• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اپنے آپ کو جمہوریت کے اندھے عاشقوں میں شمار کرتا ہوں۔ اندھا عاشق وہ ہوتا ہے جو اپنے معشوق کی خوبصورتی یا بدصورتی نہیں دیکھتا اور نہ ہی اسے معشوق کی کمزوریاں نظر آتی ہیں۔ عشق نامراد ہوتا ہی اندھا ہے۔ میرا جمہوریت سے عشق پرانا ہے چنانچہ میں ہر فوجی آمریت کے دور میں زیر عتاب رہا ہوں۔قربانی دینے کے لئے میرے پاس فقط اک نوکری تھی جسے ہمیشہ دائو پہ لگائے رکھا ۔ ایوب کے دور میں ،میں ایک ادنیٰ طالب علم تھا۔ ایم اے میں پہنچا تو پیٹ میں جمہوریت کا درد ذرا زیادہ ہونے لگا۔چنانچہ کچھ ایسے باغیانہ مضامین لکھ مارے جنہیں چھاپنے کے لئے کسی اخبار میں بھی دل گردہ نہیں تھا۔ بعداز خرابی بسیار میاں محمد شفیع (م۔ش) نے طیش میں آکر میرے مضامین اپنے ہفت روزہ ’’اقدام‘‘ میں چھاپ دیئے۔پتہ نہیں ان پہ کوئی دبائو پڑا یا نہیں لیکن مجھے ایک روز گورنمنٹ کالج لاہور کے نہایت مہربان اور شفیق پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد مرحوم نے اپنے دفتر میں بلا کر یہ خوشخبری سنائی کہ محکمہ تعلیم کی جانب سے تمہیں کالج سے نکالنے کا حکم نامہ آیا ہے ۔زندگی کا ظالمانہ مذاق ملاحظہ فرمائیے کہ بعدازاں میں خود اس صوبائی محکمہ تعلیم کا سیکرٹری رہا لیکن درمیان میں تقریباً تین دہائیاں چپکے سے گزر چکی تھیں۔ڈاکٹر نذیر احمد نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر سمجھایا اور کہا کہ نہ اپنا تعلیمی کیریئرخراب کرو اور نہ ہی جوان خون کے جوش کو زندگی برباد کرنے دو۔ ساتھ ہی انہوں نے مجھے تھوڑی سی ’’پُھوک‘‘ بھی دی کہ تم اس کالج کے نمایاں، ادبی میدان میں سرگرم طالب علم ہو کیوں اپنے مستقبل پہ ڈاکہ ڈالتے ہو۔ مختصر یہ کہ ہمارے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ میں جب تک طالب علم ہوں حکومت کے خلاف نہیں لکھوں گا اور پرنسپل صاحب اس یقین دہانی کے ساتھ حکومت کو اپنا نوٹس واپس لینے پر آمادہ کریں گے۔

میرے محترم دوست نما استاد پروفیسر محمد منور ضامن ٹھہرے۔یوں میں بال بال بچا اور بقایا ایک سال اپنے وعدے پہ قائم رہا۔ ضیاء الحق کے دور میں مجھے سروسز ٹربیونل سے لیکر سپریم کورٹ تک مقدمہ لڑناپڑا کوئی چھ سات برس میرے سر پر تلوار لٹکتی رہی ۔ایک قلمی نام سے لکھے کالم پر صدر صاحب اس قدر غصے میں آئے کہ کابینہ میٹنگ میں فرمایا ’’صفدر کو اُلٹا لٹکا دو‘‘ قلمی نام کا بھانڈا اخبار نے پھوڑ دیا تھا۔اس کابینہ کے بہت سے پرانے اراکین دنیا سے رخصت ہو چکے ماسوا محترم راجہ ظفر الحق صاحب جو ماشا اللہ ’’ابھی تک جوان ہیں ‘‘اور جمہوریت کے علمبردار بن چکے ہیں۔جنرل مشرف کے دور میں مجھے او ایس ڈی بنا دیا گیاتاہم میں نے لکھنے کا مشن جاری رکھا۔ جب کبھی حکومت پر ضرب لگاتا تو مجھے اپنے لینڈلائن فون پر گالیاں سننے کو ملتیں ، گمنام گالیاں دینے والے دھمکیوں اور مغلظات سے سجی ای میلز بھی بھجواتے اور کبھی کبھار موبائل پر گالیوں سے تواضع کرتے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جنوری 2005ء سے گمناموں کی مجھ سے ’’محبت‘‘ میں قدرے تیزی آگئی اور بارشِ سنگ میں کچھ ایسے سیاست دان بھی شامل ہو گئے جو جنرل مشرف کے عاشقوں اور وفاداروں میں شمار ہوتے تھے۔ گمنام کا مطلب آپ جانتے ہیں کہ ’’خفیہ والے ‘‘ البتہ ایک وفادار سیاست دان کے بارے میں اندازہ تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو آج کل جناب عمران خان کے عشق میں مبتلا ہو کر ان کے قصیدے پڑھتا اور مخالفین کو حسب معمول سنگسار کرتا رہتا ہے ۔گویا مشرفی دور کی تربیت ابھی تک کام آ رہی ہے ۔شاید اپنے دو بڑے سیاسی مخالفین مسلم لیگ ن اور پی پی پی کو دی جانے والی گالیوں سے متاثر ہو کر مشرف نے عمران خان کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔

