• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہمند ڈیم کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب، جس کے لئے اس ماہ کے پہلے ہفتے میں وقت مقرر کیا گیا تھا، اب 13؍جنوری کو منعقد ہوگی۔ اس میں شک نہیں کہ ملک کو مہمند ڈیم ہی نہیں، متعدد ایسے آبی ذخائر کی ضرورت ہے جنہیں پانی کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکے مگر پچھلے پچاس ساٹھ برسوں کے دوران جس انداز میں کثیر قومی اداروں کے مفادات سمیت بیرونی و اندرونی عوامل مل کر توانائی کے متبادل ذرائع سمیت قومی اہمیت کے مختلف منصوبوں کو مختلف حوالوں سے معرض التوا میں ڈالنے کا ذریعہ بنتے رہے، انہیں دیکھتے ہوئے ملک کی آبی و برقی ضروریات کے لئے مہمند منصوبے کی طرف بڑھنے کے اس عمل کو خوش آئند قرار دیا جانا چاہئے۔ تاہم 309؍ارب روپے لاگت کے اس آبی ذخیرے کی تعمیر کے ٹھیکے سمیت قوم کو اعتماد میں لینا ملکی مفاد کا تقاضا، اپوزیشن سمیت تمام متعلقہ حلقوں کو مطمئن کرنے کی ضرورت اور حکومتی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے شفافیت ملحوظ رکھنے کے منشور کے ایفا کا حصہ بھی ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ہمارے قومی منصوبوں کو بروئے کار لانے کے معاملات میں کوئی نہ کوئی ایسا پہلو سامنے آجاتا ہے جس سے سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے مہمند ڈیم کا ٹھیکہ وزیر اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کی مبینہ کمپنی کو ملنے پر جو سوالات اٹھائے وہ ایک جمہوری ملک کی حزب اختلاف کی ذمہ داری کا حصہ ہیں، ان سوالات کے برمحمل یا بے محل ہونے کی وضاحت نہ صرف حکومت کی ذمہ داری ہے بلکہ اس باب میں ضروری تدابیر سمیت شفافیت کے تمام تقاضوں کا قوم کے سامنے آنا ضروری ہے۔ ماضی میں بہت سے ترقیاتی و تعمیراتی ٹھیکوں کی جو داستانیں گردش کرتی رہیں اور جن پر آج کی حکمراں پارٹی کی طرف سے بھی تحفظات ظاہر کئے گئے، ان سے تعلق رکھنے والے واقعات ایسے بہرحال نہیں جن پر پی ٹی آئی حکومت سے خاص اس نازک وقت میں صرف نظر کی امید رکھی جاسکے۔ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مہمند ڈیم کے ٹھیکے کے حوالے سے میچ فکسنگ، یوٹرن، بندر بانٹ، کرپشن کہانی جیسے تبصرے آنے کے بعد حکومت کے جوابات میں ذاتی و قومی مفادات کے ٹکرائو کے الزام سے انکار، عبدالرزاق دائود کے مہمند ڈیم کا ٹھیکہ حاصل کرنے والی کمپنی سے کوئی تعلق نہ ہونے اور وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی طرف سے مہمند ڈیم کے لئے بولی کا عمل شروع ہونے کے وقت موجودہ حکومت کے اقتدار میں نہ ہونے کے موقف سامنے آئے ہیں تو ان کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا چاہئے۔ تاہم فیصل واوڈا سمیت بعض حلقوں کی جانب سے کسی فرد یا قائمہ کمیٹی کا نام لئے بغیر اگر ایسے اعتراضات سامنے آرہے ہیں کہ قواعد و ضوابط کے خلاف ورزی کرتے ہوئے پندرہ بیس دن کا پیشگی نوٹس دینے سے اجتناب کرتے ہوئے کسی وزیر یا وزارت کو ایک ہی دن قبل حاضر ہونے کے لئے کہا گیا، تو یہ اور اس جیسے اعتراضات ایسے ہیں جن کا ایوان اسمبلی کی کارروائی خوش اسلوبی سے چلانے کے لئے اچھی فضا میں حل نکالا جاسکتا ہے۔ بدھ کے روز اسلام آباد میں چیئرمین واپڈا لیفٹننٹ جنرل (ر) مزمل حسین، مشیرِ وزیر اعظم عبدالرزاق دائود کے ترجمان اور وفاقی وزیر فیصل واوڈا کی پریس کانفرنسوں میں جو کچھ کہا گیا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عبدالرزاق دائود نے مشیرِ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے سے قبل کاروباری مفادات کے ٹکرائو سے بچنے کے لئے ٹھیکہ حاصل کرنے والی کمپنی سمیت اپنی تمام کمپنیوں کی سربراہی اور مفادات سے لاتعلقی اختیار کرلی تھی۔ جہاں تک مہمند ڈیم پراجیکٹ کا تعلق ہے اس کی تعمیر کے لئے واپڈا نے 23؍نومبر 2017ء کو بین الاقوامی مسابقتی بولیوں کے پری کوالیفیکشن، سنگل اسٹیج اور دو لفافے کا طریقہ اختیار کیا تھا۔ ان تمام باتوں کے باوجود اپوزیشن اور حکومت دونوں کو معاملات کا مل جل کر باریک بینی سے جائزہ لینا چاہئے۔ یہ بات یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ نہ صرف مہمند ڈیم وقت سے پہلے مکمل ہو بلکہ ملک بھر میں چھوٹے بڑے آبی ذخائر کا جال بچھا دیا جائے۔

تازہ ترین