• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آلودہ فضلہ کی درآمد پر چین کی پابندی سے آسٹریلیا کچرے کا ڈھیر بن گیا

پرتھ: جیمی اسمتھ

آسٹریلوی ری سائیکلنگ سینٹر میں درجنوں ملازمین پلاسٹک، کارڈبورڈ اور کاغذ کے بنڈلوں کو چن رہے ہیں، آسٹریلیا چین کی جانب سے ری پروسیس آلودگی والے مواد پر پابندی سے پیدا ہونے والے فضلہ کے عالمی بحران کے فرنٹ لائن پر ہے۔

سوز مغربی آسٹریلیا کے جنرل مینیجر کریگ بارکر نے کہا کہ چین کے اقدام نے ری سائیکل کے قابل مواد کو دوبارہ مینوفیکچر کرنے کیلئے مؤثر طور پر 50 فیصد اہلیت لے لی ہے، جسے اس نے راتوں رات ختم کردیا ہے۔

رنچ یوٹیلیٹی جنوری میں بیجنگ کی اس کی درآمدات کی ری سائیکلنگ کی سختی سے حد کے جنوری میں نفاذ کے ساتھ نمٹنے کیلئے جدوجہد کرنے والی ہزاروں کمپنیوں میں سے ایک ہے۔

آسٹریلیا کی صورتحال تیزی سے بڑھتے ہوئے عالمی مسئلہ کی ایک علامت ہے۔ ممالک جو فضلہ پہلے چین کو بھیجتے تھے، اس سے بھرے ہوئے ہیں، چین اب تک دنیا کے ری سائیکلر کے طور پر کام کررہا تھا۔جیسا کہ آسٹریلیا میں ڈھیر لگنے والے مواد کے حل کے طور پر اسے اکثر ری سائیکلنگ کیلئے کچرے کیلئے مخصوص براہ راست زمین کی بھرائی کیلئے بھیج دیا جاتا ہے، جو ماہرین ماحولیات کے لئے ہولناک ہے۔

سوز نے کہا کہ چین کی پالیسی میں تبدیلی نے آسٹریلیا میں جمع ہونے والے ری سائیکلنگ کی قدر کو نصف کردیا اور خبردار کیا کہ قوم کو فوری طور پر فضلے کیلئے نئی قومی حکمت عملی، انڈسٹری کے ملکی طور پر قابل عمل رکھنے کے لئے تازہ سرمایہ کاری اورری سائیکل مٹیریل کیلئے مضبوط مقامی مارکیٹ کی ضرورت ہے۔

مسٹر بارکر نے کہا کہ ہمیں غیر ملکی ری پروسیسنگ پر انحصار کم کرنا ہوگا اور اس کا مطلب مقامی انفرا اسٹرکچر کی تعمیر اور ری سائیکل شدہ مصنوعات کیلئے طلب پیدا کرنا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ گھریلو ری سائیکلنگ میں آلودگی کو کم کرنے کیلئے صارفین کی تعلیم بھی اہم ہے۔

چین کے قوانین کے اثرات ڈرامائی ہوئے ہیں،چونکہ بڑ؁ پیمانے پر مواد خارج کردیا گیا ہے،جس نےدراامدات کیلئے آلودگی کی سطح 0.5 فیصد یا کم سے کم حد کردی ہے۔ فنانشل ٹائمز کی جانب سے اکٹھا کئے گئے اعداوشمار کے مطابق 2017 کے پہلے نصف حصے میں چین اور ہانگ کانگ نے جی سیون ممالک سے برآمد شدہ پالسٹک فضلے کا 60 فیصد خریدا۔اس سال اسی مدت میں یہ 10 فیصد کم ہوگیا، کیونکہ کمپنیوں نے متبادل مارکیٹوں نے ویت نام، تھائی لینڈ اور ملیشیا تلاش کیں یا ری سائیکلنگ کا سامان ذخیرہ کیا۔

بڑھتی ہوئی آبادی، بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور زیادہ پائیدار طریقوں کو اپنانے میں ناکامی کے نتیجے میں پیدا ہوانے والے فضلے کے عالمی بحران میں چین کی پابندی ایک عنصر ہے۔ عالمی بینک کی اسٹڈی نے تخمینہ لگایا کہ فضلہ کی عالمی پیداوار میں 2050 تک آج کے مقابلے میں سالانہ دو ارب ٹن سے 3.4 ٹن کی شرح سے اضافہ ہوگا۔

عالمی اقتصادی فورم نے پیش گوئی کی ہے کہ اس وقت تک دنیا کے سمندروں کو بھرنے والے پالسٹک کا وزن سمندر میں پائی جانے والی مچھلی سے کہیں زیادہ ہوگا۔

آسٹریلیا فضلے کے ان عالمی مسائل کی عکاسی کررہا ہے۔ سوز آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹو مارک وینہیوک نے مارچ میں پارلیمانی انکوائری میں بتایا کہ چین کے ری سائیکلنگ پر مجازی پابندی نے انڈسٹری کو بحرانی حالت میں بھیج دیا تھا۔

آسٹریلیا کا چین کو برآمد کئے جانے والے 35 فیصد پلاسٹک اور 30 فیصد کاغز اور کارڈ بورڈ سمیت تقریبا 13 لاکھ ٹن ری سائیکلنگ مواد متاثر ہوا ہے۔ مجموعی طور پر کچھ حصہ کو بیرون ملک ہی نئی ہدایر دی گئیں لیکن حکومت نے اکتوبر میں نتجیہ اخذ کیا کہ ری سائیکلڈ میٹریل کے بڑے حجم کوآلودگی اورملے جلے فضلہ کی نوع پر تیکنیکی ممانعت کی وجہ سے کچرے کیلئے مخصوص زمین کی بھرائی کیلئے بھیج دیا گیا۔

کثیرالقومی کمپنی ریمونڈس نے فروری میں میلبورن میں صارفین کو ایک انتباہ کرتے ہوئے لکھا کہ پروسیسنگ سینٹر اب فضلہ مزید چین کو نہیں بھیج سکتے جس کی وجہ سے کچھ ری سائیکلنگ کو دفن کرنا پڑے گا۔ اپریل میں کونزلینڈ میں اپسوئچ کونسل نے خبردار کیا کہ چین کے بحران کی وجہ سے یہ اپنا تمام ری سائیکلنگ کا سامان کچرہ ڈالنے کی مخصوص جگہ پر بھیج دے گا،اگرچہ بعد ازاں اس نے یہ تمام مواد زمین برد نہیں کرے گا کی شرط کے تحت ری سائیکلنگ کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔

آسٹریلوی لوکل گورنمنٹ ایسوسی ایشن کے صدر ڈیوڈ او لوفن نے کہا کہ مخصوص ری سائیکلنگ کو زمین برد کرنے کے خیال پر عوام شدید غصہ میں تھے۔

انہوں نے کہا کہ یقین دہانی کا بہترین راستہ تھا کہ اس طرح کے مواد کی قدر کو بڑھانے کی پالیسیوں کے فروغ کیلئے ری سائیکلنگ کا مواد زمین برد کرنے کیلئے سمت تبدیل نہیں کی جارہی۔

ڈیوڈ او لوفن نے کہا کہ حکومت کو مصنوعات میں ٹائر سے ری سائیکل شدہ پلاسٹک اور ربڑ کے استعمال کا حکم جاری کرنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ تارکول کو ہم سڑک کی تعمیر میں استعمال کرتے ہیں۔ ری سائیکل شدہ پلاسٹک کے مقابلے میں غیر استعمال شدہ یا نئے پلاسٹک کی تیاری پر کم لاگت آتی ہے، لہٰذا ہمیں ری سائیکل شدہ مواد کے استعمال کی حوصلہ افزائی یا ترغیب دینے کرنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ سے زیادہ ری سائیکلنگ سے مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

2025 میں ہر روز پیدا ہونے والے فضلے کی صفائی کیلئے کچرہ اٹھانے والے ٹرکوں کی کتنے کلومیٹرز ضرورت ہوگی ۔

آسٹریلیا کی وفاقی اور ریاستی حکومتیں فضلے کیلئے قومی پالیسی تیار کرہی ہیں، جس کا مقصد زیادہ ری سائیکل کرنا اور فضلے کی کم پیداوار، اور نقصان دہ پلاسٹک کے استعمال کو بتدریج کم کرنا ہے۔ تاہم مطلوبہ اہداف تک میں اتفقا ہے، جیسا کہ 2030 تک فضلہ کی پیداوار میں 10 فیصد تک کمی لانا، ری سائیکلنگ میں اضافہ اور80 فیصد تک فضلہ سے توانائی کی بحالی ، اور ری سائیکل شدہ مواد کیا 30 فیصد استعمال ابھی تک ناممکن ثابت ہوا ہے۔

آسٹریلیا کی وزیر ماحولیات نے اس ماہ ریاستی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ کم از کم آسٹریلوی شہریوں کیلئے کم سے کم فضلہ اور صاف ترین قدرتی ماحول کا موقع سیاسی مصالحت پرستی کے نام پر قبضہ کرلی گیا ہے۔

اہداف پر اتفاق میں ناکامی نے بھی ری سائیکل انڈسٹری کو مایوس کیا، جس نے خبردار کیا کہ جنوبی مشرقی ایشیا بھی غالبا چین کے زہریلے فضلے پر پابندی کے فیصلے کی پیروی کرے گا، لہذٰا آسٹریلیو انڈسٹری کیلئے مسائلہ شدت بڑھ رہی ہے۔ تھائی لینڈ نے بھی اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ 2021 تک غیر ملکی فضلہ پر پابندی لگا دے گا۔

مسٹر بارکر نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ ملائیشیا نے عارضی پابندی عائد کی اور ہم نے دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کو ری سائکلنگ کی درآمد کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے دیکھا ہے۔یہ ہمارے لئے مکمل خطرہ اور ایک پریشان کن مسئلہ ہے۔ 

تازہ ترین