• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سالِ رفتہ کے دَوران بھی پاکستان پر بدامنی کے سائے چھائے رہے، مگر یہ گزشتہ برسوں کی نسبت قدرے بہتر رہا کہ اس میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی اور سیکیوریٹی اداروں نے سوات سمیت کئی علاقے سویلین انتظامیہ کے حوالے کیے، جو حالات میں بہتری کی ایک واضح علامت تھی۔ گزشتہ برس مجموعی طور پر15خود کُش حملے اور 9بم دھماکے ہوئے، جن میں 74 سیکیوریٹی اہل کاروں سمیت 310 افراد شہید، جب کہ 430 زخمی ہوئے۔ 2017ء کی بات کی جائے، تو اُس برس 23خودکُش حملے اور 25 بم دھماکے ہوئے تھے، جن میں 99سیکیوریٹی اہل کاروں سمیت 455 افراد شہید اور 914 زخمی ہوئے۔ بلاشبہ، اس بہتری کا کریڈٹ پُرعزم سیاسی قیادت، سیکیوریٹی اہل کاروں کی بے مثال قربانیوں اور عوام کے اتحاد کو جاتا ہے۔ نیز، اس سے یہ اُمید بھی پیدا ہوئی ہے کہ اگر تمام ادارے اور عوام یونہی مل جُل کر کام کرتے رہے، تو وہ دن دُور نہیں، جب ہم دہشت گردی کے عفریت سے جان چھڑا لیں گے، جو ایک طویل عرصے سے مُلک و قوم پر مسلّط ہے۔ جولائی، مُلک کے لیے عام انتخابات اور تبدیلی کا مہینہ تھا، تو دشمنوں نے سب سے زیادہ کارروائیاں بھی اسی ماہ میں کیں۔ اس ماہ میں3 خود کُش حملے اور اتنے ہی بم دھماکے ہوئے، جن میں انتخابات میں حصّہ لینے والے مختلف سیاسی جماعتوں کے تین امیدواروں سمیت 194افراد شہید اور250زخمی ہوئے۔ شہداء میں8سیکیوریٹی اہل کار بھی شامل تھے۔ یوں دیکھا جائے، تو صرف جولائی میں ہونے والی شہادتیں، سال کے باقی گیارہ ماہ میں ہونے والے جانی نقصانات سے کہیں زیادہ رہیں، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے سرحد پار کا ہاتھ ہے، جو یہاں کے سیاسی استحکام اور تعمیر و ترقّی سے خوف زَدہ ہے۔ اسی لیے دشمن نے جمہوری عمل کے دَوران عوام کو ڈرانے کی کوشش کی، تاہم عوام اورسیکیوریٹی اداروں کے بے مثال اتحاد نے دشمن کی سازش ناکام بنادی۔ 2018 ء میں بہت سے دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچے۔ اس حوالے سے سیکیوریٹی اداروں نے درجنوں کام یاب آپریشنز کیے، جن میں ریاستی اداروں اور عوام پر حملوں میں ملوّث دہشت گردوں کی بڑی تعداد ماری گئی۔ ان آپریشنز میں سیکیوریٹی اداروں کے افسران اور جوانوں نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ دوسری طرف، فوجی اور دیگر عدالتوں سے سزا پانے والے کئی دہشت گردوں کو پھانسی دی گئی، جن میں اے پی ایس پر حملے میں ملوّث دہشت گرد بھی شامل تھے۔ اس اقدام سے دہشت گردی کم کرنے میں مدد ملی۔ اس ضمن میں پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامّہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے میڈیا کو بتایا گیا کہ ’’ فوجی عدالتوں کے پاس717 دہشت گردوں کے کیسز بھیجے گئے، جن میں سے546 کے فیصلے سُنا دیے گئے۔ فوجی عدالتوں میں 310 دہشت گردوں کو سزائے موت سُنائی گئی، جن میں سے 56 کی سزا پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔‘‘