بات ذرا لمبی ہو گئی اور درمیان میں اپنی ’’بپتا‘‘ بھی گھس آئی ۔اس کے لئے معذرت ...یہ رام کہانی سنانے کا مقصد یہ تھا کہ میں جمہوریت کا اس قدر اندھا عاشق ہوں کہ مجھے اس میں کوئی کجی نظر نہیں آتی اور جب مختلف سیاسی پارٹیوں کے جانثار کارکن بات بات پہ جمہوریت کے حسن کا ذکر کرتے ہیں تو مجھے یہ بھی نظر نہیں آتا کہ وہ جسے خوبصورتی کہہ رہے ہیں وہ دراصل خوبصورتی نہیں بلکہ پرلے درجے کی بدصورتی ہے۔اندھے عشق نے میری آنکھوں پہ پردہ ڈال رکھا ہے۔

چند روز قبل میرے ایک دیرینہ دوست کئی برسوں بعد ملنے آئےوہ انگلستان میں پائے جاتے ہیں اس لئے ملاقات برسوں بعد ہی ہوتی ہے۔ ہم چائے پی رہے تھے کمرے میں ٹیلی وژن چل رہا تھا، ایک چینل پر تین سیاسی نامور گتھم گتھا تھے۔ حسبِ معمول دال جوتیوں میں بٹ رہی تھی، ایک صاحب غصے میں فرما رہے تھے کہ آپ کے لیڈروں نے ملکی خزانہ لوٹ کر خالی کر دیا ہے ۔دنیا بھر میں جائیدادیں بنالی ہیں خود امیر لیکن قوم کو غریب کر دیا ہے۔یہ اربوں روپوں کی امریکہ، لندن، فرانس، دبئی میں جائیدادیں کیسے بنیں۔ہم اس کا حساب لیں گے اور لوٹا ہوا سرمایہ واپس لائیں گے، دوسرے صاحب ان سے بھی اونچی آواز میں اپنے معصوم اور نہایت ایماندار لیڈروں کا دفاع کرتے ہوئے فرما رہے تھے ۔ہم نے یہ احتساب کئی بار بھگتا ہے، ہم ہر عدالت سے سرخرو ہو کر نکلے ہیں، کوئی مائی کا لال ہم پر کرپشن ثابت نہیں کر سکا نہ منی لانڈرنگ کا ثبوت دے سکا ہے ۔حکومت نے مخالفین کو دبانے اور راستے سے ہٹانے کے لئے احتساب کا ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ پہلے حملہ آور نے بات کاٹتے ہوئے زبان کی رائفل سے فائر کیا کہ آج تک آپ منی ٹریل دے نہیں سکے کیونکہ آپ نے کمیشن اور رشوت ملک سے باہر رکھی۔ اپنے لیڈر کی ذات میں فنا نامور سیاست دان بولا ہم نے کوئی کمیشن نہیں لیا۔لیا ہوتا تو جے آئی ٹی ثبوت ڈھونڈھ لاتی۔ وفاداری کے ترانے سنتے میرا دوست قدرے پریشان ہوگیا۔ اس نے ٹی وی آف کیا اور مجھ سے پوچھا ڈاکٹر صاحب پاکستان کے لیڈروں کی غیر ملکی جائیدادوں کی تفصیلات انٹر نیٹ پر موجود ہیں ۔غیر ملکی اخبارات بھی ان جائیدادوں پر آنسو بہاتے رہتے ہیں۔ہر شخص جانتا ہے غیر ممالک میں اتنی مہنگی جائیدادیں کیسے بنیں۔کیا ان باشعور کارکنوں اور پارٹی لیڈروں کو اپنے رہنمائوں کی جائیدادوں اور کارناموں کا علم نہیں؟کیا ان کو وہ محلات نظر نہیں آتے ؟کیا ان کو اپنے لیڈروں کا دفاع کرتے ہوئے جھجک یا شرم محسوس نہیں ہوتی ؟کیا ان کا ضمیر ملامت نہیں کرتا؟کیا ان کو احساس نہیں کہ وہ اپنے لیڈروں سے وفا کے تقاضے نبھاتے ہوئے اپنے رب سے بے وفائی کر رہے اور جھوٹ بول رہے ہیں کیا اس ملک اور قوم کا ان پر کوئی حق نہیں، پاکستانی جمہوریت کی بنیاد ہی جھوٹ اور منافقت پر ہے ؟میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ دوست یہی ہماری جمہوریت کا حسن ہے۔ تمہیں علم ہے میں جمہوریت کا اندھا عاشق ہوں اس لئے مجھے اس میں کوئی بدصورتی نظر نہیں آتی۔

تازہ ترین