• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اور خودکش دھماکہ ہوا۔ صوبائی وزیر بشیر بلور اور کئی دوسری قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ اس واقعہ کے ساتھ ہی ٹی وی چینلز میں یہ پرزور مطالبہ کیا جانے لگا کہ بہت ہو گیا اب شمالی وزیرستان میں فوری ملٹری آپریشن شروع کر دینا چاہیے اور اچھے طالبان اور بُرے طالبان (Good Taliban and Bad Taliban)کی تفریق کیے بغیر سب کو ملیا میٹ کر دینا چاہیے۔ کچھ تجزیہ کار وں کا خیال تھا کہ بہت ہو چکا اب اس دہشتگردی کے اسباب ( root cause)کے طور پر امریکا کی دہشتگردی کے خلاف جنگ، ڈرون حملوں اور امریکا نواز پالیسیوں جیسے کسی بہانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ سیاسی لیڈروں نے اس واقعے کی سخت ترین الفاظ مین مذمت کی جبکہ کچھ سیاسی رہنماؤں نے اس عہد کا اظہار کیا کہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اسی انداز میں اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے رہیں گے اور یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک پاکستان میں ایک بھی دہشت گرد باقی ہے۔کچھ ٹی وی اینکرز تو اس قدر جذباتی ہو گئے کہ اُن کے بس میں نہ تھا کہ شمالی وزیرستان پر ملٹری آپریشن کروا کر مسئلہ کو فوری حل کر دیا جائے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے رہنماجو بات چیت اور گزشتہ دہائی سے جاری امریکا نواز پالیسیوں کو بدلنے کی بات کررہے ان کی باقاعدہ ڈانٹ ڈپٹ کی گئی۔ اس ڈانٹ ڈپٹ میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو بھی کوسا جاتا رہا۔
یہ سب کچھ پاکستان میں اس وقت ہو رہا تھا جب پاکستان کو اپنی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جھونکنے والے امریکا بہادر کی طرف سے پیرس میں افغان حکومت اور طالبان اور دوسرے جہادی گروپوں کے درمیاں مذاکرات کو خوش آئند قرار دیا اور اس توقع کا اظہار کیا گیا کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔یہ امریکی بیان سرکاری طور پر امریکی دفتر خارجہ (US State Department) نے جاری کیا۔اپنی تمام تر طاقت، دولت، جدید اسلحہ اور بہترین تربیت یافتہ فوج کے باوجود امریکا افغانستان میں طالبان کا مقابلہ نہ کر سکا۔ منہ کی کھانے کے بعد امریکا اب افغانستان میں طالبان سے بات چیت کوبہتری کے لیے ایک امید تصور کرتا ہے مگر پاکستان پر اُس کا دباؤ ہے تحریک طالبان پاکستان سے بات بھی نہ جائے اورشمالی وزیرستان میں آپریشن بھی کیا جائے تاکہ امریکا مخالف مگر پاکستان دوست پاکستانی اور افغان جہادیوں اور مجاہدین بھی تحریک طالبان پاکستان کی طرح پاکستان کی خلاف ہی اُٹھ کھڑے ہوں۔پاکستان میں موجود ایک چھوٹا مگر با اثر طبقہ اچھے طالبان اور جہاد جیسے دینی فرائض کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اپنے اسلام مخالف نظریات کی وجہ سے وہ اُن بنیادی وجوہات اور اسباب کو سننے کے لیے تیار ہی نہیں جن کی وجہ سے گزشتہ دس سالوں سے پاکستان میں دہشتگردی، خودکش دھماکوں ، فوج، پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد اوراہم دفاعی تنصیبات پر حملوں کا ایک سلسلہ چل نکلا جس کے بارے میں ماضی میں کوئی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہمیں امریکی دباؤ سے نکل کر ان وجوہات اور اسباب کو سمجھنا ہے جن کی وجہ سے ہم اس حالت کو پہنچ گئے کہ ہمارے ہی لوگ ہمیں مار رہے ہیں۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ اسلامی سوچ یا دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں پاکستان میں دہشتگردی کے خاتمہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ 9/11 کے بعد کبھی اسلامی ذہن رکھنے والوں کی سنی ہی نہیں گئی۔ جنرل مشرف کی اپنائی گئی امریکا نواز پالیسیاں آج بھی جوں کی توں اپنی جگہ موجود ہیں۔ اب تک کئی ملٹری آپریشن ہو چکے، امریکا کی ہر جائز و ناجائز بات سنی گئی، چالیس ہزار سے زیادہ پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے، ہزاروں فوجی اور پولیس اہلکار دہشتگردی کا نشانہ بن چکے مگر یہ سب کچھ کرگزرنے کے باوجود امن بحال ہوا اور نہ مستقبل میں کوئی ایسی امید نظر آتی ہے۔ بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ دہشتگردی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہفتہ کے روز بشیر بلور اوراُن کے ساتھ موجود کچھ دوسروں افراد پر انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت دہشتگرد حملہ سے ہمیں اپنی سوچ اور پالیسی پر غور کرنا چاہیے۔ یہ کیسی جنگ ہے جس میں ہمارے ہی لوگ مرتے ہیں؟؟ یہ کیسی دانش ہے کہ ہم اس بات کو سمجھے بغیر کہ آخر کیوں ہمارے ہی بچے ہمیں ہی خودکش بمبار بن کر مار رہے، ہم بات چیت اور پر امن حل کی بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ ہم کیوں نہیں سوچتے کہ آخر ایسا ہوا کیا کہ ہمارے ہی اپنے لوگ دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل کر اپنے ہی گھر کو تباہ کر رہے ہیں۔ مشرف کی اسلام مخالف اور امریکا نواز پالیسیوں کو بدلے بغیر ہم کیسے امن قائم کر سکتے ہیں؟؟ یہ ایک ایسی جنگ ہے جس کے خاتمہ کے لیے پہل حکومت کو کرنا پڑے گی اوراپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
تازہ ترین