• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسٹر ایکس سے میری دوستی تو نہیں البتہ اچھی جان پہچان ہے، آپ سر تا پا پروفیشنل ہیں، ہر وقت سوٹ ٹائی میں ملبوس رہتے ہیں، جیب میں تعارفی کارڈز کا پورا ڈبہ لیے گھومتے ہیں، غیر ملکی یونیورسٹیوں سے مختلف سندیں، کورسز اور نجانے کیا کچھ حاصل کر رکھا ہے، آئے دن کسی نہ کسی موضوع پر لیکچر دینے پہنچے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ ان کے پاس ہر کام کی ایک ڈگری موجود ہے یا پھر چھوٹا موٹا ڈپلومہ تو ضرور ہے۔ ہر مسئلے کا ایک پروفیشنل حل اُن کے پاس موجود ہے جو ایک کنسلٹنٹ کی ہائرنگ سے شروع ہوتا ہے اور ٹی او آر بنانے پر ختم ہو جاتا ہے۔ فیس آپ ڈالروں میں وصول کرتے ہیں، لیکن جہاں ملک کا معاملہ درپیش ہو وہاں سخت گیر رویہ نہیں رکھتے اور وطن کی محبت کی خاطر روپے بھی قبول کر لیتے ہیں۔ پچھلے دنوں میرے پاس آئے تو خلافِ توقع شلوار قمیص پہنے ہوئے تھے، بہت خوش دکھائی دے رہے تھے، اپنے دائیں ہاتھ کو بار بار بہت پیار سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے خوشی کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ حاکمِ وقت سے ایک تقریب میں ملاقات کر کے آ رہا ہوں، وہاں اُن سے ہاتھ بھی ملایا۔ میں نے پوچھا کس تقریب میں یہ موقع ملا، کہنے لگے کہ جس میں ایک نئی یونیورسٹی بنانے کا اعلان ہوا ہے اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ بہت جلد انہیں اس ضمن میں ایک نئی پروفیشنل اسائنمنٹ بھی مل جائے گی۔ میں نے کہا کہ جناب والا! جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے آپ تو پچھلی حکومت بلکہ اُس سے پچھلی حکومت میں بھی حکمرانوں کے ساتھ تھے اور اب موجودہ حاکمِ وقت کے ساتھ بھی ہیں، تو کیا آپ کا اپنا کوئی نظریہ نہیں؟ میری بات سُن کر مسٹر ایکس نے چونک کر میری طرف دیکھا ’’نظریہ؟ یہ نظریہ کہاں سے آ گیا؟ بھئی میں ایک پروفیشنل ہوں، میرے ملک کو جب بھی میری خدمات کی ضرورت پڑے گی تو میں ہر وقت حاضر ہوں، اب اگر روزانہ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں تو کیا میں اس لئے کسی حکومت کے ساتھ کام نہ کروں کہ میں پچھلی حکومت کا کنسلٹنٹ تھا؟‘‘ مسٹر ایکس نے گویا میرے سوال کی دھجیاں اڑا دیں مگر میں بھی آسانی سے ہار ماننے والا نہیں تھا، تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے ایک اور سوال داغا ’’اچھا یہ بتائیں کہ اگر ایک غاصب آئین پامال کرکے حکومت بنا لے اور آپ سے تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کے لئے مدد مانگے تو کیا آپ بطور پروفیشنل اس کام میں ہاتھ بٹائیں گے؟‘‘ یہ سوال مسٹر ایکس کو بہت آسان لگا۔ پہلے تو انہوں نے تبسم فرمایا پھر یکایک چہرے پر خواہ مخواہ متانت اور سنجیدگی پیدا کرکے بولے ’’بات یہ ہے کہ اس ملک کا مسئلہ ہی تعلیم ہے، ملک میں آمریت آتی ہی اس لیے ہے کہ لوگ ناخواندہ ہیں، سو اگر کوئی آمر مجھے اس نیک مقصد کے لیے انگیج کرے گا کہ میں تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کا پروگرام لے کر آؤں تو اس سے اچھی بات بھلا کیا ہو سکتی ہے، ملک و قوم کی بہتری کے لیے اگر ہم کام نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا، اور پھر ہم پروفیشنل لوگ اگر اسی چکر میں پڑے رہے کہ فلاں حکمران آمر ہے، فلاں کرپٹ ہے، فلاں سے میرا نظریہ نہیں ملتا اور فلاں کے مخالف کے ساتھ میں نے کام کیا تھا تو اس طرح تو ہم پروفیشنل لوگ کسی بھی حکومت کے ساتھ کام نہیں کر سکیں گے، پھر ملک کے لیے کون کام کرے گا!‘‘ یہ آخری بات کر کے تو مسٹر ایکس نے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔

کچھ دیر فضا میں منافقانہ قسم کی خاموشی رہی، میں نے انہیں چائے پیش کی جسے انہوں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا، چائے کی چسکی لیتے ہوئے انہوں نے مجھے فیضؔ کا ایک انقلابی قسم کا شعر سنایا اور داد طلب نظروں سے میری طرف دیکھا مگر میں نے داد دینے کے بجائے ان کی دلیل کا جواب دینا مناسب سمجھا ’’اگر آپ کی بات کو درست مان لیا جائے تو پھر انسان کو زندگی میں کوئی بھی نظریہ اپنانے کی ضرورت نہیں... پھر چاہے ہٹلر آئے یا اسٹالن، غیر ملکی فوج قابض ہو جائے یا آمریت آ جائے، کرپٹ سویلین حکومت ہو یا غیر نمائندہ جمہوریت... بطور پروفیشنل آپ تو ہر حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں... آپ جیسے پڑھے لکھے جب ایک باطل حکومت کے ساتھ کام کرتے ہیں تو اصل میں اُس باطل حکومت کو آپ قانونی جواز فراہم کر دیتے ہیں جس کی اُس حکومت کو اشد ضرورت ہوتی ہے...‘‘ میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ مسٹر ایکس نے قہقہہ لگا کر کاٹ دی ’’آپ سیدھی طرح یہ کیوں نہیں کہتے کہ جو حکومت آپ کو پسند ہے، وہی ٹھیک ہے اور اسی کے ساتھ کام کرنا چاہئے!‘‘ مجھے اندازہ تھا کہ مسٹر ایکس میری بات کو ایسے ہی توڑ مروڑ کر پیش کریں گے اس لیے میں نے برا نہیں منایا اور اپنی بات جاری رکھی ’’میں صرف یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ آپ جس بھی حکومت کو درست اور جائز سمجھتے ہیں اس کے ساتھ ضرور کام کریں... مگریہ کیا کہ آمریت آئی تو اس میں بھی شامل... آج آپ حاکمِ وقت کے ساتھ ملاقات کرکے آ رہے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے، جبکہ گزشتہ پانچ برسوں میں آپ پچھلے حاکموں کے ساتھ بھی ایسے ہی پروفیشنل تھے... اپنا کوئی نظریہ تو رکھیں!‘‘ مسٹر ایکس نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا، مجھ پر ایک خشمگیں نگاہ ڈالی اور یہ کہہ کر رخصت ہو گئے کہ ’’میں ایک پروفیشنل ہوں، میرے ملک کو جب جب میری ضرورت پڑے گی، میں لبیک کہوں گا‘‘۔

مسٹر ایکس کے جانے کے بعد میں نے اردو لغت کھولی اور پروفیشنل کے معنی تلاش کیے، لکھا تھا ’’پیشہ ور‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی پروفیشنل اردو میں اپنا تعارف نہیں کرواتا کہ وہ پیشہ کرتا ہے، آپ جس پروفیشنل سے بھی ملیں گے وہ آپ کو یہی بتائے گا کہ میں آئی ٹی پروفیشنل ہوں یا میں منیجمنٹ پروفیشنل ہوں یا پھر یہ کہے گا کہ We are very professional peopleجس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ہم اس شعبے کے قابل اور اپنے کام کے ماہر لوگ ہیں۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر پروفیشنل ہونے کا مطلب یہ کب سے ہو گیا کہ میرا کوئی نظریہ ہی نہیں! جب کوئی بندہ خود کو پروفیشنل کہتا ہے تو وہ یہ کیوں فرض کر لیتا ہے کہ وہ بالکل غیر سیاسی ہو گا اور حق و باطل میں اس لئے فرق نہیں کرے گا کیونکہ وہ تعلیم کے شعبے میں کنسلٹنٹ ہے یا معاشی امور کا ماہر ہے یا آئی ٹی پروفیشنل ہے! حق اور باطل میں فرق کرکے حق کا ساتھ دینے اور باطل کے خلاف کھڑے ہونے کو تو ہم نے گھٹیا قسم کا کائی کام سمجھ لیا ہے، جو فعال سیاسی کارکن، لکھاری، فلسفی، ادیب، اپنے اپنے نظریات کے مطابق کسی کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں ہم انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہیں احمق سمجھتے ہیں جو اپنے نظریات کی خاطر تکلیف اٹھاتے ہیں۔ بھلا نظریے کی خاطر صعوبتیں برداشت کرنا کہاں کی دانشمندی ہے! دانشمندی تو پروفیشنل ازم میں ہے۔ اجلے کپڑے پہن کر، سیاسی غل غپاڑے اور غلاظت سے دور رہ کر، ہر حکومت میں شامل رہنا ہی تو ہمارے نزدیک اعلیٰ اور پروفیشنل کام ہے... اور کیوں نہ ہو... اس میں کوئی نظریہ اپنانا پڑتا ہے اور نہ حق اور باطل کے جھنجھٹ میں پڑنا پڑتا ہے کیونکہ ہم تو ’’پیشہ ور‘‘ ہیں!

تازہ ترین