2018 ء میں پُرامن بلوچستان کی جانب انتہائی تیزرفتاری سے سفر جاری رہا اور قیامِ امن کے کئی اہداف حاصل کرنے میں کام یابی بھی ملی، تاہم اس کے باوجود یہ صوبہ، مُلک کا سب سے زیادہ متاثرہ حصّہ رہا۔ سال کا پہلا خود کُش حملہ، بلوچستان اسمبلی کے باہر ہوا، جس میں 5 پولیس اہل کاروں سمیت 6 افراد شہید ہوئے۔ بعدازاں، امن دشمنوں نے کوئٹہ، تُربت، خاران، مستونگ، پشین، آواران اور کیچ میں بھی کارروائیاں کیں۔ مُلک میں ہونے والے 15 خود کُش حملوں میں سے 8 بلوچستان میں ہوئے، جن میں 23سیکیوریٹی اہل کاروں سمیت 181 افراد شہید ہوئے، جب کہ 4 بم دھماکوں اور فائرنگ کے مختلف واقعات میں 27سیکیوریٹی اہل کاروں نے شہادت پائی۔ اِن میں سے زیادہ خون ریز واقعات جولائی ہی میں ہوئے، جب قوم جمہوری عمل سے گزر رہی تھی۔ 13 جولائی کو مستونگ میں ایک انتخابی ریلی کو نشانہ بنایا گیا، جس میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار، سراج رئیسانی سمیت 130 افراد شہید ہوئے۔ سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، نواب اسلم رئیسانی کے چھوٹے بھائی، سراج رئیسانی اپنی حبّ الوطنی اور بھارت مخالف جذبات کے حوالے سے مشہور تھے۔ پھر عین پولنگ کے روز، کوئٹہ کے ایک پولنگ اسٹیشن پر اُس وقت خود کُش حملہ کیا گیا، جب لوگوں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ اس حملے میں 5 پولیس اہل کاروں سمیت 32 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نیز، اُسی روز بلوچستان کے علاقے، بلیدہ میں فائرنگ کے واقعے میں3 فوجی جوان شہید ہوئے۔ دوسری طرف، جنگ جوؤں کی جانب سے رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈالنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس حوالے سے صوبائی دارالحکومت، کوئٹہ سمیت کئی مقامات پر پُروقار تقاریب منعقد ہوئیں۔

گزشتہ برس پنجاب میں صرف ایک خود کُش حملہ ہوا، جس میں رائے ونڈ پولیس چوکی کو نشانہ بنایا گیا، جس سے 4 اہل کاروں سمیت 9 افراد شہید ہوئے۔ یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر رائے ونڈ کا عالمی تبلیغی مرکز واقع ہے، جہاں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے اور ممکنہ طور پر حملہ آور کا وہی ہدف تھے، لیکن پولیس کی سخت ناکہ بندی کی وجہ سے وہ وہاں تک نہیں پہنچ سکا۔ مئی میں اُس وقت کے وزیرِ داخلہ، احسن اقبال پر آبائی شہر، نارووال میں قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں اُن کے بازو پر زخم آئے، تاہم حملہ آور کو پکڑ لیا گیا، جس نے حملے کی وجہ مذہبی جذبات کو قرار دیا۔ اس واقعے نے امن وامان کے حوالے سے حکومتی ساکھ کو متاثر کیا کہ جب وزیرِ داخلہ ہی محفوظ نہ ہوں، تو پھر عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ 2 نومبر کو راول پنڈی کی ایک معروف نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں مقیم، جے یو آئی( س) کے سربراہ اور معروف دینی درس گاہ، جامعہ حقّانیہ کے مہتمم، مولانا سمیع الحق پُراسرار طور پر قتل کر دیے گئے۔ اس مقدمے میں اُن کے سیکریٹری سمیت بعض افراد کو حراست میں لیا گیا، لیکن تادمِ تحریر تفتیش کے نتائج سامنے نہ آسکے۔ ان تین واقعات کے علاوہ، پنجاب مجموعی طور پر پُرامن رہا، تاہم سال کے آغاز میں 8 سالہ زینب کے زیادتی کے بعد قتل سے نہ صرف قصور، بلکہ کئی دیگر شہروں میں بھی امن و امان کے مسائل پیدا ہوئے۔ مشتعل ہجوم نے سرکاری دفاتر اور حکومتی شخصیات کے گھروں پر حملے کیے، جس کے دوران گولیاں چلنے سے کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ دوسری طرف، اس واقعے کی وجہ سے مُلک بھر میں خوف و ہراس چھایا رہا۔ خاص طور پر خوف زَدہ والدین بچّوں کو گھروں سے باہر بھیجنے سے گریزاں رہے، حتیٰ کہ کئی روز تک اسکولز بھی ویران رہے۔ زینب کیس کے ساتھ ہی مُلک میں بچّوں کی حفاظت سے متعلق اقدامات پر بھی بحث مباحثے شروع ہوگئے اور اس ضمن میں حکومت نے کئی وعدے بھی کیے، لیکن اُن پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ پاکستان کے ہر گھر سے’’ معصوم زینب کو انصاف دو‘‘ کی آواز بلند ہوئی اور اُسے انصاف یوں ملا کہ حکومتی اداروں نے جان توڑ محنت کے بعد ملزم، عمران کو گرفتار کر لیا اور پھر عدلیہ نے انتہائی تیز رفتاری سے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے اُسے سزائے موت سُنائی اور پھر زینب سمیت کئی بچّیوں کے قاتل کو 17 اکتوبر کی صبح کوٹ لکھپت جیل، لاہور میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔

