• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آنکھوں کی صحت کے لئے میرا رونا ضروری تھا۔ ایک ایم این اے خاتون ہو بہو ہندوستان کی لوک سبھا یعنی اسمبلی ممبر جیاپرادا جیسی خوبصورت تھی۔ صرف ایک فرق تھا۔ جیا پرادا جو کہ اپنے دور کی مشہور اور مقبول ہیروئن رہ چکی تھی، بغیر میک اپ کے لوگ سبھا کے اجلاسوں میں آتی تھی۔ ہماری جیا پرادا اسمبلی اجلاس میں آنے سے پہلے گھنٹوں بیوٹی پارلرز پرگزار کر آتی تھی اس بات سے اسمبلی کے اسپیکر بخوبی واقف تھے۔ انکو جب بھی پاکستانی جیاپرادا سے بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی تب وہ پاکستانی جیاپرادا سے گھر پر نہیں بلکہ بیوٹی پارلر پر رابطہ کرتے تھے۔ ایسی خاتون سے مجھ پھٹیچر کی شادی ہو تو کیسے ہو؟
میں نے بدحال بزرگ سے رابطہ کیا جن کا ماضی خوشحال تھا۔ انہوں نے تحمل سے میری بات سنی اور کہا ”ایم این اے لگ جاؤ، سینیٹر ہو جاؤ، وزیر بن جاؤ یا پھرکرنیل اور جرنیل۔ خوبصورت ایم این اے تم سے شادی کر لے گی اور پھر انشاء اللہ تعالیٰ تمہیں خون کے آنسو رلا دے گی“۔
مجھے تعجب ہوا۔ میں نے بدحال بزرگ سے پوچھا ”یہ سب باتیں آپ اس قدر وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟“
”میری کہانی میری زبانی نہ پوچھئے“ بزرگ نے کہا ”ری پبلک آف ہونو لولو میں پاکستان کا ایمبیسیڈر تھا۔ تب مجھے خون کے آنسو رونے کا شوق چرایا تھا ۔ میں عمر میں تمہارے پوتوں کے برابر ہوں“۔
کراچی اب چپل کباب بنانے والوں سے خود کفیل ہوگیا ہے۔ کفیل بھائی بھی بہاری کباب بیچنے کے بجائے چپل کباب بیچ رہے ہیں۔کفیل بھائی سے تمہاری سفارش میں کروں گا۔ پیاز کاٹتے ہوئے خوب آنسو بہاتے رہنا“۔ ”دانشوروں کے چکر میں مت پڑو بالم بھائی۔ یہ لوگ پاکستان کے مسائل کا حل فرینچ ریوولیوشن میں دیکھتے ہیں۔“ دھنراج دمڑی نے کہا ”میں تجھے عام سے ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں، عام سی دوائیں عام سی دکانوں پر مل جاتی ہیں“۔دھنراج دمڑی بیحد موٹا ہے اس لئے اس کی بات میں وزن ہوتا ہے۔ وہ نجومی بھی ہے یہی اس کا کاروبار ہے ۔ اس نے میرا زائچہ بھی بنایا ہے۔ زائچے میں دھنراج دمڑی نے لکھا ہے: یہ آدمی مل جل کر کھانے پینے میں یقین رکھتا ہے۔ یہ آدمی جھٹ سے دوسروں کی اوقات کا اندازہ لگا لیتا ہے اورہر شخص کی ایک قیمت مقرر کر دیتا ہے یہ آدمی ہلتی ہوئی دم دیکھ کر فوراً فیصلہ کرتا ہے کہ جانور کو ہڈی کتنی ڈالنی چاہئے۔ جس روز اس آدمی کو زیر مونچھ مسکرانا آگیا اس روز یہ آدمی پاکستان پر راج کرے گا اور تاریخ میں راج دلارا کہلوائے گا۔دھنراج دمڑی مجھے آنکھوں کے ایک ایسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس کی ایک آنکھ مشرق اور دوسری آنکھ مغرب کی طرف تھی۔ دھنراج نے میرا تعارف ڈاکٹر سے کراتے ہوئے کہا”ایک عرصے سے بالم کی آنکھیں سرخ رہنے لگی ہیں، بالم انقلابی رہ چکا ہے اس کی سرخ آنکھیں کسی خونی انقلاب کا پیشہ خیمہ تو نہیں ہیں؟