• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے سال کے آغاز پر وزیر اعظم عمران خان نے چار بیماریوں کا تذکرہ کیا ہے ، ان کے خیال میں معاشرے سے غربت، جہالت، ناانصافی اور کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے۔ اگر وزیر اعظم آخری دو بیماریاں ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پہلی دو خودبخود ختم ہو جائیں گی کیونکہ جن معاشروں میں ناانصافی اور کرپشن نہیں ہوتی وہاں غربت اور جہالت قائم نہیں رہتی ۔اس لئے پاکستانی معاشرے میں اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ معاشرے میں قائم ناانصافی اور کرپشن کو ختم کیا جائے تاکہ پاکستان میں بسنے والے خوشحالی کا سفر طےکر سکیں۔معاشرے کے سدھار کیلئے وزیراعظم نے بہترین تشخیص کی ہے اب اس کا علاج بھی ہوجانا چاہئے۔

اب مجھے مجبوراً کالم کا رخ کسی اور طرف موڑنا پڑ رہا ہے کیونکہ ابھی ابھی مجھے پنجاب اسمبلی کے سابق رکن شاہان ملک کا فون آیا ہے، شاہان ملک 2008ء سے 2012ء تک اٹک سے پنجاب اسمبلی کے رکن رہے، ملک صاحب کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے شاہان ملک پیپلز پارٹی کے دیرینہ رہنما ملک حاکمین خان کے فرزند ہیں، راوین ہیں ، انتہائی سمجھدار ہیں مگر آج کل کرب سے گزر رہے ہیں، اس کرب کی بڑی وجہ پیپلز پارٹی ہے ۔ غمزدہ اور افسردہ شاہان ملک کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے، وہ فون پر کہہ رہے تھے ’’...میرے والد کیلئے دعا کیجئے، میرا باپ بسترِ پر ہے، لاہور کے سروسز اسپتال میں شدید بیماری کی لپیٹ میں ہے، مجھے دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی جس کے ساتھ میرے باپ کے باون برس بیت گئے، 1967ء سے لیکر آج تک میرے باپ کی وفا صرف اور صرف پیپلز پارٹی سے رہی ، 1967ء سے شروع ہونے والی اس محبت میں پہلے بھٹو صاحب کے ساتھ وفا کی ساری رسمیں ادا کیں، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، میرے باپ نے قید کرپشن کے نام پر نہیں کاٹی بلکہ یہ قید بھٹو سے وفائوں کا صلہ تھا، بھٹو صاحب کے بعد بھٹو کی بیٹی سے وفا کی، اس وفا کو بھی خوب نبھایا اور اب بلاول بھٹو کی صورت میں تیسری نسل ہے، اب بھی وفا کی وہی پرانی ادا ہے مگر تین نسلوں سے وفا کی یہ قیمت ہے کہ باون برسوں کے بعد اب جب میرا باپ بسترِ علالت پر ہے تو اس پیپلز پارٹی کے کسی رہنما نے یہ زحمت نہیں کی کہ وہ لاہور کے اسپتال کا چکر ہی لگا لیتا، اب تو ہم سے لوگ پوچھتے ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی ملک حاکمین خان کی وفا کی قدر نہیں کرتی تو عوام کی وفا کی کیا قدر کرے گی، دعا کیجئے، دعا کیجئے...‘‘

