• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متلون مزاجی پوری دنیا پر عیاں ہے۔ افغانستان میں آ کر نئی افغان پالیسی کا اعلان کرنے، پاکستان کے بارے میں تمام اخلاقی و سفارتی حدود پامال کرنے اور پھر ٹویٹ پر ٹویٹ کا منہ توڑ جواب ملنے اور طالبان سے امن مذاکرات میں پیشرفت کے بعد ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جلد پاکستان کی نئی قیادت سے ملاقات کے منتظر ہیں، انہوں نے بھارتی حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا بھارت افغانستان میں طالبان سے کیوں نہیں لڑتا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا لیکن وہاں لڑتے لڑتے خود تحلیل ہو کر روس بن گیا۔ افغان جنگ امریکہ کو اربوں ڈالر میں پڑی، اب ہم افغانستان میں وہ کرنے جا رہے ہیں جو درست ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ قیادت کی سطح پر امریکہ سے مثبت مذاکرات کے خواہاں ہیں، البتہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا، عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رکوائے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ یہ ہمیشہ ایک دوسرے کیساتھ اور نہ ایک دوسرے کے بغیر رہ سکتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کی بنیاد پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ کے دوران رکھی گئی تاہم ان میں مضبوطی، سائوتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن (سیٹو) اور بغداد پیکٹ (سینٹو) جیسے دفاعی منصوبوں کے بعد آئی۔ 1961میں ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا تو امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے طیارے کی سیڑھیاں چڑھ کر انکا استقبال کیا اور پوری امریکی انتظامیہ ایئر پورٹ پر موجود تھی، سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں امریکی صدر نکسن نے یحییٰ خان سے چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کیلئے تعاون طلب کیا اور پاکستان نے ہنری کسنجر کو خفیہ طور پر چین بھجوایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاکستان کے یورینیم افزودگی پر امریکہ سے تعلقات خراب ہوئے جو سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد بحال ہوئے تاہم اس جنگ میں سوویت یونین کی شکست و تحلیل کے بعد امریکہ بے نیاز ہو گیا بلکہ پریسلر ترمیم کے تحت پاکستان کی امداد بھی بند کر دی، اسی دوران امریکہ کا زیادہ میلان بھارت کی طرف ہو گیا جس سے اس نے نیو کلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھی کیا اور اسلحہ بھی فراہم کیا کہ وہ چین کا ہم پلہ ہو سکے۔ پاکستان کیلئے یہ امر قابل برداشت نہ تھا چنانچہ سرد مہری بڑھتی چلی گئی۔ نائن الیون کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن گیا اور بے پناہ نقصان اٹھایا۔ اس دوران ٹرمپ امریکی صدر بن گئے اور دنیا ایک بار پھر تبدیلیوں کی زد میں آ گئی۔ ٹرمپ نے ہرممکن کوشش کی بلکہ ’’گاجر اور چھڑی‘‘ پالیسی بھی اپنائی کہ پاکستان افغان طالبان سے اس کی گلوخلاصی کرائے لیکن ان کی دریدہ دہنی سے پاکستانی قوم میں غم و غصہ پیدا ہوا اور یہ بیانیہ سامنے آیا کہ ’’پاکستان اب کسی اور کی جنگ نہیں لڑیگا‘‘۔ اس دوران وزیراعظم عمران خان نے بھی ٹرمپ کے ہر بیان کا ترکی بہ ترکی جواب دیا، جس سے امریکی صدر کو یہ سمجھنے میں دشواری نہ ہوئی کہ پاکستانی قوم اپنے بیانیے پر قائم ہی نہیں یکجا و یکسو بھی ہے۔ ان حالات میں ٹرمپ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے متمنی بھارت پر بھی برس پڑے اور کہا کہ امریکہ ہی کیوں؟ پاکستان، بھارت اور روس بھی افغان طالبان کیخلاف لڑیں۔ پاکستان کا اس ضمن میں بیانیہ چونکہ ان کے سامنے ہے چنانچہ انہوں نے نئی پاکستانی قیادت سے ملاقات کی تمنا کا اظہار کرتے ہوئے یہ بے بنیاد جواز بھی پیش کر دیا کہ اس ملاقات میں پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کے الزامات پر بھی بات ہو گی۔ ٹرمپ کا حالیہ بیان ان کی شکست خوردگی کا عکاس ہے اور پاکستان کی سفارتی کامیابی۔ امریکہ اب افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور اس کیلئے اسے پاکستان کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو نہ صرف معروضی حالات بلکہ عواقب کے بارے میں بھی مکمل سوچ بچار کے بعد کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔ امریکہ کو بھی سمجھنا چاہئے کہ مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ خرابی بسیار کا باعث ہی بنے گا۔

تازہ ترین