آنکھوں کا معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے دمڑی سے کہا ”تیرے دوست نے جو سپنے دیکھے تھے وہ اس کی بائیں آنکھ میں اٹک گئے ہیں“۔”ہم جانتے تھے ڈاکٹر، ہم جانتے تھے“ دھنراج دمڑی نے کہا ”جب بالم کالج اور یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ہم نے اسے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ بائیں بازو کو چھوڑو دائیں بازو کی طرف جھک جاؤ۔ پاکستان کو دائیں بازو کے بیس میں رہنا ہے۔ اس بدبخت نے ہماری ایک نہ سنی۔ ہم جانتے تھے یہ ایک روز پچھتائے گا مگر تب بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ آج اس کی بائیں آنکھ میں گڑ بڑ ہو گئی ہے۔ کل اس کی بائیں ٹانگ، بایاں بازو فالج میں مفلوج ہو جائیں گے۔ اس کے شاطرانہ بھیجے کا بایاں حصہ ہو جائے گا“۔”تم اگر اپنی تقریر بند کرو تو میں کچھ عرض کروں“۔ دھنراج کو چپ کراتے ہوئے میں نے ڈاکٹر سے کہا ”دھنراج دمڑی کی مت سنیں۔ اس کی مت ماری گئی ہے“۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا ”آپ میری آنکھ میں اٹکے ہوئے تعبیروں سے محروم خواب آپریشن کر کے نکال دیجئے“۔دوسرے روز ڈاکٹر نے مجھے آپریشن کے لئے بلایا۔ آپریشن تھیٹر میں لے گیا۔ میری بائیں آنکھ کا آپریشن کر ڈالا۔ اپنے کمرے میں لاکر مجھے بٹھایا۔ دھنراج دمڑی ڈاکٹر کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے غور سے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ”آپ پریشان دکھ رہے ہیں ڈاکٹر صاحب، آپریشن کامیاب نہیں ہوا کیا؟“
ڈاکٹر نے کہا ” اس کی بائیں آنکھ میں اٹکے ہوئے خواب کھسک کر اس کی دائیں آنکھ میں جا کر اٹک گئے ہیں“۔”یہ تو ممکن ہی نہیں ہے ڈاکٹر صاحب“۔ دھنراج دمڑی نے کہا ”بالم پیدائشی طور پر کھبچوہے، میرا مطلب ہے لیفٹسٹ ہے“۔میں نے دھنراج دمڑی کو ڈانٹتے ہوئے کہا ”تجھے لیفٹسٹ کی معنیٰ آتی ہے“۔”ابے چپ! دہریا، کمیونسٹ کہیں کا“۔ دھنراج نے مجھے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا ”بڑا آیا مجھے لیفٹسٹ کی معنیٰ بتانے والا“۔ ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے دھنراج دمڑی نے کہا ”ڈاکٹر صاحب یہ شخص کھبچو تھا، میرا مطلب ہے لیفٹسٹ تھا، لیفٹسٹ ہے اور لیفٹسٹ مرے گا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کی بائیں آنکھ کے سپنے اس کی دائیں آنکھ میں آکر اٹک جائیں“۔ڈاکٹر نے کہا ”آپریشن کرکے مجھے اس کی دائیں آنکھ سے بائیں آنکھ کے سپنے نکالنے پڑیں گے ورنہ اس کی دائیں آنکھ ضائع ہو جائے گی“۔میں نے پوچھا ”وہ کیوں ڈاکٹر صاحب؟“ ڈاکٹر نے کہا ”وہ اس لئے کہ بائیں آنکھ کے سپنے دائیں آنکھ سے نہیں دیکھے جاتے اور دائیں آنکھ کے سپنے بائیں آنکھ سے نہیں دیکھے جاتے۔ تم اگلے پیر کے روز میرے پاس آنا۔ میں تمہاری دائیں آنکھ میں اٹکے ہوئے بائیں آنکھ کے سپنے نکال دوں گا“۔ مجھے یاد آیا کہ میں کچھ کچھ لیفٹسٹ اور کچھ کچھ رائٹسٹ ہوں۔ میں بائیں سے بالنگ کرتا ہوں اور دائیں ہاتھ سے بیٹنگ۔
تازہ ترین