• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طاہر القادری نے اتوار کے روز مینار پاکستان کے سایہ تلے لاکھوں کے مجمع سے خطاب کیا۔ انتخابی نظام میں اصلاحات کے لئے حکومت کو 10 جنوری تک کی مہلت، 14 جنوری کو 40 لاکھ افراد لے کے اسلام آباد پہنچیں گے۔
جہاں بھی لوگوں کا جمگھٹا ہوتا ہے وہاں کچھ نہ کچھ ہوتا ہے، اور کوئی نتیجہ بھی سامنے آتا ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ جب بھی کوئی موجودہ نظام، بگاڑ، کرپشن اور بے اعتدالیوں کو ختم کرنے کا اعلان کرتا ہے، لوگ کیوں اتنی کثیر تعداد میں جمع ہو جاتے ہیں، جبکہ اعلان کرنے والا موجودہ سٹیک ہولڈرز میں سے نہیں ہوتا، اگر ایسا ہی اعلان موجودہ دور کا کوئی بڑا سیاستدان حکمران کرتا تو اتنا بڑا تاریخی اجتماع دیکھنے میں نہیں آتا # شاید کہ دریں غبار سوارے باشد (شاید کہ اس غبار میں سوار پوشیدہ ہو) طاہر القادری آج کے سیاستدانوں سے علمی مرتبہ کے حوالے سے بلند ہیں، اور انہوں نے جو کچھ کہا وہی عام آدمی کا مدعا بھی تھا، اگر ان کے ساتھ ان کی سوچ کے حامل کچھ اور بھی مل جائیں جس کے آثار بھی نظر آتے ہیں، تو کیا ایک اور التحریر سکوائر وجود میں نہیں آ جائے گا؟ بہرحال یہ اتنے سارے اخراجات اور پبلسٹی کا طوفان کسی سیلاب کا پیش خیمہ تو نہیں، یا پھر مولانا نے اپنی ساری کمائی لگا دی مگر اس کی توقع نہیں، اور اگر کسی نے یہ اخراجات برداشت کئے تو وہ کونسی قوت ہے، بعض اوقات جب کوئی کسی خدشے کی بار بار نفی کرے تو وہ خدشے کی خبر بھی دے رہا ہوتا ہے، اگر طاہر القادری نے جو کچھ کہا اس کا عشر عشیر بھی کر دکھائیں تو تبدیلی کے امکانات روشن ہیں، عوام یہ جانتے ہیں کہ طاہر القادری وڈیروں، سرداروں، جاگیرداروں اور حاضر سٹاک سیاستدانوں سیاسی پارٹیوں میں سے نہیں ایک دینی سکالر ہیں، اگر وہ ان کی بات کرتے ہیں، تو یہ کسی غیر جانبدار کی آواز ہے، انہوں نے جو بھی کہا اور کر کے دکھانے کا صور پھونکا اس کے اثرات مختلف طبقوں پر مختلف طرح سے اثر انداز ہوئے #
جو سنائی انجمن میں شبِ غم کی آب بیتی
کئی رو کے مسکرائے کئی مسکرا کے روئے
####
نگران حکومت کے قیام کے لئے پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں خفیہ مذاکرات جاری ہیں، دونوں جماعتوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔
دونوں بڑی جماعتوں کو شاید عوام اب دو بڑی جماعتیں کہتے مانتے بھی اب تھک چکے ہیں اس لئے یہ امکانات بھی نظر آ رہے ہیں کہ یہ جاڑے کی دھند کی طرح چھٹ جائیں اور مطلع پر کوئی مزید دو بڑی پارٹیاں نمودار ہو جائیں اور لوگ رویت حالات کمیٹی کے فیصلے کے مطابق عید منائیں، موجودہ دونوں بڑی پارٹیاں اگرچہ دو الگ الگ سیاسی قوتیں ہیں، لیکن مشترکہ مفادات کے حجرے میں یہ مل کر ورد کرتی ہیں، اگر حجرے میں بھی ہجر کی کیفیت رہی تو پھر الیکشن کمیشن ہی کوئی صورت نکالے گا، اور اگر وہ صورت ان دونوں کی صورت سے نہ ملی تو کوئی اور صورتحال پیدا ہو گی، اور یہ سفر جواب کی بار شروع ہوا ہے لیلا ئے سیاست کا خدا جانے ناقہ کہاں جا بیٹھے اور کن یارانِ تیز گام کو محمل تک رسائی حاصل ہو، بہرصورت آج کے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے دیوان اکبر# سے فال لیتے ہیں #
اکبر کی فغاں کو نہ کہو خام خیالی
فرماتے ہیں رو رو کے خود حضرت حالی#
اے خاصہِٴ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
ایک مرتبہ کہیں نکاح ہو رہا تھا، مولوی صاحب ایجاب و قبول کے مراحل طے کرا رہے تھے کہ اچانک ایک اجنبی نمودار ہوا اور اس نے نکاح نامہ مولوی صاحب سے چھین کر کہا یہ شادی ناجائز ہے، کیونکہ یہ نکاح پر نکاح ہے، پا کستان جو ایک عطیہ خداوندی ہے، اس پر کھڑے ہو کر 65 برس سیاسی ٹپے گائے جاتے رہے، اب شاید یہ دھرتی رجز گانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ پانی ایک نہیں سات سروں سے اونچا ہو چکا ہے، پیچھے سے کوئی بند توڑنا ہو گا، یہ بند کوئی بندِ قبا نہیں کہ پاکی ٴ داماں کی جھوٹی کہانی کو سچ ثابت کیا جا سکے۔
الیکشن کمیشن ہی نگران حکومت قائم کرے، فخر الدین ابراہیم جی اچھا بندوبست کریں گے۔
####
ملکہ ترنم نور جہاں کی برسی کے حوالے سے ملک بھر میں مختلف تقریبات منعقد کی گئیں۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھو ں کہ اے لیئم
تو نے وہ گنجہائے گرانمایہ کیا کئے
آج بھی عندلیب ایشیا کی آواز کا نور سارے جہاں میں پھیلا ہوا ہے، آج بھی تینوں سپتکوں پر محیط یہ گیت کانوں میں مصری گھولتا ہے۔
سن ونجلی دی مٹھڑی تان وے
میں تاں ہو ہو گئی قربان وے
کوکبتہ الشرق ام کلثوم کے بعد عندلیب مشرق ملکہٴ ترنم نور جہاں دوسری بڑی آواز ہے، جو موسیقی کی تنگنائیوں میں یوں گونجتیہے جیسے بانسری کے چھدے ہوئے سینے سے درد کے سُر نکلتے ہیں، ملکہ ترنم کی تانیں آرکسٹرا پر غالب تھیں، کو مل اور کھرج کی خوبصورت آمیزش سے سجی اُن کی آواز میں بڑے حسین موڑ آتے تھے، جو آواز تاثر پیدا نہ کرے، وہ میکانکی آواز ہوتی ہے، وہ قصور کی تھیں، گاتی تھیں تو قصور کے سارے قصور مٹ جاتے تھے، اب وہ ہم میں نہیں مگر کہیں تو ہیں اور دل پکار اٹھتا ہے #
کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جا اینجا است
(کرشمہ دل کے دامن کو کھینچ کر کہتا ہے وہ یہیں کہیں ہے)
وہ آسودہ، کراچی کی خاک میں ہیں اور دھوآں سا لاہور سے اٹھتا ہے، بہرصورت وہ گویا ایک سجی سجائی رنگ برنگی پیسٹری جیسا چہرہ رکھتی تھیں، اور آنکھوں میں ایسا جادو تھا کہ کبھی سر چڑھ کر اور کبھی حسینوں کے منہ چڑا کر بولتا تھا،
حق مغفرت کرے کیا سریلی کوئل تھیں۔
####
اداکارہ لیلیٰ پر چوری کا الزام، 3 گھنٹے شاپنگ سنٹر میں قید رہیں، وہ کہتی ہیں چوری نہیں کی غلطی سے 3 ہزار کی شاپنگ کا بل ادا نہ کرنے پر دکاندار نے روک لیا۔
ایک شخص کسی کے کھیت سے خربوزے چوری کر کے گھٹلی سر پر رکھ کر جانے لگا تو کھیت کا مالک آ گیا، اس نے کہا میرے کھیت سے یہ خربوزے توڑ کر کہاں جا رہے ہو، خربوزہ چور نے لیلیٰ جیسی معصومیت سے کہا میری کوئی غلطی نہیں ایسی زور کی آندھی چلی کہ مجھے تمہارے خربوزوں کے کھیت میں لا پھینکا، مالک نے پوچھا یہ خربوزے کس نے توڑے، چور نے کہا یہ بھی تیز ہوا نے توڑے، مالک نے پھر پوچھا یہ سارے خربوزے اکٹھے کر کے ان کی گھٹلی باندھ کر تمہارے سر پر کس نے رکھی، خربوزہ چور نے کہا یہی تو میں بھی سوچ رہا ہوں کہ یہ کس نے کیا؟
لیلیٰ برا نہ مانیں تو لیلیٰ ایک تھی اور وہ دو نمبر لیلیٰ نہ ثابت ہوتیں اگر 3 ہزار کی شاپنگ کے بعد بل ادا کئے بغیر چل نہ پڑتیں، اور 3 گھنٹے دکاندار کی تحویل میں نہ رہتیں، ویسے کچھ بھی ہو لیلیٰ نے ہر وقت تو نہیں پی رکھی ہوتی کہ وہ ایسا کام کرے، بس بھول گئی ہو گی اور بھول چوک تو خود دکانداروں سے بھی ہو جاتی ہے، ویسے 3 گھنٹے میں ایک ہزار فی گھنٹہ کے حساب سے، حساب برابر ہو جاتا ہے، یہ کیا معمولی بات ہے کہ لیلیٰ جیسی من موہنی صورت والی اداکارہ نے دکاندار کو اپنی حسین چوری کی فضیلت عطا کر دی، یہ حسین تو دل لے جاتے ہیں، تو کیا پوچھ کر لے جاتے ہیں، حضور دل کے سامنے 3 ہزار کی کیا وقعت، لگتا ہے دکاندار کے سینے میں دل ہی نہیں۔
تھوڑی سی جو چیزیں اٹھا لی ہیں
چوری تو نہیں کی ہے ڈاکہ تو نہیں ڈالا
تازہ ترین