اگر امن و امان کے حوالے سے سندھ پر نظر ڈالیں، تو یہاں 2018 ء کے دوران دہشت گردی کا صرف ایک واقعہ سامنے آیا، جس میں 3 دہشت گردوں نے کراچی میں واقع، چینی قونصل خانے پر حملے کی کوشش کی، جسے تینوں حملہ آوروں کو مار کر ناکام بنا دیا گیا۔ اس واقعے میں دو پولیس اہل کاروں نے بھی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ حکومتِ چین کی جانب سے حملہ ناکام بنانے کی کوششوں پر پاکستانی سیکیوریٹی اداروں کی تعریف کی گئی ۔ یوں صوبے میں مجموعی طور پر امن و امان کی صورتِ حال تسلّی بخش رہی، البتہ صوبائی دارالحکومت، کراچی کے بعض علاقوں سے ایک بار پھر بھتّہ مافیا کے سرگرم ہونے اور اسٹریٹ کرائمز میں تیزی کی اطلاعات اخبارات کی زینت بنتی رہیں۔ گزشتہ سال کے پہلے ماہ کراچی میں ایک مبیّنہ پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود نامی نوجوان کی ہلاکت کا معاملہ بھی گرم رہا۔ ورثا نے اُس وقت کے ایس پی ملیر، راؤ انوار پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگایا اور انصاف کے حصول کے لیے مُلک گیر مظاہرے کیے گئے، جب کہ اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا، جس میں سیاسی شخصیات بھی شریک ہوئیں۔ بعدازاں ملزم، راؤ انوار کو سپریم کورٹ میں پیشی کے موقعے پر حراست میں لیا گیا، تاہم سال کے آخر تک مقدمے کا کوئی فیصلہ سامنے نہیں آ سکا۔ خیبر پختون خوا، جو ایک عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کر رہا ہے، 2018ء میں بھی امن و امان کے حوالے سے خاصا متاثر رہا، لیکن یہاں بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات عام انتخابات ہی کے دوران ہوئے۔10 جولائی کو پشاور میں ایک کارنر میٹنگ کے دوران خود کُش حملے میں اے این پی کے امیدوار، ہارون بلور 21 ساتھیوں سمیت شہید، جب کہ 65افراد زخمی ہوئے۔ تین روز بعد بنّوں میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار اور سابق وزیرِ اعلیٰ، اکرم خان درّانی کے قافلے پر بم حملہ ہوا، جس میں وہ تو محفوظ رہے، لیکن5 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی طرح الیکشن ڈے سے دو روز قبل، ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے دھماکے میں پی ٹی آئی کے امیدوار، اکرام اللہ گنڈا پور جان کی بازی ہار گئے۔ نیز، فروری میں سوات میں والی بال کھیلنے میں مصروف جوانوں پر خود کُش حملے میں کیپٹن سمیت 11 فوجی جوان شہید ہوئے۔ 23 نومبر کو ہنگو بازار میں ایک دینی مدرسے کے باہر خوف ناک دھماکا ہوا، جس میں 34 شہری شہید اور 56 افراد زخمی ہوئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ، ملا فضل اللہ کی جون 2018 ء میں افغانستان میں ہونے والے ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کو دفاعی تجزیہ کاروں نے پاکستان کی ایک بڑی کام یابی قرار دیا، جس سے نہ صرف خیبر پختون خوا، بلکہ پورے مُلک میں قیامِ امن میں مدد ملے گی۔

