• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کیا عمران کراچی کا سیاسی منظرنامہ تبدیل کرسکتے ہیں؟

کیا وقت گذرنے اور نئی حقیقتوں کے ابھرنے سے کراچی کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہورہا ہےیا وہ ابھی بھی خوف، ناانصافی اور عدم تحفظ کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ 2018کے انتخابات کے ایم کیو ایم سے تحریک انصاف کے حق میں نتائج نے وزیراعظم عمران خان کو موقع فراہم کیا کہ لسانی جہتوں سے بلند ہو کر کراچی کو جیت لیں ۔ کیا وہ اپنے دور میں پاکستان کے حقیقی معاشی حب کے منظرنامے کو تبدیل کرسکتے ہیں اور ملک کے اس معاشی حب کی ذمہ داری لے سکتے ہیں ، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کیونکہ اس کا وعدہ انہوں نے ایک سے زائد مرتبہ کیا تھا۔ لہذا دیکھو اور انتظار کرو۔ کراچی جو کے سندھ کا دارالحکومت بھی ہے، نے اکثر وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور شہری حکومت کے درمیان طاقت کے عدم توازن کو بھگتا ہے جس کے نتیجےمیں شہر کی ترقی متاثر ہوئی۔ وزیراعظم نے بدھ کے روز گورنر سندھ عمران اسماعیل کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی ہے جو تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے اراکین پر مشتمل ہے۔ کمیٹی کے قیام کا مقصد وفاقی حکومت کے تحت ہونیوالے ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز تر کرنا ہے۔ ماضی کے برخلاف، سندھ حکومت کے رد عمل سے امید پیدا ہو چلی ہے کہ کراچی بہتر ہوگا۔ صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے کراچی کی ترقی میں وفاق کی دلچسپی کا خیر مقدم کیا ہے اور یقین دلایا ہے کہ نہ ہی ان کی پارٹی اور نہ ہی صوبائی حکومت کوئی رکاوٹ پیدا کریں گے۔ اگرچہ یہ اتنا آسان نہیں جتنا نظرآتا ہے تاہم یہ درست سمت میں ایک قدم ہے۔ زیادہ بہتر ہوتا کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور شہری حکومت ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دیتے ۔1970کے بعد پہلی بار کراچی نے اس جماعت کیلئے ووٹ دیا جس نے مرکز میں حکومت بنائی، اور اب تحریک انصاف کے پاس موقع اور جگہ دونوں موجود ہیں۔ عمران خان نے متعدد بار کراچی کی ترقی پر زور دیا ہے تاہم پی پی اور حکومت سندھ کے ساتھ سیاسی محاذ آرائی سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔لہذا بہتر ہے کہ وفاقی حکومت تناؤ کو ختم کرے ، جو کہ پی پی قیادت کے ملوث ہونے کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد ناگزیر نظرآتا ہے۔تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان اگر ساتھ کام کریں تو فرق نظر آسکتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ دونوں جماعتوں کے اپنے اپنے سیاسی نظریات ہیں اور اس سال ہونیوالے بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر دونوں سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں ، اور امکان ہے کہ اسی وجہ سے کام کی رفتار متاثر ہو۔کراچی کو مختلف مسائل درپیش ہیں لیکن آبادی کی صحیح صحیح تعداد جانے بغیر شہر کی ترقی کی منصوبہ بندی آسان نہ ہوگی، جہاں شہر کی آدھی آبادی غیرقانونی اور بے ضابطہ کچی آبادی میں رہتی ہے۔ متنازع مردم شماری کے ارد گرد گھومتے تنازع کو حل کرنا وفاقی حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے، اور اسے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں اٹھانا چاہیےجہاں کراچی میں مردم شماری کے خلاف دائر درخواستیں التواء کا شکار ہیں۔ آپ کیسے شہر کی درست آبادی جانے بغیر منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔ دوسری بات ان 40لاکھ غیرملکیوں سے متعلق ہے جنہیں مردم شماری میں شامل نہیں کیا گیا لیکن وہ اسی شہر میں کئی سالوں سے رہتے ہیں۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ وفاقی حکومت کتنی تیزی سے اپنے ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامع پہنچاتی ہے اور کے ایم سی اور دیگر ادارے کتنی مدد و معاونت فراہم کرتے ہیں۔ سندھ حکومت بھی بہتر ٹرانسپورٹ، سرکلر ریلوے، صاف ستھری سڑکیں، پینے کا صاف پانی، گیس اور بجلی کے منصوبوں پر بھی ترجیحی بنیادوں پر کام کرسکتی ہے۔ اگر حقیقت پر مبنی بات کی جائے تو دنیا کے دیگر بڑے شہروں کی طرح کراچی کا نظام بھی ایک چھتری تلے ہونا چاہیے، یعنی کراچی میٹروپولیٹن اتھارتی، کے ایم سی اور مئیر۔ لیکن خصوصاً گذشتہ چالیس سالوں کی سیاست اور منظرنامےکے باعث طاقتور ریاستی اداروں اور سیاسی تنگ نظری نے ہمیشہ رکاوٹیں پیدا کیں۔ بدقسمتی سے وہ پارٹی جس کے پاس کراچی کی نمائندگی کا بے مثال مینڈیٹ موجود تھا، ایسی سرگرمیوں می ملوث ہو گئی جس سے نہ صرف پارٹی اور اس کے ووٹر، حمایتیوں کو نقصان پہنچا بلکہ شہر بھی متاثر ہوا۔ وقت گذرنے کے ساتھ نہ صرف ایم کیو ایم بلکہ کراچی اور مہاجرسیاست بھی تبدیلی ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم جو کبھی تنہا نمائندہ ہوا کرتی تھی، اب چار حصوں میں تقسیم ہے اور اسے متحد کرنے کی کوششیں زمینی حقائق سے زیادہ رہنما کی انا کے باعث ناکام ثابت ہوئیں۔ایم کیو ایم جو کبھی مڈل کلاس کی نمائندہ جماعت ہوا کرتی تھی، کا کردار بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی، بھتہ خوری اور کرپشن کے باعث تبدیل ہوا۔ 2013کے انتخابات ایم کیو ایم کو جگانے کیلئے ایک کال تھے تاہم ان کے رہنماوں نے کچھ نہ سیکھا جس کے باعث 2018میںوہ اپنی گرفت کھو بیٹھے۔ انتخابی نتائج میں تبدیلی کے مبینہ الزامات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف اپنے دو جماعتی بیانیے کے باعث مضبوط متبادل کے طورپر ابھری ہے ۔لہذا کراچی کے ووٹرز جن میں مہاجر اور نوجوانوں کا مضبوط ووٹ بینک شامل ہے، نے ماضی میں مذہبی اور لسانی جماعتوں کی حمایت کی روایات کے برخلاف اپنا رجحان وفاقی جماعت کی طرف تبدیل کیا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین