• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقریباً50سال قبل 1970ء کی دہائی میں مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی وجود میں آئی تھی ۔جس نے تمام سیاسی جماعتوں کو سوشلزم کے نام پر پیچھے چھوڑ دیا اور روٹی ،کپڑا اور مکان کے نام پرکئی معاشی تجربات کئے ۔جس میں بڑی بڑی کمپنیاں قومی تحویل میں راتوں رات لے لی گئیں ۔ بینک، انشورنس ،تعلیمی ادارے اس کے علاوہ تھے۔ حزب اختلاف والے چلاتے رہے مگر بھٹو صاحب نے کسی کی پروا نہ کی، بعد میں یہ تمام تجربات ناکام ثابت ہوئے اور خود بھٹو صاحب کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے اپنے ادوار میں ڈی نیشنلائیز کرکے ان کو نیلام کردیا۔اب اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کو بھی تمام سیاسی جماعتوں کی شکست کی وجہ سے قوم نے یہی مقام دیا ہے کہ وہ قوم کے لوٹے ہوئے کھربوں روپے واپس خزانے میں جمع کرائے جو اُس نے الیکشن سے قبل قوم سے وعدہ بھی کیا تھا۔ گوکہ تمام ادارے بشمول نیب،ایف آئی اے ،عدلیہ سب مل کر زور لگا رہے ہیں کہ لوٹنے والوں کا گھیرا تنگ کریںاور ان کرپٹ سیاستدانوں اور کرپٹ بیوروکریٹس کو کٹہرے میں لائیں مگر قانونی تقاضوں کی آڑ میں یہ سب معصوم بن کر قوم کو باور کرارہے ہیں کہ سب کچھ سیاسی عداوت کے سوا کچھ نہیں ہے اور سب مل کر وزیراعظم عمران خان کو لتاڑرہے ہیںکہ ہم بہت جلد تمہاری حکومت کا تختہ الٹ دیں گے ۔اس میں تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کا اب ایک الگ ایجنڈابن چکا ہے ۔دوسری طرف نیب ،ایف آئی اے دن رات ایک کرکے سینکڑوں افراد کے خلاف کیس بنا چکی ہے ۔مگر یہ کیس بظاہر لولے لنگڑے لگتے ہیں۔عدلیہ بھی کمزور نظر آتی ہے کھربوں کی ناجائز جائیدادوں کی موجودگی میں وہ بے بس ہے کہ کیسے ذمہ داروں کو جکڑےاور قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لائے ۔متحرک چیف جسٹس ثاقب نثار اپنے رفقاء کے ساتھ اس کوشش میں ہیں کہ قوم کا پیسہ سرمایہ واپس آئے اور جانے سے پہلے ڈیم کی تعمیر شروع ہوجائےمگر دوسری طرف پی ٹی آئی کے نادان وزرااپنی بے تکان غلطیوں سے عوام کو مایوس کررہے ہیں،سب سے بڑی غلطی ڈیم کا310ارب روپے کا ٹھیکہ پارٹی مشیر تجارت رزاق دائود کی فرم کو قانونی تقاضے پورےکئے بغیر دے کر حزب اختلاف کے منہ میں اپنا سر پھنسا دیا ہے۔ ماضی کی کرپٹ حکومتیں یہی کرتی رہی ہیں ۔کیا ضرورت تھی مشیر تجارت کو یہ ٹینڈر بھرنے کی اور پھر کسی اور نے ٹینڈر ہی نہیں بھرا تو قانوناً دوبارہ ٹینڈر جاری کیا جاتا مگر خاموشی سے وزیرتجارت کی فرم کے حوالے کردیا گیا یہ دھبہ اب کیسے دھلے گا۔آپ کو ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی آگاہ کررہی ہے۔ اسی نکتہ چینی میںان کا اپنا ایک مشیر بھی خاموشی سے فارغ ہوچکا ہے ۔لگتا ہے ہمارے وزیراعظم اپنے کسی دوست پر تنقید بھی برداشت نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے ان وزراکی غلطیوں پر نظر رکھتے ہیں جو ماضی میں دوسری سیاسی جماعتوں سے نکل کر پی ٹی آئی کی زینت بنے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ مرحوم بھٹو اپنے ایک ایک وزیرکی فائل بناکر ریکارڈ رکھتے تھے مگر یہاں تو سادگی اور ریاست مدینہ کے نام پر گورنر سندھ چالیس گاڑیوں کے قافلے میں اندرون سندھ کا دورہ کرتے ہیں اور ہمارے صدر عارف علوی ایک طرف ائیر پورٹ پر تنہا بورڈنگ کارڈ لیتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف جمعہ کو مسجد میں نمازی لائن میں لگ کر الیکٹرک تھرو گیٹ سے گزارے جاتے ہیں یہ کیسا تضاد ہے یا قوم سے مذاق۔صرف چند گاڑیاں اور بھینسیں بیچ کر قصرصدارت یا گورنر ہائوس کو عوام کے لئے کھول کر کیا اربوں کے اخراجات کم ہونگے یہ وعدے کیا ہوئے ۔اب میڈیا سے سب کچھ پتہ لگ جاتا ہے ۔کیا صرف کراچی میں ہی تجاوزات تھیں جو اُس کو ادھیڑ کے رکھ دیا ہے وہ بھی کراچی کے مخصوص علاقوں کو ٹارگٹ کرکے صفائی کی جارہی ہے ۔سہراب گوٹھ ،کٹی پہاڑی ،ہزارہ کالونی ،ڈی ایچ اے کے ساتھ لگی ہوئی کچی بستیاں کسی کو نظر نہیں آرہیں ۔لاہور ،ملتان ،اسلام آباد ،راولپنڈی ،فیصل آباد کے بازار جو تجاوزات سے پیدل چلنے والوں کے لئے بھی دشوار ہوچکے ہیں ان کی اصلاح کے لئے کوئی پروگرام نہیں ہے۔پھر کراچی کا دورہ کرکے کہا جارہا ہے کہ کراچی والوں کے لئے خصوصی اقدامات کئےجائیں گے ۔یہ کراچی بھی عجب شہر ہے دو صدور آئے اور چلے گئے مگر کسی کو بھی کراچی کی ترقی کا خیال نہیں آتا ۔پانچ سال گزار کر بھی کچھ نہ کرسکے ۔کیا ہمارے موجودہ صدر صاحب کو صرف جمعہ پڑھنے کے لئے کراچی یاد آتاہے وہ خود تو بہت وضع دار شخصیت ہیں ۔سندھ حکومت کراچی والوں کے لئے تو کچھ نہ کرسکی مگر وہ تو کراچی کی کم از کم سڑکیں ٹھیک کرادیں اور پینے کا پانی ہی دلوادیں ۔نوازشریف نے لاہور کو پیرس بنادیا آج لاہور والے اُن کے لئے لڑنے مرنے کے لئے بھی تیار رہتے ہیں ،مسلم لیگ ن کے صدر ممنون حسین نے بھی کراچی کے لئے پانچ سال میں کچھ نہیں کیا آج وہ خاموشی سے زندگی گزاررہے ہیں۔آپ کم از کم پی ٹی آئی کے صدر کی حیثیت سے کچھ تو کراچی والوں کا خیال کریں جن کے ووٹوں سے آپ صدر منتخب ہوئے ہیں ۔کل آپ نے بھی ماضی کا حصہ بن جانا ہے کچھ تو کراچی کے زخموں پر مرہم رکھیں ۔دوتہائی بجٹ کا ٹیکس دینے والا شہر آج کھنڈر بن چکا ہے کیا دوبارہ ووٹ نہیں لینا ؟۔کراچی والوں نے پہلی مرتبہ 40سال کے بعد مہاجر فیکٹر سے ہٹ کر پی ٹی آئی پر اعتماد کرکے ووٹ دیئے ۔نصف درجن وزرا کے باوجود کراچی کا کوٹہ سسٹم بھی ختم نہیں کراسکے ۔

اس ملک میں سب کچھ وہی ہورہاہے جو 70سال سے ہوتا چلاآرہا ہے کچھ بھی تو تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔

تازہ ترین