یوں لگتا ہے، جیسے’’ دھرنا‘‘ سالانہ قومی ایونٹ کا درجہ اختیار کر گیا ہے، کیوں کہ گزشتہ کئی برسوں سے مُلک و قوم کو اس وبا کا سامنا ہے۔ گزشتہ برس 31 اکتوبر کو آسیہ مسیح نامی خاتون کی برّیت کے عدالتی فیصلے کے خلاف مذہبی جماعتوں کی جانب سے مُلک بھر میں دھرنے دیے گئے، جن کے دوران عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لٹھ بردار مظاہرین نے سڑکوں کی بندش کے ساتھ، عام لوگوں کی املاک کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ یہ دھرنے تین روز جاری رہنے کے بعد، حکومت اور تحریکِ لبیّک کے درمیان معاہدہ ہونے پر ختم ہوگئے۔ اس دَوران وزیر اعظم، عمران خان نے قوم سے خطاب میں دھرنا دینے والوں کے نام سخت پیغام بھی دیا، لیکن معاہدے کے بعد اُن کے خطاب پر خاصی تنقید ہوئی۔تاہم،24 نومبر کی رات سیکیوریٹی اداروں نے اچانک مُلک گیر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے دو ہزار کے قریب افراد کو گرفتار کرلیا، جن میں تحریکِ لبیّک کے قائدین، مولانا خادم حسین رضوی اور افضل قادری بھی شامل تھے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ’’ معاہدہ تو دھرنے سے پیدا شدہ صورتِ حال سے نمٹنے کی چال تھی، مگر کسی شرپسند کو نہیں چھوڑا جائے گا۔‘‘ اُنھوں نے دھرنا قائدین پر ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے پر بغاوت کا مقدمہ چلانے کا بھی اعلان کیا۔

پیپلز پارٹی کے دَورِ حکومت میں’’ اسلام آباد سیف سٹی منصوبے‘‘ کا بڑا چرچا رہا اور کروڑوں روپے کی لاگت سے شہر بھر میں کیمروں کی تنصیب کی گئی تاکہ امن و امان سے متعلق معاملات پر نظر رکھی جا سکے۔ نون لیگ کی حکومت میں بھی اس منصوبے پر کام ہوا، لیکن اس سب کچھ کے باوجود اداروں کو اُس وقت سُبکی اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب 26 اکتوبر کو خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے پولیس افسر، ایس پی طاہر خان داوڑ اسلام آباد سے اغوا کر کے افغان صوبے، ننگر ہار پہنچا دیے گئے اور پھر قتل کے بعد اُن کی میّت پاکستان کے حوالے کی گئی۔ اس واقعے سے جہاں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تنازع پیدا ہوا، وہیں اس واردات سے امن و امان کی صورتِ حال پر بھی سوالات اٹھے۔ ایک پولیس افسر کا مُلک کے سب سے محفوظ تصوّر کیے جانے والے شہر سے اغوا اور پھر دوسرے مُلک منتقلی، نئی حکومت اور اس کے فعال وزیرِ مملکت برائے داخلہ کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں تھی، تاہم وہ’’ نوٹس لینے‘‘ سے آگے نہ بڑھ سکے۔ قیامِ امن کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت 1800 علمائے کرام کی جانب سے جاری کیے گئے متفقّہ فتوے’’ پیغامِ پاکستان‘‘ کی صورت میں سامنے آئی۔ تمام مکاتبِ فکر کے نمایاں اور ممتاز علمائے کرام کی جانب سے دیے گئے اس فتوے کو ایوانِ صدر میں 16 جنوری کو منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں جاری کیا گیا۔ اس فتوے میں مسلّح جہاد اور قتال کو ریاست کی ذمّے داری اور نجی جہاد کو ریاست کے خلاف بغاوت قرار دیا گیا۔

گو کہ امن و امان کے حوالے سے بیان کردہ اس منظرنامے میں خون کے بہت سے چھینٹے ہیں، تاہم اسی گھٹا ٹوپ اندھیرے سے وہ سحر نمودار ہوگی، جس میں ارضِ وطن کا چپّہ چپّہ امن کے گیت گائے گا۔ ہاں، یہ صبح اب بس آنے ہی کو ہے…!!

تازہ ترین