بس دعا کیجئے کے الفاظ کے ساتھ شاہان ملک کا فون بند ہو گیا مگر مجھے سوچوں کا سیلاب دے گیا، تفکرات کی گہرائیوں میں پھینک گیا، میں بھی سوچ رہا ہوں کہ واقعی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہے، کیا سیاست ہے کہ باون سالہ محبت بھی وفا کو ترس رہی ہے۔ جب سے سیاست میں کرپشن آئی ہے ،وفا کی قدر ختم ہو گئی ہے، نظریے کی جگہ دولت نے لے لی ہے کبھی کبھی اپنے پیارے دوست نوید چودھری کا بھی خیال آتا ہے جو ہر دور میں پیشکش کو ٹھکرا کر پیپلز پارٹی کو وفائیں پیش کرتا ہے۔ ایک زمانہ تھا سیاست میں نظریے اور وفا کی قدر تھی، اس زمانے میں سیاسی تحریکیں چلانا آسان ہوتا تھا اب دولت نے سیاسی جماعتوں کو اس قدر یتیم بنا دیا ہے کہ آج ان میں دم خم ہی نہیں، آج پورے ملک کی سیاسی جماعتیں جمع ہو کر بھی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے قابل نہیں ہیں ۔ دولت کے پجاری سیاسی قائدین کو سوچنا چاہئے کہ یہ مرحلہ کیوں آیا ؟کیوں آج سیاسی جماعتیں سیاسی تحریک چلانے کے قابل نہیں رہیں ؟

اب آئیے ملک حاکمین خان کی طرف، جب بھٹو نے 1967ء میں پیپلز پارٹی بنائی تو خاص طور پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کے نوجوانوں نے پیپلز پارٹی میں جان ڈال دی، بھٹو نے پسے ہوئے طبقات کے لئے آواز بلند کی تو جاگیرداروں اور وڈیروں سے تنگ معاشرے کی اکثریت بھٹو کی گرویدہ ہو گئی ۔کسان، ہاری، مزدور، شاعر، دانشور اور نوجوان سب اس قافلے کا حصہ بن گئے۔لوگوں نے دیکھا کہ 1970ء کے الیکشن میں بڑے بڑے جاگیرداروں کے سامنے عام آدمی کھڑے ہو گئے۔بھٹو کی محبت میں لوگوں نے جاگیرداروں کو چت کرکے رکھ دیا۔ اسی قافلے میں اٹک کا ایک نوجوان ملک حاکمین خان بھی شامل تھا، اٹک میں بھی بڑے بڑے جاگیردار تھے، ان کے سامنے کھڑا ہونے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر بھٹو کی آواز پر ملک حاکمین خان کھڑے ہو گئے،جیت گئے، جیل خانہ جات کے وزیربن گئے۔ ملک حاکمین خان کی زندگی سیاست کی پوری داستان ہے بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی تو چاہنے والوں کو قید اور کوڑے ملے،ان قیدیوں میں ملک حاکمین بھی شامل تھا، دس برس کی جیل صرف سیاسی وفا پر تھی۔بھٹو کے بعد ملک حاکمین بھٹو کی بیٹی کے قافلے میں شامل رہا، احتجاجی تحریکوں کا حصہ بنتا رہا، اگر پاکستان کی سیاسی، احتجاجی تحریکوں کو دیکھا جائے تو نوابزادہ نصراللہ خان اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ آپ کو ملک حاکمین خان کی تصاویر بھی اکثر نظر آئیں گی۔کوڑوں اور جیلوں کو برداشت کرنے والوں میں مخدوم فیصل صالح حیات اور جہانگیر بدر مرحوم بھی شامل تھے، بھٹو کی محبت میں طوطی کو نہیں بھولا جا سکتا مگر پیپلز پارٹی نے شاہدہ جبیں کو فراموش کر دیا۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک حاکمین خان کی تمام وفائوں کا تھال بلاول بھٹو کے سامنے تھا، بھٹو، بے نظیر بھٹو اور پھر بلاول بھٹو یہی تین سیاسی رہنما ملک حاکمین کی وفائوں میں رہے ۔ملک حاکمین خان نے ہر پیشکش کو ٹھوکر مار کر پیپلز پارٹی سے وفا نبھائی۔آج ان کا بیٹا شاہان ملک بجا طور پر پوچھتا ہے کہ ...یہ ہے وفا کی قیمت ؟...‘‘ مجھے اس مرحلے پر وہ شعر رہ رہ کے یاد آتا ہے جو ملک حاکمین خان اکثر سنایا کرتے تھے کہ ؎

ہم بھی ہیں کیا عجب کہ کڑی دھوپ کے تلے

صحرا خرید لائے ہیں برسات بیچ کر

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین