• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے عظیم الشان جلسہ نے اس سلوگن کو حقیقت کاروپ دے دیا ہے کہ ”آج تبدیلی کادن ہے“ شدید سردی میں لاکھوں افراد (جن میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی) کی شرکت کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ عوام موجودہ فرسودہ نظام سے تنگ آچکے ہیں اس کو مستردکرکے ”تبدیلی چاہتے ہیں“ چند روزقبل جب قاضی فیض نے بڑے زور سے یہ دعویٰ کیاکہ منہاج القرآن کا جلسہ عام فقید المثال ہوگا تواسے ”نیک خواہش“ سمجھ کر کسی ردعمل کااظہارنہیں کیا گیا لیکن 23دسمبر کوایسا ہی کچھ ہوا۔ جو یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا پرامن جلسہ تھا۔ قواعد میں کچھ زیادہ مبالغہ بھی تو نہیں کہ مینار ِ پاکستان پر چاروں طرف جلسہ ہی جلسہ تھا۔ چند ایسے جنہوں نے جانبداری کی عینک لگا رکھی ہے جوایک ہی راگ ملہار الاپ رہے ہیں ان کی جانب سے علامہ صاحب پر الٹ پلٹ کر تنقید کی گئی اور ایساکرنے کا انہیں حق بھی ہے لیکن یہ جلسہ عام صرف ایک شخصیت سے انتساب نہیں کیاجاسکتا یہ تو حکمرانوں، سیاستدان کی بداعمالیوں، کرپشن، لوٹ مار کے خلاف کھلی بغاوت کا مظہر تھا۔ لوگ اپنے دکھوں، مسائل ومصائب کے خاتمے کی نوید سننے آئے تھے اور علامہ صاحب پر اعتماد کا اظہارتھا۔
منہاج القرآن کے ذمہ داران اور کارکن مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انتہائی منظم جلسہ کا انتظام کیا گیا۔ اتنے بڑے جلسے میں کوئی بدنطمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ کوئی کرسی لے کر نہیں بھاگا۔ یہ کہا گیا کہ عوام کو جلسہ میں آنے سے روکا جارہا ہے اس کے باوجودہنگامہ نہیں ہوا۔ مختلف شہروں اور علاقوں سے قافلے اس حسن کے ساتھ پہنچے کے سڑکوں پرٹریفک معمول کے مطابق رواں دواں رہی۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے تقریباً پونے دو گھنٹے کے خطاب میں اس بات پرزور دیا کہ آئین کے مطابق انتخابی نظام کو پہلے تبدیل کیا جائے اس کے بعد عام انتخابات قبول ہوں گے تاہم انہو ں نے یہ نوید بھی دی کہ آنے والے دور میں ملک میں ہر شخص کو مکان، روزگار، تعلیم ، صحت، بروقت انصاف مہیا کیا جائے گا۔ تاجر، مزدور، کسان سب کا منتخب ایوانوں میں کوٹہ مقرر کرکے انہیں بھی شریک ِ اقتدار کیا جائے گا۔ یہ کہنا ہرصورت درست ہے کہ ملک اندرونی وبیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ سب سے اہم اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی ایک اہم اتحادی جماعت کا ایک 20رکنی وفد وفاقی وزیرڈاکٹرفاروق ستار کی قیادت میں جلسہ میں شریک تھااور بعد میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ان کی تائید کی اور ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین اور نائب وزیراعظم پرویز الٰہی نے انہیں کامیاب جلسے پر مبارکباد دی۔ عوامی حلقوں کاکہنا ہے کہ ڈاکٹرصاحب نے جوکچھ کہا ”وہ عوام کے دل کی آواز ہے“ زمینی حقائق اس کی تصدیق کرتے ہیں کیا یہ سچ نہیں کہ ملک اس وقت شدید سیاسی اورمعاشی بحران سے دوچارہے۔ معیشت مفلوج ہو کررہ گئی ہے۔ ملکی سرمایہ فرار ہو رہاہے۔ کراچی، بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ خیبرپختونخوا میں ہشت گردی روز کا معمول بن گئی اور اب توبشیر احمد بلور ساعوامی رہنما بھی شہید کردیا گیا ہے۔ کرپشن کا حال یہ ہے کہ ایک اہم حکومتی ادارے کا سربراہ بھی اس کی تصدیق کر رہا ہے کہ ملک میں یومیہ دس بارہ ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ ہرطرف لوٹ مار، اقربا پروری کابازار گرام ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں پرعملدرآمد نہیں ہورہاہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ جب ڈاکٹرطاہر القادری یہ کہتے ہیں کہ نظام بدلو تو اس پر برہم ہونے کے بجائے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اعتراض کیاگیا کہ حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے کو ہے الیکشن میں چند ماہ باقی ہیں۔ اس وقت ”انتخابی نظام بدلو“ نعرہ بے وقت کی راگنی اور عام انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے جبکہ ڈاکٹرصاحب اس کی تردید کرتے ہیں اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ جمہوریت اور الیکشن کے حامی ہیں۔ صرف اتنی سی گزارش ہے کہ آئین کے مطابق انتخابی سسٹم مرتب کرکے اس کے تحت انتخابات کرائے جائیں۔ ایسے انتخابات جن میں ممبری خریدی نہ جاسکے۔ صرف کروڑپتی ہی الیکشن لڑنے کے اہل ہوں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ملک میں دو پارٹیوں کی سیاسی آمریت اور خاندانی وراثت کا نظام قائم ہے اور پڑھے لکھے بلاصلاحیت نوجوان اس نظام کے تحت ایسے منتخب ایوان کارکن بننے کا تصور نہیں کرسکتے ڈاکٹرطاہر القادری انہیں ان کا جمہوری حق دلانے کی بات کرتے ہیں تو اس میں ناراض ہونے کی بات کیا ہے۔اس کاجواب تو نہیں دیا جاتا ان کے لباس، ٹوپی، بیرون ملک قیام پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں یہ بھی کہا گیا کہ ان باتوں کاانہیں پہلے خیال کیوں نہیںآ یا۔ اب کیا انہیں خواب آئے ہیں کہ وہ کینیڈا سے واپس آ کر ”عوام کے حق“ میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ علامہ طاہر القادری نے ایسے تمام خدشات کا اپنی تقریر میں جواب دیاہے اورحلف اٹھایا ہے کہ ان کا کسی ایجنسی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے ایجنڈا پر کام کر رہے ہیں۔ ملک اس وقت جن حالات سے دوچار ہے اس کی وجہ سے صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ الطاف حسین تو جاگیرادانہ اور وڈیرا شاہی نظام کے خاتمہ کی بات کرتے ہیں۔ عمران خان بھی تو نئے پاکستان کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ انقلابی تبدیلی کا ایجنڈا بھی دیا ہے اب اگر ایم کیو ایم، عوامی تحریک اور تحریک انصاف ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو رہے ہیں تو اس کا خیرمقدم کرنے کی بجائے گھبراہٹ کااظہار کیوں کیا جارہا ہے۔ علامہ صاحب نے ایک اور یہ اعلان بھی کردیاہے جس میں حکمرانوں ، سیاستدانوں کوصرف 17 دن کی مہلت دی ہے کہ 10 جنوری تک آئین کے مطابق انتخابی نظام میں تبدیلی کرلیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو 14 جنوری کو اسلام آباد کی جانب مارچ ہوگا۔ وہ لانگ مارچ کریں دھرنا دیں یہ ان کا جمہوری حق ہے لیکن اتنا ضرور خیال رکھیں کہ جمہوریت ”ڈی ریل“ نہ ہو کوئی غیر جمہوری طاقت ”ان دیکھے ہاتھ“ اس سے فائدہ نہ اٹھالیں۔ میر ی ان سے گزارش ہے کہ اتنی بھی سختی نہ کریں اگرچہ یہ درست ہے کہ وقت تیزی سے گزر رہاہے۔ ”ریاست بچاؤ “ کے لئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاہم 17 دن کی مہلت قدرے کم ہے ممکن ہو تو اس میں کچھ توسیع کردی جائے تاکہ تمام ذمہ داران کو مل بیٹھ کر ”درمیانہ راستہ“ تلاش کرنے میںآ سانی ہو۔ ڈاکٹر صاحب ہوں یا عوام کوئی بھی ملک میں خانہ جنگی، انارکی نہیں چاہتا۔ ان کا مقصد صرف اس فرسودہ نظام سے نجات حاصل کرنا ہے جس نے عوام کا سکھ، چین سب کچھ چھین لیا ہے اور آخر میں یہ بات بھی کہ اس پر توجہ دی جائے کہ کیا بات کہی جارہی ہے یہ نہ دیکھیں کون کہہ رہا ہے۔
تازہ ترین