• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی غور کیا آپ نے کہ انسان محض گوشت پوست اور ہڈیوں کا نام نہیں بلکہ انسان نام ہے جذبے کا۔انسانی زندگی کا سب سے بڑا راز انسانی جذبہ ہے۔بقول مولانا رومی تم جو ہو وہ تمہاری سوچ ہے باقی سب گوشت پوست ہے۔ مطلب یہ کہ انسان کو اس کی سوچ، عمل اور جذبے سے محروم کر دیا جائے تو باقی صرف گوشت اور ہڈیاں بچتی ہیں۔ یہ جذبہ ہی ہے جو انسان کو محافظ ملک و قوم بناتا اور جہاد کی منزل کی جانب لے جاتا ہے۔یہ جذبہ ہی ہے جو انسان کو بے خوف اور اس قدر بہادر بناتا ہے کہ وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا اور مسکراتے ہوئے موت کو سینے سے لگا لیتا ہے ورنہ زندگی کس کو پیاری اور عزیز نہیں۔زندگی نبیوں پیغمبروں کو بھی پیاری تھی اور ہر انسان کو پیاری ہوتی ہے۔آپ نے وہ واقعہ پڑھا ہو گا کہ حضرت ادریس علیہ السلام موت کے خوف سے آسمانوں پر چلے گئے تھے جہاں ملک الموت نے ان کی روح قبض کی۔مطلب یہ کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے جو ہر جاندار کو عزیز اور پیاری ہوتی ہےلیکن جذبہ ایک ایسا محرک ہے جو انسان کو موت کے خوف سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ شہادت ایک ایسا مقام ہے جسے پانے کی آرزو انسان کو دنیا کی محبت سے آزاد کرکےسرِ مقتل لے جاتی ہے۔ شہادت دراصل موت نہیں بلکہ حیاتِ جاودانی ہے، ہمیشہ کی زندگی اور ابدی زندگی۔ شہید ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے لیکن قرآن مجید کے مطابق وہ زندہ ہے اور اللہ پاک کے ہاں کھاتا پیتا ہے۔ موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے لیکن اگر انسان کو موت کے بعد زندگی مل جائے تو وہ رحمت خداوندی کا ایسا تحفہ اور اتنا بڑا انعام ہے جس کے مقام کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔

انسانی اور اپنی قومی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ انسان کو انسان سے محض جذبہ جدا اور ممتاز کرتا ہے۔دیکھنے میں سبھی انسان ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن ان میں سے معدود ے چند تاریخ کا حصہ بن کر لوحِ جہاں پر انمٹ نقش چھوڑ جاتے ہیں جبکہ دوسرے موت کے بعد مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتے ہیں اور زمانہ انہیں یوں بھلا دیتا ہے جیسے وہ کبھی دنیا میں تھے ہی نہیں۔ قائد اعظم میرکارواں بنے اور پاکستان کی تحریک کی قیادت سنبھالی تو ان کے ساتھ سینکڑوں سیاسی لیڈران، لاکھوں سیاسی کارکنان اور اپنے دور کے ممتاز لوگ شامل تھے لیکن آج تاریخ میں قائداعظم کا مقام ان تمام سے نہایت بلند اور ابدی نوعیت کا ہے جبکہ دوسروں کا صرف نام مانوس ہے، کچھ کا تو نام بھی مانوس نہیںوہ وقت کی گرد تلے دب کر رہ گئے ہیں۔ یہ جذبہ ہی تھا،کردار ہی تھا، ایثار اور بے پایاں جدوجہد ہی تھی جس نے محمد علی جناح کو قائداعظم بنایا،پھر بانی پاکستان اور بابائے قوم کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز کیا۔ یہ جذبہ ہی تھا جو بیماری اور جسمانی کمزوری کے باوجود قائداعظم سے روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کرواتا، ہندوستان کے طول وعرض میں دورے کرواتا اور بیک وقت دو محاذوں،کانگرس اور انگریزکے خلاف برسر پیکار رکھتا تھا۔

قائد وہ ہوتا ہے جو قوم کو متحد اور منظم کرتا ہے اور اپنے ساتھیوں کو جذبے سے محرک کرتا ہے۔قائداعظم کوئی ایک سال پاکستان کے گورنر جنرل رہے۔اس ایک سال میں انہوں نے سادہ طرزِ حکومت، قومی وسائل کے ایماندارانہ استعمال، قومی خزانے کے تقدس اور قانون کی حکمرانی کی ایسی مثالیں قائم کیں جو خلافت راشدہ کے دور کی یاد دلاتی ہیں۔گورنر جنرل ہائوس کے اخراجات پر کڑی نظر رکھی اور اپنے علاج تک کیلئے بیرون ملک جانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میرے غریب ملک کا خزانہ اس خرچ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ راتوں کو اٹھ کر خود بتیاں بجھانا اور خزانے کی ایک ایک پائی کا خیال رکھنا قائداعظم کے جذبے،جذبہ خدمت و ایثار، جذبہ محب الوطنی،کے منفرد مظاہر تھے۔

