ہے۔ اگر وزرا ہی کہنا شروع کر دیں کہ کرنسی کی قدر کم ہونے جا رہی ہے تو کیا ہر کوئی ڈالر خریدنا نہیں شروع کر دے گا؟ اس کی وجہ سے روپیہ مزید دبائو کا شکار ہو گیا۔ اگر وہ چاہتے تو مستقبل میں کسی وقت روپے کی قدر کم کر دیتے لیکن اُنھوں نے ایسا اُس وقت کیا جب اُن کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر بہت کم رہ گئے تھے۔ حکومت نے ایسا تاثر دیا اور اس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے مارکیٹ میں بہت زیادہ بے یقینی پھیلی۔ اس کانتیجہ کیا نکلا؟ جب مئی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت رخصت ہوئی تو اسٹاک مارکیٹ کا حجم 66.2بلین ڈالر تھا لیکن اکتیس دسمبر 2018ء کو اس کا حجم گھٹ کر 47.75بلین ڈالر رہ گیا۔ اس طرح اسٹاک مارکیٹ میں 18.45 بلین ڈالر (یا اٹھائیس فیصد) کی کمی واقع ہوئی۔ یہ بات ذہن کو مائوف کر دیتی ہے کہ پانچ ماہ کے اندر اندر پی ٹی آئی حکومت کی وجہ سے مارکیٹ سے زر کا حجم ایک چوتھائی کم ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت صنعت کاروں سے کئے گئے وعدے بھی وفا نہیں کر رہی۔ مثال کے طور پر اس نے پنجاب میں ایکسپورٹ انڈسٹری کو بتایا کہ اسے گیس 6.5ڈالر فی mmbtu کے حساب سے ملے گی، لیکن جب بل آیا تو یہ 12.5ڈالر فی mmbtuکے حساب سے تھی۔ آج بھی اس پر عدالت میں کیسز جاری ہیں۔ اس دوران کسی کو نہیں پتا کہ اس کی پیداواری لاگت کم ہو گی یا زیادہ۔ اس غیر یقینی صورتحال کے نتیجے میں نومبر 2018ء میں ہونے والی برآمدات میں نومبر 2017ء میں ہونے والی برآمدات کی نسبت تیس فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔

پی ٹی آئی حکومت نے ہر وہ کام کیا ہے جو ایک حکومت کرتی جو مارکیٹ کو گراوٹ کا شکار کرنا چاہتی ہو۔ اور یہ حکومت اپنی اس کوشش میں کامیاب رہی ہے۔ ہماری شرح نمو 6.25فیصد سے کم ہو کر 3فیصد تک رہ چکی ہے۔ ذرا دیکھئے گا کہ آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت کے بارے میں مارچ 2018ء میں کیا کہتا تھا اور اس کا اب کیا کہنا ہے۔ یقیناً آئی ایم ایف کو تمام صورتحال کا علم ہے۔ وہ ہمارے موجودہ خسارے کو بھی جانتا ہے۔ مارچ میں پاکستان کے بارے میں رجائیت آمیز تاثر کیوں تھا؟ اب کیا ہوا ہے؟ کیا تبدیلی واقع ہوئی؟

(صاحبِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین