• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی ہم سب کا اپنا ہے ۔ اس شہر کے ڈھائی سے تین کروڑ باسی ہیں ، جو نہ صرف پاکستان کے کونے کونے سے آکر یہاں بسے ہیں بلکہ اس خطے کے مختلف ممالک کے لوگ یہاں کے مستقل با شند ے بن چکے ہیں ۔ کراچی والے مختلف رنگا رنگ تہذیبوں اور ثقافتوں کا گلدستہ ہیں ، جنہوں نے کراچی کو ایک متحرک اور توانا شہر بنا دیا ہے لیکن یہ بدقسمت شہر بھی ہے ۔ آج کراچی کی باتیں کرنے کا خیال اس خبر سے آیا ، جس میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کراچی کیلئے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے ، جس کے سربراہ گورنر سندھ عمران اسماعیل ہوں گے ۔ یہ کمیٹی کراچی کی ترقی اور اس شہر کا اصل چہرہ بحال کرنے کی کوشش کرے گی ۔

بات صرف یہ کرنی ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے ہی کراچی کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں ہوتا تھا ۔ اگرچہ برطانوی نو آبادی حکمرانوں نے اس شہر کی ترقی پر توجہ دی لیکن جغرافیائی محل و قوع ، بندرگاہ اور دیگر عوامل کی وجہ سے بھی اس شہر میں اپنی خصوصیات اور ترقی کی صلاحیتیں موجود تھیں کیونکہ نو آبادی تسلط میں رہنے والے اس خطے کا کوئی دوسرا شہر اس قدر ترقی یافتہ نہیں تھا ۔ قیام پاکستان سے قبل بھی اس شہر کی آبادی کثرت پسندانہ ( Pluralistic ) تھی ۔ یہاں مختلف مذاہب ، فرقوں ، نسلی ، لسانی اور قومی گروہوں کے لوگ آپس میں پیار و محبت سے رہتے تھے ۔ یہاں مضبوط بلدیاتی ادارے تھے ۔ صفائی ستھرائی کا نظام بین الاقوامی معیار کا تھا ۔ تاجروں اور سیاحوں کیلئے یہ شہر انتہائی پرکشش تھا ۔ اپنے مزاج میں کثرت پسندی کے ساتھ ساتھ یہ شہر لبرل ، روادار اور بہت متحرک تھا ۔ا س خطے میں کاروبار کا مرکز تھا ۔ یہاں کا انفرا سٹرکچر اور آرکٹیکچر اپنے عہد کے انتہائی ترقی یافتہ شہروں کے معیار کے مطابق تھا ۔ یہاں کا امن مثالی تھا ۔ یہاں کے بازاروں میں دنیا بھر کے لوگ گھوم رہے ہوتے تھے اور یہ حقیقتاً ایک بین الاقوامی شہر نظر آتا تھا ۔

قیام پاکستان کے بعد بھی 1960ء کے عشرے تک یہ شہر اپنے جوہر اور اپنی خصوصیات کو بچا کر آگے بڑھتا رہا ۔ اسی عشرے میں کراچی کی بندرگاہ اس خطے کی سب سے معروف ترین بندرگاہی بن گئی اور اس کے ایئرپورٹ پر ساری دنیا کے جہاز اترنے لگے تھے ۔ کراچی کا بہت خوبصورت چہرہ تھا اور یہ پاکستان کا چہرہ تھا ۔ کراچی اپنے وسیع دامن میں سب کو سمیٹتا گیا ۔ اس نے پاکستان کے فنون و ادب کو ترقی دی ۔ یہ پاکستان کی سیاسی تحریکوں کی نرسری بن گیا ۔ یہاں ہر جگہ شعر و ادب کی محفلیں سجتی تھیں ، موسیقی کے پروگراموں میں لوگوں کا ہجوم جمع ہوتا تھا ، قہوہ خانے اور کیفے ٹیریا ادیبوں ، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے فکری مباحث کے مراکز بنے ہوئے تھے ۔ طلبا، مزدوروں ، وکلا ، سیاسی کارکنوں کی تحریکوں کے چشمے یہیں سے پھوٹتے تھے ۔ یہ شہر اختلاف رائے کا سب سے بڑ امحافظ اور پر امن شہر تھا۔

گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں اس شہر کا اصل چہرہ دیکھا ہو گا ۔ کچھ ملکی اور بین الاقوامی طاقتوں کو ایسا کراچی برداشت نہیں تھا ۔ انہوں نے کراچی کو سیاسی طور پر غلط استعمال کیا ۔ دونوں کے کچھ مقاصد مشترکہ تھے اور کچھ الگ الگ تھے ۔ انہوں نے کراچی کا چہرہ بگاڑنا شروع کیا اور کراچی کا اصل جوہر اس سے چھیننے کیلئے سازشوں کا آغاز کیا ۔ کراچی کی خوبصورتی کومسخ کیا گیا ۔ یہاں کی ترقی کیلئے وسائل کا رخ موڑا گیا لوگوں کو، فرقہ ورانہ ، نسلی ، لسانی اور گروہی بنیادوں پر تقسیم کرکے شہر کو خون میں نہلایا گیا ۔ یہاں کی صنعتیں بند کرائی گئیں ۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ شہر میں لوگ بے روزگار ہونے لگے ۔ یہاں سے قومی اداروں کے دفاتر منتقل کرنے کی مہم چلائی گئی اور بلدیاتی اداروں کو سیاسی جماعتوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔

کراچی تباہی کے جس منصوبے کا شکار تھا ، اس سے نکلنے کیلئے اس نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا لیکن 20 سال حکمرانی کے باوجود پیپلز پارٹی کراچی کو اس عذاب سے نہ نکال سکی ۔ کراچی نے ایم کیو ایم کا ساتھ دیا لیکن دنیا نے دیکھا کراچی تباہی کے آخری دہانے تک پہنچ گیا ۔ کراچی نے اب پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دیا ہے ۔ تحریک انصاف بھی روایتی سیاست کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے ۔ تحریک انصاف کے گورنر اور ارکان سینیٹ ، قومی اور سندھ اسمبلی صرف سیاسی لڑائیوں میں مصروف ہیں ، جو کراچی کے حقیقی مزاج اور جوہر کے خلاف ہے ۔ کراچی کا اب تک یہ تجربہ ہے کہ جس کو جتنا موقع ملا ، اس نے کراچی کو نقصان پہنچایا ۔ کراچی کو نوچا اور دبوچا اور کراچی سے لوٹ مار کی ۔ یہاں کی ایک مربع گز زمین کروڑوں میں فروخت ہوتی ہے ۔ یہاں زمین نہیں ، خلاکی بھی قیمت ہے ۔ عمارتوں کی ایک ایک منزل کی اجازت کیلئے لوگ کروڑوں روپے ’’ مٹھائی ‘‘ کے طور پر دیتے تھے ۔ یہاں کے پارکس اور کھیل کے میدانوں پر قبضہ ہوا اور بلند عمارتوں کے ذریعہ شہریوں کو ہوا اور روشنی سے محروم کیا گیا ، پانی بیچا گیا ،لوگوں کو فتح کیا گیا ۔ ان سے گھر بنانے ، بچیوں کی شادیوں ، گاڑیوں کی خریداری ، کاروبار وغیرہ پر بھتہ وصول کیا گیا ۔ یہاں کے شہریوں سے ہر سانس پر خراج لیا گیا ۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے شاکی کیا گیا ۔ فن ، خرد ، رواداری اور امن پر کاری ضربیں لگائی گئیں ۔ کراچی کو دنیا کا گندا ، خطرناک ، انتہا پسند ، کاروبار کیلئے غیر محفوظ اور بے روزگار اور غریب لوگوں کا شہر بنا دیا گیا ۔ اس شہر کا اصل چہرہ بحال کرنے کیلئے کراچی کی اصل روح تک پہنچنا ہو گا ۔ کراچی میں آج بھی اس دنیا کا انتہائی خوبصورت اور ترقی یافتہ شہر بننے کی صلاحیت موجود ہے ۔ کراچی کی بربادی کے دوران اس خطے کے جو دیگر شہر معاشی طاقت بن کر ابھرے ، وہ ابھی کراچی کے آگے گھٹنے ٹیکنے میں دیر نہیں لگائیں گے اور ایک بار پھر کراچی کو اپنا مرکز تسلیم کریں گے ۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اگر کراچی کا صل چہرہ بحال کرنا ہے تو سب سے پہلے کراچی کے بلدیاتی اداروں کو خود مختار بنانا ہو گا اور ڈیویلپمنٹ فنڈز بلدیات کو دیکر بلدیات کو سارا کام کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔ وہ ماتحت نہیں بلکہ آذاد اور خود مختار ادارہ ہونا چاہئے۔ کراچی کا حقیقی امن بحال کرنا ہو گا ۔ کراچی میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنز سے جو سیاسی اور معاشی مفادات وابستہ ہو گئے ہیں ۔ ان سے جان چھڑانی ہو گی ۔ خطرہ یہ ہے کہ تحریک انصاف ایسا نہیں کر سکے گی کیونکہ وہ اس معاملے کا سیاسی ادراک نہیں رکھتی ۔ دوسرا کام یہ کرنا ہو گا کہ کراچی کی ترقی کے ذمہ دار اداروں خصوصا ترقیاتی اداروں کے ڈی اے ، ایل ڈی اے، ایس بی سی اے اور ایم ڈی اے ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور واٹر بورڈ وغیرہ کی موثر اور خود مختار اداروں کی حیثیت سے تنظیم نو کرنا ہو گی ۔ کراچی کو مالیاتی خود مختاری دلانا ہو گی تاکہ اپنی ترقی کیلئے اپنے وسائل خود خرچ کر سکے ۔ کراچی کا ماسٹر پلان فوری طور پر بنانا ہو گا ، صفائی کا جدید نظام قائم کرنا ہو گا ۔ تجاوزات ہٹانے سے اگرچہ پرانا کراچی کسی حد تک واپس نظر آنے لگا ہے لیکن تجاوزات کا ملبہ نہ ہٹانے سے یہ شہر مزید گندا ہو گیا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لبرل اکنامک پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی ۔ کراچی کے سرمایہ کار اور بزنس مین غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہیں ۔ یہ پاکستان کے قومی سرمایہ دار ہیں ، جو پاکستان کو جدید نو آبادیاتی اور سامراجی شکنجوں سے آزاد کر سکتے ہیں ۔ یہ بیرونی سرمایہ کاری پر انحصار کی مجبوری ختم کر سکتے ہیں ۔ کراچی کو ایک بار پھر سب سے زیادہ روزگار والا شہر بنا سکتے ہیں ۔ تحریک انصاف کو تصادم اور ٹکراؤ کی سیاست سے بھی اجتناب برتنا ہو گا، کراچی میں فن و ادب کا فروغ اور فکری مباحث کا ماحول دوبارہ پیدا کرنا ہو گا اور آرٹس کونسل اور نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس( ناپا ) جیسے اداروں کو مزید مضبوط بنانا ہو گا ۔ کراچی کا جوہر امن ، خوش حالی ، رواداری ، کثرت پسندی ، روشن خیالی ، ترقی اور جدید طرز معاشرت ہے۔ جنہوں نے کراچی کا اصل چہرہ دیکھا ہے ، وہ بھی کراچی کی باتیں کریں اور کراچی کا اصل چہرہ اجاگر کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین