• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ بھارت میں جب بھی انتخابات کے دن قریب آتے ہیں، اس کی پاکستان اور اسلام دشمنی میں گویا اُبال سا آجاتا ہے۔ یہی صورتحال اس وقت بھی دیکھنے میں آرہی ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو انتخابات کے حوالے سے ناکامی کا خدشہ لاحق ہے اور اس لئے وہ وہی دیرینہ حربہ استعمال کر رہی ہے جو اس کا اور بھارتی سیاست کا خاصا ہے یعنی پاکستان اور ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف دریدہ دہنی، الزامات اور دھمکیاں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس پر کہا ہے ’’بھارت پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کا ارادہ رکھتا ہے، ایسے اشتعال انگیز اور منفی بیانات سے علاقائی امن متاثر ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے عزائم نہ کبھی جارحانہ تھے اور نہ ہوں گے۔ ہمیں کسی کا خوف نہیں کیونکہ اپنے عوام اور فوج کی یکجہتی پر مکمل اعتبار ہے، بھارت نفسیاتی طور پر کشمیر کو کھو چکا ہے‘‘۔ وزیر خارجہ کے بعد پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے واضح کیا کہ پاک فوج کنٹرول لائن پر بھارت کے کسی بھی مس ایڈونچر کا بھرپور جواب دینے کے لئے تیار ہے، پاک فوج کے ہمہ وقت تیار رہنے کی وجہ کوئی جھوٹا بھارتی دعویٰ یا بیان بازی نہیں، بھارتی میڈیا پر نظر آنے والے جنگی جنون کا سبب اس کی اندرونی سیاسی صورتحال ہے۔ پاک فوج کے ترجمان کے مطابق دونوں ملکوں کے ڈی ایم جی اوز کا ہفتہ وار ہاٹ لائن رابطہ اور فلیگ میٹنگز معمول کے مطابق ہو رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ بھارت سے مسلسل خطرہ ہے چنانچہ بطور پروفیشنل آرمی اس کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ بھارت نجانے کیوں اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ وہ اپنی عددی برتری اور ہتھیاروں کے زور پر اس خطے کی بالادست قوت ہے اور دیگر ممالک پر اپنی مرضی چلا سکتا ہے۔ اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ خطے میں وہ اکیلا نہیں، پاکستان بھی ایٹمی طاقت ہے بلکہ اس سے بہتر میزائل سسٹم کی ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور یہ بھی کہ دو ایٹمی طاقتوں کا تصادم کیا ہولناک نتائج لا سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی امن پسندی نے خطے کو خطرات سے بچائے رکھا ہے ورنہ بھارت نے بربادی کو دعوت دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستان جانتا ہے کہ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جا سکتے چنانچہ مسائل کو مذاکرات کی میز پر ہی حل کیا جانا چاہئے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اپنی وکٹری اسپیچ میں یہاں تک کہا کہ ’’باہمی رشتوں میں بہتری کے لئے اگر ہندوستان ایک قدم آگے آئے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھیں گے‘‘ یہی نہیں بعد ازاں بھی انہوں نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ’’مستقبل کی طرف پیش قدمی کیلئے دونوں ملکوں کو کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات حل کرنا ہوں گے۔ غربت مٹانے اور عوامی زندگیاں بہتر بنانے کا نسخہ بات چیت سے مسائل کا حل اور باہمی تجارت ہے‘‘۔ پاکستان نے اپنے خلوص کا عملی ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف سکھوں کے مقدس مقام کرتار پور کا بارڈر کھولنے کا افتتاح کیا بلکہ ہندوئوں کے مقدس مندر کٹاس راج تک سہولیات کی فراہمی کی بات بھی کی۔ افسوس کہ پاکستان کے خلوص کی قدر نہ کی گئی بلکہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں بڑھ گئیں جن کا پاکستان کو جواب دینا پڑا۔ پاکستان کی طرف سے ایسی کوئی پہل کاری نہ ہوئی۔ دوسری جانب تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو قابو کرنے میں ناکامی پر بھارت نے وہ گھسے پٹے الزامات عائد کرنا شروع کر دیئے جو اس کا وتیرہ ہیں، البتہ اس میں یہ اضافہ کر دیا کہ پاکستان سرجیکل اسٹرائیک کرنا چاہتا ہے۔ یہ درفنطنی بھی کشمیریوں پر مظالم سے توجہ ہٹانے اور عالمی برادری میں خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ اب دنیا بھارت کے اصل چہرے سے روشناس ہو چکی ہے۔ بھارت جتنی جلدی یہ حقیقت جان لے بہتر ہے کہ دونوں ایٹمی قوتوں کے پاس سوائے مذاکرات کے کوئی اور راستہ نہیں، مخاصمت کی بجائے معاونت خطے کے روشن مستقبل کی ضامن ہے تاکہ یہاں سے افلاس، بھوک اور بیماری کا خاتمہ ممکن ہو اور خوشحالی کا دور دورہ۔ بھارت ہوش کے ناخن لے اور ایسے بیانات سے گریز کرے جو نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔ دونوں ملکوں کو امن کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا چاہئے نہ کہ بدامنی کی۔

تازہ ترین