• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حاجی بشیر احمد بلور آخری نشانہ تھے اور نہ اے این پی پرآکر یہ معاملہ رکے گا ۔ان شخصیات اور جماعتوں کی باری بھی آئے گی جو بظاہر ان کی ہمدرد نظرآرہی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے پوری تیاری کررکھی ہے۔ سیاسی جماعتوں ‘ ان سے وابستہ افراد اور صحافیوں تک کی درجہ بندی ہورہی ہے ۔ علی الاعلان کہہ رہے ہیں کہ اے این پی ‘ ایم کیوایم بالخصوص اور موجودہ نظام کا حصہ رہنے والی سیاسی جماعتیں بالعموم نشانہ بنیں گی۔ تبھی تو خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ خاکم بدہن اگلے انتخابات نہایت خونی ہوں گے۔ طالبان اور ان کے حامی عسکریت پسندوں کا مورال بلند ہے‘ مالی اور افرادی وسائل بے تحاشہ ہیں منصوبہ بندی وہ جامع اورطویل المیعاد کرتے ہیں ‘ دن رات اسی کام اور اسی سوچ میں مگن رہتے ہیں‘ مخالفین کو زیرکرنے کے نت نئے منصوبے بناتے رہتے ہیں ‘ نظریاتی طور پر یکسو ہیں اور جو راستہ انہوں نے اپنا رکھا ہے اسے وہ دنیا وآخرت کی کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن اس کے برعکس حکومت تماشائی بنی ہوئی ہے اور ریاستی ادارے کنفیوژن کا شکار ہیں۔ حکومتی ترجمان صرف یہ ورد کرتے رہتے ہیں کہ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی لیکن کہاں کی جنگ اور کیسی جنگ؟ یہ جنگ تو پچھلے کئی سالوں سے یکطرفہ جاری ہے ۔صرف عسکریت پسند جنگ کررہے ہیں۔ان کی طرف سے یہ جنگ نہ صرف جاری ہے بلکہ وہ اس کا دائرہ بھی وسیع کرتے جارہے ہیں ۔ جب اور جہاں چاہتے اور جس طریقے سے چاہتے ہیں ‘ اپنے ہدف کو ماردیتے یا اٹھالیتے ہیں ۔ قبائلی علاقوں کے بعد انہوں نے اپنا دائرہ اثر بنوں‘ کوہاٹ ‘ ڈی آئی خان ‘ مینگورہ اور پشاور جیسے شہروں تک پھیلادیا ہے ۔ کراچی اور لاہور تک میں ان کا رعب بیٹھ گیا ہے ۔ جب چاہیں اسلام آباد تک سے اپنا ہدف اٹھا اور قیدی بنالیتے ہیں ۔ پچھلے تین سالوں سے کہیں ریاست نے ان کا پیچھا نہیں کیابلکہ وہ ریاست کا پیچھا کررہے ہیں ۔ یہ پیچھا انہوں نے جی ایچ کیو تک بھی کیا ‘ مہران بیس تک بھی اور پشاور ایئر بیس تک بھی لیکن ان کے بیس یعنی شمالی وزیرستان میں ان کا پیچھا کرنا حکومت کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بن گیا ہے ۔ حیران ہوں کہ حکومت کہاں اور کس طریقے سے ان کے خلاف جنگ لڑرہی ہے یہ جو اس کے ترجمان دعوے کررہے ہیں کہ ”ہماری جنگ جاری رہے گی“ اس دعوے کی بنیاد کیا ہے؟ افغانستان میں تو امریکہ اور اس کے اتحادی دونوں طریقے استعمال کررہے ہیں ۔ وہاں طالبان کے خلاف طاقت بھی استعمال ہورہی ہے اور ان کے ساتھ بات چیت بھی جاری ہے لیکن پاکستان کے اندر تو نہ طاقت استعمال ہورہی ہے اور نہ مفاہمت یا بات چیت کی کوئی کوشش ہوتی نظر آرہی ہے ۔ ہمارے ہاں تو صرف فائرفائٹنگ ہورہی ہے، لاشیں اٹھائی جارہی ہیں،کنفیوژن پھیلایا جارہا ہے، سیاست و صحافت چمکائی جارہی ہے اور حکومتی ترجمانوں کی طرف سے دھمکیاں دی جارہی ہے ۔ قبائلی علاقوں اور سوات میں فوج کو تعینات کرکے آزمائش میں ڈال دیا گیاہے ان سے فوجیوں کی نہیں بلکہ پولیس اور لیوی کی ڈیوٹی لی جارہی ہے ۔ بڑی کوشش کی لیکن میں تو نہیں سمجھ سکا کہ عسکریت پسندی سے متعلق پاکستان کی حکومت اور اس کے ریاستی اداروں کی کیا پالیسی ہے اور یہ جس جنگ کی بات ہورہی ہے ‘ وہ جنگ کہاں اور کس طرح لڑی جارہی ہے ۔ دہشت گردی ہماری ناقص خارجہ پالیسی کی پیداوار ہے لیکن میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہماری خارجہ پالیسی پر کہاں اور کس قسم کی نظرثانی ہورہی ہے؟کیا ہم نے افغان پالیسی بدلی ہے؟ جواب نفی میں ہے ۔ کیا ہم نے کشمیر پالیسی بدلی ہے؟ پھر بھی جواب نفی میں ہے ۔ کیا ہم نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت تبدیل کی ہے؟ یہاں بھی جواب نفی میں ہے ۔
یہ معاملات نہ زرداری صاحب کی ترجیحات میں شامل ہیں اور نہ اپوزیشن لیڈروں کو ان سے کوئی دلچسپی ہے ۔ جنرل کیانی اور حناربانی کھر لگے رہتے ہیں اور اپنی فہم اور استعداد کے مطابق دونوں نسبتاً بہتر کھیل رہے ہیں لیکن ظاہر ہے خارجہ پالیسی کے بنیادی خدوخال تبدیل کرنا اور نئے تصورات کے ساتھ نئی پالیسی کی بنیاد رکھنا ‘ ان کا مینڈیٹ ہے اور نہ اپنے پس منظر کی وجہ سے وہ ایسا کرسکتے ہیں ۔ چنانچہ مذکورہ تینوں حوالوں سے ہماری پالیسی آج بھی حسب سابق تضادات کا مجموعہ ہے جس کے نتیجے میں دہشت گردی بڑھ تو سکتی ہے ‘ کم ہر گز نہیں ہوسکتی ۔ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں ‘ اس کا دوسرا بڑا عامل پاکستان‘ افغانستان اورامریکہ کی ایک دوسرے کے بارے میں بداعتمادی اور منافقت پر مبنی پالیسی ہے ۔ یہ تینوں بیک وقت حلیف بھی ہیں اور حریف بھی ہیں ۔ پاکستان میں امریکہ کی جن دو نمبریوں کا ذکر کیا جاتا ہے اس میں مبالغہ ضرورہوگا لیکن ایسا ہر گز نہیں کہ اس کا رویہ ایک دوست جیسا ہے ۔ اسی طرح افغان حکومت پاکستان پر اپنے مخالفین سے متعلق چشم پوشی یا درپردہ حمایت کا جو الزام لگارہی ہے ‘ وہ بھی یکسر غلط نہیں اور پاکستان جو شکوہ کررہا ہے کہ افغانستان میں اس کے مخالفین کی سرپرستی کی جارہی ہے ‘ تو اس کے بھی خاطر خواہ شواہد موجود ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ روا رکھی گئی ان منافقتوں کو ختم کرنے کے لئے پاکستان کوئی سنجیدہ کوشش کررہا ہے یا پھر وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سامنے کوئی لکیر کھینچ رہا ہے؟ یہاں بھی جواب نفی میں ہے کیونکہ ایسی کوئی سرگرمی بھی اعلیٰ اور قومی سطح پر نظر نہیں آرہی ۔ عسکریت پسندی کی ایک اور وجہ اس خطے میں فروغ پانے والا جہاد و قتال کا ایک مخصوص نظریہ ہے ۔ اسلامی عسکریت پسندوں اور ان کے حامیوں کی طرف سے تمام وسائل کو بروئے کار لاکر اس نظرئیے کو پھیلایا جارہا ہے ۔ پہلے وہ صرف تقریروں اور تحریروں کی شکل میں پھیلایا جارہا تھا اور اب اس کے لئے سمع و بصر کے تمام ذرائع اور انٹرنیٹ جیسی سہولتوں سے بھی کام لیا جارہا ہے ۔ اس نظرئیے کے پیچھے پورا لٹریچر موجود ہے ۔ جو لوگ اس پر عمل پیرا ہیں ‘ وہ نہ صرف اس حوالے سے پوری طرح یکسو ہیں بلکہ اس کی سچائی کے اس حد تک قائل ہیں کہ بار بار پاکستانی علمائے کرام کو خطوط کے ذریعے متوجہ کررہے ہیں کہ اگر ان کی رائے غلط ہے تو ان کے ساتھ مناظرہ کیا جائے لیکن کسی بھی سمت سے ان کا شرعی دلائل کے ساتھ جواب نہیں آرہا ۔ ہم جس کام کو معصوم انسانوں کا قتل کہتے ہیں ‘ ان کے نزدیک وہ جہاد ہے۔ ہمارے نزدیک ان کے اقدامات پاکستان دشمنی ہیں لیکن وہ اسے پاکستان کی خدمت سمجھ رہے ہیں ۔ اب کیا ہماری ریاست یا پھر اس کے اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے علمی اور نظریاتی بنیادوں پر کوئی متبادل نقطہ نظر علمی دلائل کے ساتھ سامنے لارہے ہیں؟ یہاں پھر جواب نفی میں ہے ۔ عسکریت پسندی کی طرف پاکستانیوں کے راغب ہونے کی ایک اور بڑی وجہ ناقص طرز حکمرانی ہے ۔ تو پھر کیا فاٹا‘ خیبر پختونخوا یا کراچی وغیرہ میں ہماری حکومت بہتر طرز حکمرانی کا مظاہرہ کررہی ہے؟ یہاں بھی جواب نفی میں ہے ۔ پھر کیا حکومت عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے اور انہیں اپنا سمجھ کر سمجھانے بجھانے کے ذریعے معاملے کو حل کرنا چاہتی ہے؟ یہاں پھر جواب نفی میں ہے ۔ تو پھر کیا حکومت ان کے خلاف پوری قوت کے ساتھ آپریشن کرنا چاہتی ہے؟ یہاں بھی جواب نفی میں ہے ۔ اب نہ جانے حکومت وہ جنگ کہاں اور کس طرح لڑرہی ہے جس کا دن رات ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے اور اس حکومت اور اس کے اداروں کی اس حوالے سے پالیسی کیا ہے؟کسی کو اس کی خبر ملے یا سمجھ آئے تو ازراہ کرم مجھے ضرور آگاہ کریں۔
تازہ ترین