لیڈر جذبوں کا رول ماڈل ہوتا ہے اور وہ اپنے ارد گرد موجود ساتھیوں کو بھی اسی جذبے سے سرشار کردیتا ہے۔ جو سیاسی رہنما، قومی لیڈر، ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ بلاشبہ لیڈر نہیں، قائد نہیں بلکہ ہجوم کا مداری اور وقتی سیاسی لہر کا قائد ہوتا ہے۔لیڈر ایک ایسی شمع ہوتی ہے جو تاریکی میں امید، حوصلوں اور جذبوں کی روشنی پھیلاتی اور اپنے ساتھیوں کو ننھے منے چراغ بنا دیتی ہے۔ جو لیڈر اپنے ساتھیوں کی صلاحیتیں اجاگر نہیں کر سکتا، انہیں چراغِ راہ نہیں بنا سکتا اور ان میں جذبے کی روح نہیں پھونک سکتا وہ بہرحال لیڈر نہیں ہوتا۔مختصر یہ کہ لیڈر کو اس کا قائدانہ جذبہ اور قائدانہ کردار باقی لیڈروں سے ممتاز کرتا ہے۔ ہماری قومی زندگی میں اس کی بہترین مثال قائد اعظم ؒکے دستِ راست نوابزادہ لیاقت علی خان کی ہے جو چار سال تک پاکستان کےوزیراعظم رہے اور اس دوران قائد اعظم کے نقش قدم پر چلتے رہے۔لیاقت علی خان نواب ابن نواب تھے، ہزاروں ایکڑوں کے مالک اور محلات میں رہنے والے تھے۔ انگلستان اعلیٰ تعلیم کے لئے گئے تو اپنا باورچی اور خادم ساتھ لے کر گئے۔پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو سادہ طرزِ زندگی کی مثال بن گئے۔ اس دور میں چینی راشن کارڈ پر ملتی تھی۔کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ وزیر اعظم ہائوس بھی کارڈ کا مرہون منت ہو۔ لیاقت علی خان کا وزیر اعظم ہائوس راشن کارڈ کے مطابق چینی لیتا تھا۔عام طور پر چینی کا یہ کوٹہ مہینے کے پہلےبیس اکیس دنوں میں ختم ہو جاتا تھا۔ بقایا نو دس دن وزیر اعظم، ان کا خاندان اور مہمان پھیکی چائے پیتے تھے۔اس کے پیچھے جذبہ کیا تھا؟ جذبہ شہری برابری اور قانون کی حکمرانی تھا کہ ملک کا قانون اور سسٹم سب پر ایک طرح لاگو ہو گا۔ دراصل یہ خلافت راشدہ کے سنہری دور کا ماڈل تھا جس کی قائداعظم اور قائد ملت نے اتباع کرنے کی کوشش کی۔وہ زندہ رہتے تو اس طرزِ حکومت کی بنیادیں مضبوط کر جاتے لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور ؎

اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

مثالیں انگنت لیکن کہنا یہ مقصود ہے کہ جذبہ انسان کو انسان سے ممیز و ممتاز کرتا اور عظمت کی بلندیوں پہ بٹھاتا ہے ورنہ اولاد آدم تو بظاہر ایک ہی جیسی ہے، ایک ہی طرح کی ساخت رکھتی اور ایک ہی جیسی نظر آتی ہے۔ اور پھر لیڈر سے مراد صرف سیاسی لیڈر نہیں۔ مختلف شعبوں کے سربراہ، اداروں کے ہیڈز عدلیہ، بیورو کریسی، فوج، ایئر فورس، نیوی کے سربراہ وغیرہ سبھی اپنے اپنے دائرہ کار میں لیڈر ہوتے ہیں اور ان اصولوں کا اطلاق ان سب پر ہوتا ہے۔ لیڈر شپ کا اول اصول یہ ہے کہ آپ اپنے کردار، کارکردگی اور شخصیت سے اپنے ساتھیوں کو کتنا اور کس طرح متاثر کرتے ہیں، آپ میں رول ماڈل بننے کی صلاحیت ہے یا نہیں؟ محض کرسی انسان کو لیڈر نہیں بناتی، انسانی خوبیاں، شخصیت، کردار اور قائدانہ صلاحیتیں لیڈر بناتی ہیں اور ان تمام خوبیوں کے پسِ پردہ محرک جذبہ ہوتا ہے۔ جذبہ خلوصِ نیت ہے، بے لوث خدمت ہے، ایثار اور محنت ہے، جدوجہد اور یقینِ محکم ہے، حب الوطنی اور عظمت ہے اور جذبہ کامیابی کی کنجی اور ضمانت ہے۔ جذبے سے خالی انسان بجھی ہوئی شمع، ہوا کے دوش پہ ایک تنکا، ہجوم میں فقط ایک چہرہ اور چلتا پھرتا خاک کا پتلا ہے۔ دوستو! اپنے اندر جذبوں کی شمع روشن رکھو۔ راستے خودبخود روشن ہوتے چلے جائیں گے۔

تازہ ترین