پاکستان میں نیا سال شروع ہونے سے قبل ہی پولیو مہم چلانے والے افراد کے قتل کے واقعات نے عالمی سطح پر ملکی امیج کو مزید خراب کر دیا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے پاکستان کو سپورٹ کرنے والے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی سوچ اور انداز بدل سکتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے پاکستان میں خدانخواستہ کوئی بڑی سے بڑی تباہی ہو یا بیماری، اس کے امدادی کاموں کے لئے غیر ملکی ادارے یا ماہرین آنے سے معذوری ظاہر کرنا شروع کر دیں گے۔ اس طرح کی صورتحال ایک طرف تو حکومت کی امن و امان بحال کرنے کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے تو دوسرا پاکستان کے داخلی حالات خراب اور عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو ہدف بنانے والے عناصر خواہ وہ بھارتی ہوں یا اسرائیلی یا براہ راست امریکی سب اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں جبکہ قومی سطح پر یہ بات باعث ندامت ہے کہ پہلے ہم اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت میں ناکام رہے اب غیر ملکی ماہرین اور اداروں کی حفاظت کی ذمہ داری میں بھی ناکام ہو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال ملک و قوم کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے جس کے بعد ملکی معیشت ہو یا تجارت، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری ،ہر چیز کا پہیہ رک جاتا ہے۔ ایسے حالات میں جہاں رول آف لاء اور معاشی انصاف نامی چیز ناپید ہوتی جا رہی ہو اور ہمارے سیاسی قائدین 2013ء کے متوقع انتخابات کے لئے طرح طرح کے لوٹوں کو نئے رنگ دے کر اپنی پارٹیوں میں شامل کر کے انہیں اپنی پارٹیوں میں شامل کرانے میں مصروف ہیں۔ ہمارے خیال میں سیاسی جماعتوں کے اس رویے کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ اس سلسلے میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں ضروری ترامیم کر کے لوٹوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کر سیاسی اصلاحات کے نئے نکات مرتب کرنے چاہئیں جس کے لئے پارٹیوں پر خاندانی اجارہ داری کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ صرف قومی ایشوز پر بات کرنے والی پارٹیوں کو کام کرنے دیا جائے۔ اس وقت ملکی حالات صوبائی سیاست نہیں ، ملکی سیاست اور وفاق کو مضبوط بنانے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اس کے لئے ہماری سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی خواہشات کی قربانی دے کر پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لئے موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے تحت سیاست میں ”لوٹا بزنس“ کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے تمام ذرائع آمدن (ملکی و غیر ملکی) کو انتخابات میں حصہ لینے سے قبل پبلک کرنے کا پابند کیا جائے۔ بار بار پارٹیاں بدلنے والوں پر کم از کم دو عام انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی جائے اور اگر اس دوران کوئی اور سویلین یا غیر اعلانیہ مارشل لاء آنے سے انتخابات موخر ہو جاتے ہیں تو پھر یقینا انہیں بار بار پارٹی بدلنے کی سزا کا دورانیہ 5سال سے 8سال سے بھی بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کی آمدن چھپانے والوں یا ان کے بیوی بچوں (یعنی پورے خاندان) کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے اس لئے کہ اس وقت ہمارے ہاں ”پاور گروپ“ میں شامل بااثر افراد کی اکثریت براہ راست کوئی بزنس نہیں کرتی اور نہ ہی وہ کوئی کاروبار کرتے ہیں لیکن ان کے بچے اور بچیاں اربوں روپے کا کاروبار کر رہی ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں انتخابات میں حصہ لینے کیلئے طریقکار موثر بنا دیا جائے تو اس سے خودبخود نئے خون کو آگے آنے کا موقع مل سکتا ہے اور دوسری طرف اس سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار او رتاجر مطمئن ہو سکتے ہیں ۔ اس وقت گندم ہو یا چینی، کھاد ہو یا پولٹری، کپاس ہو یا ٹیکسٹائل سیکٹر غرض ہر شعبہ میں بااثر لابیاں عوام کے معاشی حقوق پر ڈاکہ ڈالتی اور اقتدار کے پانچوں ایوانوں میں سرگرم نظر آتی ہیں۔ ان اقدامات سے بھی عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر ہو سکتا ہے۔